• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالت کا کمرا سائلین سے کھچاکھچ بَھرا ہوا تھا، جوان، بوڑھے دیہاتیوں اور شہری بابوؤں سمیت ہر طرح کے لوگ اپنے اپنے مقدّمات کی باری کا انتظار کر رہے تھے اور اُن کے کان عدالتی ہرکارے کی آواز کی طرف لگے ہوئے تھے، جو تھوڑی تھوڑی دیر بعد بلند آواز میں کسی نہ کسی سائل کا نام پکارتا اور وہ آنکھوں میں اُمید کی کرن لیے اپنے وکیل کے ساتھ جج صاحب کے سامنے پیش ہوجاتا۔ اُن ہی میں سے ایک راحت بی بی بھی تھیں، جو اپنے جواں سال بیٹے کے ساتھ موجود تھیں۔

ادھیڑ عُمر راحت بی بی کے لیے عدالت کا ماحول بالکل اجنبی تھا۔ آج سے پہلے اُنہوں نے کمرۂ عدالت،جج صاحب کی کرسی اور دلائل دیتے وکیل صرف فلموں، ڈراموں ہی میں دیکھے تھے۔ وکیل نے راحت بی بی کو صرف ایک بات سمجھا ئی تھی کہ اُنہیں صرف سچ بولنا ہے اور وکیل کی اس بات پر راحت بی بی قدرے مطمئن تھیں کہ وہ دین دار اور سچّی خاتون تھیں۔

راحت بی بی سے کچھ دُور اُن کا بھائی اپنے وکیل اور مُنشی کے ساتھ براجمان تھا۔ دونوں بہن، بھائی ایک دوسرے سے قطعی لاتعلق بیٹھے تھے۔ آج سے پہلے ان ماں جائے سگے بہن بھائی کے درمیان اگر کوئی چھوٹی، بڑی رنجش ہوجاتی، تو ماں باپ جلدہی مسئلہ حل کروا دیتے، مگر کیا کیا جائے ،بزرگوں نے آب ِ حیات تو پیا نہیں ہوتا کہ ہمیشہ زندہ رہیںاور پھر ان کے دنیا سے چلےجانے کے بعد گھر کی باتیں گھر سے باہر نکل کر عدالتوں یا پنچایتوں تک پہنچ جاتی ہیں۔

راحت بی بی اور اُن کا اکلوتا بھائی اپنے والدین کے ساتھ ایک کچّے پکّے گھر میں رہتے تھے۔ گزر بسر کے لیے وراثت میں ملی تھوڑی سی زرعی زمین تھی، جس پر اُن کا باپ کاشت کاری کرتا تھا۔ کم وسائل کے باوجود والدین نے دونوں بچّوں کی تعلیم وتربیت میں کوئی کمی نہیں رکھی تھی۔ بیٹی کو دس جماعتوں تک پڑھا کر بیاہ دیا، جب کہ اکلوتے بیٹے نے کالج تک تعلیم مکمل کی اور پھر سرکاری ملازم ہوگیا۔ والدین کی وفات کے بعد کچھ عرصے تک تو دونوں بھائی، بہن کا خُوب ملنا جُلنا رہا،راحت بی بی مہینے، دو مہینے میں میکے کا چکّر لگا لیتیں، مگر پہلے رفتہ رفتہ ملنا جُلنا عید، تہواروں تک محدود ہوا، پھر جب دونوں کے بچّے بڑے ہوئے، تو تہوار بھی الگ الگ گزرنے لگے۔

ایک روز راحت بی بی کو عدالت کی طرف سے ایک لفافہ موصول ہوا، جسے دیکھ کروہ گھبرا گئیں۔’’امّاں!یہ عدالتی نوٹس ماموں نے بھجوایا ہے۔‘‘بیٹے نے کچھ دیر کاغذات کا بغور جائزہ لینے کےبعد کہا۔ ’’بھائی کی طرف سے خط آیا ہے…اللہ خیر کرے، ٹھیک تو ہے میرا بھائی…!!‘‘راحت بی بی قدرے پریشان ہو کر بولیں۔’’ہاں، امّاں! ماموں تو ٹھیک ہیں، مگر…‘‘وہ کچھ کہتے کہتے رُک گیا۔’’مگر کیا؟ جلدی بتاؤ، سب خیر تو ہے ناں؟ میرا تو دل ڈوبا جارہا ہے۔‘‘ 

