کبھی کبھی مغالطوں کا سمندر پار کرکے حقائق کے ساحلوں تک پہنچنے کیلئے ’’تکرار‘‘ کے پتوار بہت ضروری ہوتے ہیں ۔ ویسے بھی غور کریں کہ سانس لینے کے عمل سے لیکر گیت اور ورد تک ،زمین کی گردش رقص نما سے لیکر سورج اور چاند کی آنکھ مچولی تک زندگی تکرار کے علاوہ اور ہے ہی کیا ؟
پاکستان کو پیچیدہ، بے پناہ اور ان گنت مسائل کا سامنا ہے مثلاً معیشت کی کمر کے مہرے ٹوٹے ہوئے ہیں، اجتماعی اخلاقیات کی لاش میں کیڑے پڑ چکے، دفنانے والا کوئی نہیں، کرپشن پاک چین دوستی کی طرح ہمالیہ سے اونچی اور سمندر سے گہری ہے ، دہشت گرد گفتگو پر آمادہ نہیں، ہندوستان میں نریندرh مودی جیسے ’’مسلمان دوست‘‘ کی حکومت متوقع ہے، نیٹو فورسز کو آنے سے تو روک نہ سکے، جانے سے روکا جا رہا ہے، مختلف قسم کی توانائی کے بحران نے عوام کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے، مہنگائی کنٹرول سے باہر، بیروزگاری عروج پر، بڑھتی آبادی کا دبائو تباہ کن ---نہ کوئی سمت نہ منزل اور حکمران ایسے جو اوسط درجہ کے بھی نہیں ۔ایسے میں یہ آرٹیکل چھ کے چھکے لگا کر ’’بارہ اکتوبر ‘‘ کا حساب برابر کرنے کے جنون میں مبتلا ہیں حالانکہ ایسی حرکتوں سے مارچ میں بھی اکتوبر بپا ہو سکتا ہے ۔ منافقت کی انتہا یہ کہ پرویز مشرف کو سنگلی آئوٹ کرکے انتقام کے مارے معاملہ 3نومبر سے شروع کرنا چاہتے ہیں حالانکہ 3نومبر تو 12اکتوبر کے بطن سے برآمد ہونے والا عجیب الخلقت بچہ تھا ۔ایسی تیسی ایسی جمہوریت کے جو 62-63کے ساتھ اجتماعی زیادتی پر تو تالیاں بجاتی ہے لیکن یہ چھپن چھری آرٹیکل چھ پر انجمن کی طرح چھ چھ فٹ کی فحش چھلانگیں لگاتی ہے ۔ انتقام سے نکل کر ملکی انتظام کا سوچو لیکن اگر آمر کے ذریعہ کسی ادارہ کو بھی فکس اپ کرنے کا شوق ہے تو پھر پھانسی گھاٹ بہت لمبا اور جلاد سینکڑوں میں درکار ہوں گے اور باقی سب کچھ پل صراط کی تیز دھار پر ۔اور کیا واقعی اس ملک کی سیاست و جمہوریت اتنی بالغ ہو چکی کہ اس پر کوئی چیک نہ رہے ؟ اور اسے پوری طرح آزاد اور خودمختار کر دیا جائے ؟ایسا ہوا تو یہ ’’مادر پدر آزادی‘‘ ہو گی کہ اگر ’’فل بوٹ ‘‘ کا خوف ہونے کے باوجود لوٹ کھسوٹ کے ریکارڈ ٹوٹتے ہیں تو اگر یہ سفلی سیاست اور جنم جلی عوام دشمن جمہوریت بالکل ہی کھلی چھوڑ دی گئی تو یہ ’’اسلامی جمہویہ پاکستان ‘‘ کو پاکستان ہائوزنگ (ہائوسنگ غلط ہے ) سوسائٹی بنا کر پلاٹوں کی شکل میں نہ بیچ دے گی ؟انگلیاں گھس گئیں لکھتے لکھتے کہ فرد واحد تو ایک مرلہ زمین پر قبضہ نہیں کر سکتا، یہ تو پاک سرزمین ہے اور کمال یہ کہ جسے ٹارگٹ کر رہے ہیں وہ ’’غاصبانہ قبضہ ‘‘ کے وقت زمین اور سین پر موجود ہی نہ تھا ۔’’حلف ‘‘ کے حوالے دینے والے ہلکے اور ہولے قسم کے کھوکھلے ’’ ہیوی ویٹ ‘‘ حلف کی تحریر پر غور کریں کہ پہلی وفا پاکستان کے ساتھ ہے ---آئین بالکل علیحدہ اور بعد میں آتا ہے ۔ دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو تو ہر محب وطن ---وطن کا انتخاب کرے گا کہ ملک تو جمہوریت اور آئین کے بغیر ہو سکتے ہیں ---جمہوریت اور آئین ملک کے بغیر چہ معنی دارد؟ اور کیا یہ آئین بنانے والے اتنے ہی ’’صادق اور امین ‘‘ نہ تھے جتنے اور جیسے ’’صادق ‘‘ اور ’’امین ‘‘ موجودہ اسمبلیوں میں رونق افروز ہو کر عوام کی روح افزائی فرما رہے ہیں ؟ اس ’’مقدس آئین ‘‘ کے بانی کو تو ’’قاتل ‘‘ قرار دیکر پھانسی پر لٹکایا جا چکا اور کیا اس ’’مقدس آئین ‘‘ کا خالق شہادت سے پہلے خود ہی اس کی صورت مسخ نہ کر چکا تھا ؟عوام کو اس آئین کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے جس کا نہ سٹیئرنگ نہ ٹائر۔ پنڈورا بوکس کھولنا ہے تو پورا کھولو ورنہ ٹھپے رہو اور نکر میں بیٹھ کر دودھ چاول، دہی بھلے اور صدارتی ربڑی کھائو ۔دوسری طرف ’’کھپے صاحب ‘‘ کا بھی جواب نہیں کہ این آر او کی نہاری نلیوں اور مغز سمیت ڈکار نے اور ’’گارڈ آف آنر‘‘ وارنے کے بعد نواز شریف کو مفت مشورہ دے رہے ہیں کہ ’’بلا بچ کر نہ جائے ‘‘ یعنی ---’’چڑھ جا بیٹا سولی پر رام بھلی کرے گا ‘‘ بلا بلا کرکے میاں برادران بلکہ خاندان کی بلی چڑھانا چاہتے ہیں کہ پہلے جدہ گئے اور اس بار ’’ استنبول تے کچھ نہ پھرول ‘‘ کھپے صاحب کے جھپےسے بچو !سچ یہ ہے کہ ہمارے مارشل لاء فوجیوں کی کامیابی نہیں، سیاسیوں کی ناکامی ہوتے ہیں، فوجیوں کی شرارت نہیں نام نہاد جمہوریوں کی حماقت اور خباثت ہوتی ہے۔ یہ بھی نہ بھولیئے کہ جرم پرانا ہو کر بھی جرم ہی رہتا ہے ۔ آئین شکن اعظم جنرل ضیاالحق کی گود میں پروان چڑھ کر بیسیوں تقریروں میں اس کی ’’فکر‘‘ اور ’’عمل‘‘ کو پروموٹ کرنے کے دعویدار فنکار کس جمہوریت، آئین، آئین شکنی اور شب خون کی بات کرکے کس کو بیوقوف بناتے ہیں کہ قصہ شروع سے شروع ہوا تو جنرل ضیاالحق کا پھیلایا ہوا ’’ضیابطیس ‘‘ بھی لپیٹ میں آئے گا اس لئے روز اول سے یہ مشورہ دے رہا ہوں کہ کان لپیٹ کر، پائوں سمیٹ کر، اوندھے منہ لیٹ کر نیویں نیویں ہو کر براستہ پتلی گلی نکل لیں کہ اسی میں آپ کا بھی بھلا ہے اور اس آئین کا بھی جس کی زین ناقص ہے کہ اپنے ہر پھرتیلے شہسوار کو خاک چاٹنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔No Selective legislationتو دوسری طرف No selective & indication اور اگر ایسا کچھ کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر اگلا سٹیشن ؟اب تک جو کچھ کر سکے یا ہو سکا اسے ہی کافی اور کامیابی سمجھ کر قناعت کرو کہ پہلے مرحلہ میں یہی بہت ہے کہ اگلے رائونڈ کے بعد اس ایپی سوڈ سے کچھ آگے جائیں گے اور اس سے اگلے رائونڈ میں اس سے آگے ---علیٰ ہذا القیاس کہ ادھر میچورٹی آئے تو معاملات مکمل طور پر منطقی انجام کو پہنچائے جائیں ۔ فی الحال گرم گرم کھانے سے احتراز فرمائیں ورنہ زبان اور تالو دونوں کے بری طرح جل جانے اور ہر بل نکل جانے کا خطرہ ہے ۔سیلیکٹو انصاف اور انتقام کا انجام ضرورت سے زیادہ عبرتناک ہو سکتا ہے خصوصاً ان حالات میں جب عوام دن رات بددعائیں دے رہے ہوں ۔ویسے میں نے بھی کیا طبیعت اور قسمت پائی ہے کہ جو---
زبرِ اقتدار، اس کے ساتھ برسرپیکار
جو زیر عتاب، اس کیلئے اطلس و کمخواب