راحت بی بی نے کہا۔ ’’ماموں ٹھیک ہیں، مگر اُنھوں نے عدالت میں دعویٰ کیا ہے کہ نانا کی زمین اور گھر کے وہ اکیلے حق دار ہیں اور اُن کے علاوہ نانا کی کوئی اور اولاد نہیں اور وہ یہ ساری جائیداد بیچنا چاہتے ہیں۔‘‘ ’’تمھارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا…‘‘راحت بی بی چلّائیں۔ ’’ایسا کیسے کہہ سکتا ہے میرا اکلوتا بھائی، تم دوبارہ دھیان سے پڑھ کر مجھے ٹھیک ٹھیک بتاؤ کہ اس میں کیا لکھا ہے۔‘‘ امّاں پریشانی میں بولیں۔’’امّاں !ماموں کا کہنا ہے کہ وہ نانا ابّو کی اکلوتی سگی اولاد ہیں، جب کہ نانا، نانی نے ایک یتیم، بے سہارا بچّی، راحت بی بی کو پال پوس کر بڑا کیا اور پھر اُس کی شادی بھی کی، لیکن یہ اُن کی سگی بیٹی نہیں ہے، لہٰذا اُس کا جائیداد میں کچھ حصّہ نہیں۔‘‘ بیٹے نے تحمّل سے بتایا۔ ’’لے پالک؟ ارے ہم تو سگے بہن بھائی ہیں، بھائی میرے لیے ایسا کیسے کہہ سکتا ہے۔ تم سے یقیناً انگریزی سمجھنے میں کوئی غلطی ہو رہی ہے۔ ہم دونوں ماں جائے ہیں، اکٹھے پلے بڑھے ہیں۔‘‘امّاں آنکھوں میں آنسو لیے بہت رندھے لہجے میں بول رہی تھیں۔ ’’امّاں! دولت بڑے بڑوں کا خون سفید کر دیتی ہے۔ خیر، دو دن بعد عدالت میں پیشی ہے۔وہاں سب فیصلہ ہو جائے گا کہ کون سگا ہے، کون سوتیلا۔‘‘ بیٹے نے نوٹس لفافے میں رکھتے ہوئے کہا۔

آج عدالت میں یہ ہی فیصلہ ہونا تھا کہ راحت بی بی اپنے ماں باپ کی سگی اولاد ہیں یا لے پالک۔اس لیے وہ بطور ثبوت اپنی میڑک کی سند اور نکاح نامہ ساتھ لائی تھیں، جس پر ولدیت کے خانے میں اُن کے باپ کا نام اور انگوٹھے کا نشان موجود تھا، اس کے علاوہ بزرگ رشتے داروں کو بھی گواہ کے طور پر پیش کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں، مگر سب سے بڑی گواہی تو خود اُن کی تھی۔ بالآخر، عدالتی ہرکارے نے اُن کے بھائی کے نام کی آواز لگائی اور پیشی کا وقت آگیا۔جج صاحب نے ایک نظر سامنے کھڑے لوگوں پر ڈالی اور پھر میز پر پڑے کاغذات اُٹھا کر پڑھنا شروع کر دیئے۔’’کیا راحت بی بی عدالت میں حاضر ہیں؟‘‘ اُنہوں نے وکیل سے سوال کیا۔ ’’جی جناب، میری موکلہ راحت بی بی موجود ہیں۔‘‘ وکیل نے راحت بی بی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔’’راحت بی بی آپ کے بھائی، ریاضت خان نے دعویٰ کیا ہے کہ آپ اُن کی سگی بہن نہیں ہیں۔ کیا اُن کی یہ بات درست ہے؟‘‘

جج صاحب نے راحت بی بی سے سوال کیا۔وہ اس سوال کے جواب کی تیاری کب سے کر رہی تھیں، مگر جج صاحب کی بات سُن کر کچھ گھبرا سی گئیں۔ اُنہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا بولیں،آج سے پہلے تک انہیں اپنے سگے ہونے پر کوئی شک و شبہ نہیں تھا، مگر بڑا بھائی، جو اُن سے بہت پیار کرتا تھا، اُس نے ایسا کیوں کہا، وہ دونوں ایک ہی ماں کی گود میں پلے بڑھے، ایک آنگن میں اکٹھے کھیل کودکر جوان ہوئے تھے۔بچپن سے شادی تک کی تمام یادیں اُن کے دماغ میں کسی فلم کی طرح چلنے لگیں۔ 

وکیل نے راحت بی بی کو یوں خاموش دیکھا، تو اُن کی ہمّت بندھاتے ہوئے کہا۔’’بولیں، راحت بی بی، جو بھی بات ہے، سب سچ سچ بتائیں۔‘‘ وکیل کی بات سن کر انہوں نے بات شروع کی۔’’جج صاحب! آج سے پہلے تو مجھے یقین تھا کہ مَیں اپنے ماں، باپ کی سگی اولاد ہوں، لیکن بھائی کی بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کیا مَیں واقعی اس کی بہن ہوں یا ہمارے ماں، باپ نے ترس کھا کر مجھے پالا۔‘‘ بہن کی بات اور سپاٹ لہجہ سُن کر بھائی کا چہرہ خوشی سے کِھل اُٹھا کہ اب تو وہ یہ کیس جیت ہی جائے گا۔ ’’جج صاحب! میرا بھائی ایک نیک اور پیار کرنے والا انسان ہے۔ 

اس نے ہمیشہ میرا بہت خیال رکھا، یہ بلاوجہ جھوٹ نہیں بولتا، ویسے تو میرے ماں، باپ نے کبھی مجھے نہیں بتایا کہ مَیں لے پالک ہوں اور نہ ہی مَیں نے آج سے پہلے یہ بات اپنے بھائی یا کسی اور کے منہ سے کبھی سُنی، مگر اگر مَیں اپنا بچپن یاد کروں، تو مجھے لگتا ہے کہ شاید میرا بھائی ٹھیک ہی کہہ رہا ہے۔‘‘ ’’آپ صاف صاف بتائیں کہ کہنا چاہتی ہیں؟‘‘جج صاحب نے وضاحت طلب نظروں سے اُن کی طرف دیکھا۔ ’’آج مجھے کچھ پُرانی باتیں یاد آرہی ہیں، جو سُن کر شاید آپ میرے سگے یا لے پالک ہونے کا فیصلہ آسانی سے کر سکیں گے۔

سخت گرمیوں کے دنوں میں ابّا مجھے اور بھائی کو اپنی سائیکل پر اسکول سے گھر واپس لارہے تھے، اُس دن پیاس کے مارے میرا بُرا حال تھا، مَیں نے ہمّت کرکے ابّا سے بوتل پینے کی فرمائش کر دی، مگر انہوں نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ ’’گھر میں امّاں نے برف والا پانی بنایا ہوگا‘‘ تھوڑی دیر بعد بھائی نے بھی بوتل پینے کی فرمائش کر دی، لیکن اس کی بات ابّا نے رَد نہ کی اور اُسے دُکان سے ایک بوتل لے دی اور ساتھ ہی کہا کہ ’’دونوں بہن، بھائی آدھی آدھی پینا۔‘‘مگر شاید بھائی نے یہ بات نہیں سُنی یا پھر اُسے بہت پیاس لگی تھی کہ اُس نے چند ہی سانسوں میں ساری بوتل ختم کردی اور اس دوران ایک بار بھی میری طرف نہیں دیکھا اور مجھے بھی کچھ بُرا نہ لگا۔ 

مَیں نے سوچا، وہ لڑکا ہے، اسکول میں بھاگتا، دَوڑتا ہے، اُسے زیادہ پیاس لگتی ہے، میرا کیا ہے، اسکول میں ایک ہی جگہ بیٹھی رہتی ہوں اور پیاس بھی کم لگتی ہے اور ویسے بھی ابّانے مجھے ایک چھوٹے سے سرکاری اسکول میں داخل کروایا تھا، جہاں بھاگنے کے لیے کوئی گراؤنڈ نہیں تھااوربھائی کا اسکول میرے اسکول سے بہت بڑا تھا، جس کی فیس بھی زیادہ تھی۔ شاید مَیں گود لی ہوئی اولاد ہی ہوں گی، جب ہی ابّا نے مجھے چھوٹے سے اسکول میں داخل کروایا۔‘‘ راحت بی بی کی باتیں سنتے ہوئے اُن کے بھائی کے چہرے کی خوشی آہستہ آہستہ ماند پڑنے لگی، اُس کی نظریں تو بہن کی طرف،لیکن دماغ کہیں اور تھا۔

’’جج صاحب! اسی طرح عید، تہوار پر امّاں، ہمیشہ ہی بھائی کے نئے کپڑے بناتیں۔ ابّا کہتے تھے ،بھائی عید کی نماز پڑھنے اُن کے ساتھ جاتا ہے، وہ لڑکا ہے، اس لیے اُسے نئے کپڑوں کی زیادہ ضرورت ہے۔ شاید میں لےپالک ہی تھی، اسی لیے ہر عید پر بھائی کے نئے کپڑے بنتے۔ گھر میں جب بھی کوئی اچھی چیز پکتی، امّاں سب سے پہلے ابّا اور بھائی کے لیے الگ نکال کر رکھ دیتیں اور جو باقی بچتا، وہ ہم دونوں ماں بیٹی کے حصّے میں آتا۔ بھائی نے کبھی امّاں سے نہیں پوچھا کہ راحت بی بی نے بھی کھانا کھایا یا نہیں، وہ تو یہ بھی نہیں جانتا ہو گا کہ مَیں کیا شوق سے کھاتی ہوں، لیکن مجھے بھائی کی پسند کی ساری چیزیں بنانا آتی ہیں۔ 

امّاں نے بھائی اور ابّا کے پسند کے سارے سالن مجھے خاص طور پر پکانا سکھائے تھے۔مَیں نے سُنا ہے، بھائی زمین بیچنا چاہتا ہے اور اُسے یہ ڈر ہے کہ کہیں مَیں اس میں اپنا حصّہ نہ مانگ لوں، لیکن بھائی یہ بھول گیا کہ جائیداد کا فیصلہ تو ابّا نے اپنی زندگی ہی میں کر دیا تھا۔ میری رخصتی کے وقت ابّا میرے پاس آئے، مجھے گلے لگایا اور روتے ہوئے کہا کہ ’’بیٹی! تم اس گھر سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہورہی ہو، اب سُسرال ہی تمھارا اصل گھر ہے۔‘‘ پھر جب بھائی کی شادی ہوئی، تو ابّا نے بھابھی کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر تے ہوئے کہا کہ ’’آج سے یہ گھر تمہارا ہوا۔‘‘تو جج صاحب! مَیں ابّا کی نصیحت کیسے بھول سکتی ہوں، اُس گھر اور زمین کا اصل مالک بھائی اور اُس کی بیوی ہیں۔

ان کی مرضی کہ اپنی جائیداد جب چاہیں بیچ دیں، میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ راحت بی بی کا بیان ختم ہوا، تو اُن کا بیٹا، جو بڑے غور سے ساری باتیں سُن رہا تھا، ماں سے لپٹ کر رونے لگا، عدالت میں موجود بہت سے لوگوں کی آنکھیں نم تھیں، مگر راحت بی بی پہلے سے زیادہ پُراعتماد اور پُرسکون تھیں۔اب فیصلہ جج صاحب نے کرنا تھا، جو راحت بی بی کے خاموش ہونے کے بعد جلدی جلدی کاغذ پر کچھ لکھ رہے تھے۔ اُدھر راحت بی بی کے بھائی کی حالت غیر ہو رہی تھی، وہ سب سے الگ تھلگ جائیداد کے کاغذوں کا تھیلا پکڑے ، زمین پر نظریں گاڑےکھڑا تھا، جب کہ اُس کا وکیل اور مُنشی اُسے یقین دلا رہے تھے کہ فیصلہ ہر صورت اُن ہی کے حق میں ہوگا کہ راحت بی بی نے توخود اپنے لےپالک ہونے کا اعتراف کرلیا ہے۔ مگر وہ شاید ان سب باتوں سے بالکل لاتعلق، خاموش تھا۔

اس سے قبل کہ جج صاحب کوئی فیصلہ سُناتے، وہ ایک دَم اپنی کُرسی سے اُٹھا اور اپنی بہن کے پاس جا پہنچا۔ جج صاحب سمیت سب لوگ اُس کی طرف متوجّہ تھے۔’’راحت! میری بہن، مجھے معاف کردو، مجھے آج احساس ہوا کہ مَیں جو کچھ بھی ہوں، تمھاری قربانیوں ہی کی بدولت ہوں، تمھاری محبّت ہی نے ہم سب کو اکٹھا کیے رکھا، تم میری سگی بہن ہو۔ جائیداد کے لالچ نے مجھے اندھا کر دیا تھا، اس جائیداد کی حقیقی وارث تم ہی ہو۔اس گھر، زمین سب میں تم حصّے دار ہو۔‘‘ اُس نے جائیداد کے کاغذ ات اپنی بہن کے قدموں میں پھینکتے ہوئے اُسے گلے لگا لیا۔ 

جج صاحب، جو فیصلہ لکھتے لکھتے دونوں بہن بھائی کی طرف متوجّہ ہوگئے تھے، اب دوبارہ کچھ لکھنے میں مصروف ہوگئے۔ کچھ دیر بعد اُنہوں نے اپنا لکھا طویل فیصلہ پڑھ کر سُنایا، تو راحت بی بی کو کچھ سمجھ نہ آیا، لیکن جج صاحب کی آخری بات اُن کے ذہن پر نقش ہوگئی۔ اُنھوں نے عدالت میں موجود سب لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاـ’’تمام والدین اور حضرات کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ خواتین کو جائیداد میں اُن کاپورا حصّہ ،حق دیں اور زندگی میں بھی اُن کے حقوق کی حفاظت کا پورا خیال رکھیں کہ یہ حکمِ الٰہی بھی ہے اور اس مُلک کا قانون بھی۔‘‘