1919ء کے ایکٹ کے تحت جب دوسری بار اِنتخابات کا وقت قریب آیا، تو کانگریس کی صفوں میں اِس مسئلے پر اختلاف پیدا ہوا کہ آئندہ کیلئے کیا انتخابی حکمتِ عملی اختیار کی جائے۔ ایک گروپ اِس بات پر اصرار کر رہا تھا کہ مجالسِ قانون ساز کا بائیکاٹ جاری رکھا جائے۔ دوسرا گروپ جسے سی۔آر۔ داس اور موتی لال نہرو نے سوراجیہ کے نام سے منظم کیا تھا، وہ اِس خیال کا حامی تھا کہ انتخابات میں حصّہ لے کر مجالسِ قانون ساز میں اصلاحی کردار اَدا کیا جائے۔ پاکستان کے سابق وزیرِاعظم چوہدری محمد علی کے بقول ’’سی۔آر۔ داس اپنی قوم کا ایک بلندپایہ لیڈر تھا۔ وہ بہت دانش مند اور عالی ظرف انسان تھا۔ ہندوؤں میں وہ ایک تنہا قائد تھا جو مسلمانوں کو اُن کے اکثریتی صوبوں میں سیاسی اقتدار دینے کا طرفدار تھا۔ اُس کی تجویز تھی کہ بنگال میں مسلمانوں کو صوبائی کونسل میں اپنی آبادی کے تناسب سے جداگانہ نیابت کا حق ملنا چاہئے اور اُنہیں 55 فی صد ملازمتیں بھی دی جائیں۔ اِس تجویز نے ایک طرح سے ’’میثاقِ بنگال‘‘ کی صورت اختیار کر لی تھی جسے 1923ء میں بنگال کی سوراجیہ پارٹی نے منظور کر لیا، لیکن اگلے ہی سال کانگریس نے اُسے مسترد کر دیا۔ 1925ء کے موسمِ گرما میں سی۔آر۔ داس کی وفات سے وہ عظیم لیڈر منظرِ عام سے غائب ہو گیا جس پر مسلمان پوری طرح اعتماد کر تے تھے۔ ہندو لیڈرشپ کو اُس کے بعد اتنی بلندی کبھی نصیب نہیں ہو سکی۔‘‘
نومبر 1927ء میں برطانوی حکومت نے سر جان سائمن کی قیادت میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن قائم کیا جس کا مقصد ہندوستان میں ہونے والی آئینی ترقی کے بارے میں رپورٹ پیش کرنا اور اُس کی روشنی میں آئندہ کیلئےسفارشات دینا تھا۔ اِس کمیشن کا تقرر نومبر 1927ء میں ہوا۔ بدقسمتی سے اِس کے تمام ارکان انگریز تھے اور یہ بات ہندوستان کے سیاست دانوں کو بہت ناگوار گزری، چنانچہ تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں نے اِس کا بائیکاٹ کر دیا۔ قائدِاعظم اِس تقرر کو ہندوستان کی عزتِ نفس کے سخت منافی سمجھتے تھے۔ اُنہوں نے اُس کے تقرر پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’جلیانوالہ باغ میں ہمارے جسم نیست و نابود کئے گئے تھے، لیکن سائمن کمیشن کے تقرر سے ہماری روح کچل دینے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘ کانگریس نے بھی اِس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ نے اِس کا مقاطعہ کیا جبکہ سر محمد شفیع کی سربراہی میں مسلم لیگی گروپ نے کمیشن سے تعاون کیا۔ سائمن کمیشن کی آمد پر پورے ہندوستان میں ہڑتال ہوئی اور اِس کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ دیر تک جاری رہا۔ اِس مخالفت کے باوجود کمیشن نے اپنا کام جاری رکھا، تمام صوبوں کے وزرائےاعلیٰ سے 1919ء کی آئینی اصلاحات پر عمل درآمد کی تفصیلات حاصل کیں اور مختلف وفود سے آئینی معاملات پر تبادلۂ خیال کیا۔ چونکہ اِس کی تشکیل کے بارے میں قومی رہنماؤں کی طرف سے اعتراضات کا سلسلہ ختم نہ ہوا، اِس لئے وہ اَپنا کام درست انداز میں مکمل کئے بغیر واپس انگلستان چلا گیا۔ اِس کشمکش کے دوران اُس سے غیرارادی طور پر ایک بڑا کارنامہ بھی سرانجام پا گیا۔ اِس کے خلاف جب ہندوستانی سیاست دان بڑھ چڑھ کر تنقید کر رہے تھے، تو اِس کے ایک رکن نے یہ چیلنج دیا کہ ہندوستانی سیاست دان ہر وقت نکتہ چینی کرتے رہنے کے بجائے ایک متفقہ دستور تیار کریں تاکہ اُس پر سنجیدگی سے غور کیا جا سکے۔ اِس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے مسلم قائدین نے ’’تجاویزِ دہلی‘‘ مرتب کیں اور ہندو قیادت نے ’’نہرو رِپورٹ‘‘ کو آخری شکل دی اور اَیک متفقہ دستور تک پہنچنے کےلئے راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کا انعقاد بھی عمل میں آیا۔ یوں سیاسی عمل میں یک لخت تیزی آ گئی۔ کمیشن نے اپنی جو آئینی سفارشات دیں، وہ مئی 1931ء میں شائع ہوئیں جو مسلمانوں کے آئینی نقطۂ نگاہ کے خاصی قریب تھیں۔سائمن کمیشن رپورٹ کی پہلی جلد میں ہندوستان کے سیاسی حالات کا جائزہ لیا گیا تھا جبکہ دوسری میں سفارشات اور تجاویز پیش کی گئی تھیں۔اِن سفارشات کے بنیادی نکات حسبِ ذیل تھے:
(1) ہندوستان کیلئےوحدانی طرزِ حکومت کو مسترد کرتے ہوئے یہ رائے ظاہر کی گئی کہ مستقبل میں آئینی ڈھانچہ وفاقی ہونا چاہئے۔ (2) 1919ء ایکٹ میں جاری شدہ دوعملی ختم کر کے مکمل صوبائی حکومت اُن وزرا کی تحویل میں دی جائے جو مجالسِ مقننہ کے سامنے جواب دہ ہوں۔ (3) وزرا کو مجالسِ قانون ساز کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہو۔ (4) وزیرِاعظم اپنی حیثیت میں گورنرجنرل اور مرکزی حکومت کے مشوروںسے آزاد ہو گا۔ (5) صوبائی گورنروں اور گورنرجنرل کو صرف قومی سلامتی اور اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے خصوصی اختیارات حاصل ہوں گے۔ (6) حقِ رائےدہی اور مجالسِ قانون ساز کے ارکان میں توسیع کی جائے گی۔ (7) صوبہ سرحد کیلئے قانونی اصلاحات کی جائیں، مگر اُسے ذمےدار حکومت کا درجہ فی الحال نہ دیا جائے۔ (8) سندھ کی علیحدگی کے مسئلے پر فوری غوروخوض کی ضرورت ہے۔ (9) مرکزی قانون ساز کے ارکان کا انتخاب صوبائی مجالسِ قانون سازکے ذریعے کیا جائے۔ (10) مجلسِ مملکت کا انتخاب اور اُس کیلئےنامزدگی بھی صوبائی اساس پر اِس طرح کی جائے کہ ہر صوبے کے تین ارکان اُس میں شامل ہوں۔ (11) مرکز میں ایک مضبوط اور پائیدار حکومت قائم کی جائے۔ (12) عظیم تر ہندوستان کی ایک مجلس مقرر کی جائے جس میں برٹش انڈیا اور نوابی ریاستوں دونوں کی نمائندگی ہو اَور وُہ محض ہندوستان کے مشترک معاملات پر بحث و تمحیص کرنے کی مجاز ہو۔ مشترک معاملات کی ایک فہرست جدول میں شامل کی جائے۔ (13) نئے دستور کی تشکیل اِس انداز سے کی جائے کہ اِس کی نشوونما فطری طور پر خودبخود ہوتی رہے۔
مسلمانوں نے اِن سفارشات کے بارے میں اپنا فیصلہ محفوظ رکھا، کیونکہ اُن کی قیادت کی رائے میں اصل فیصلے گول میز کانفرنس میں ہونے والے تھے۔ کانگریس نے اپنے سالانہ اجلاس منعقدہ 1929ء میں مجلسِ عاملہ کو اختیار دے دیا کہ وہ کسی وقت بھی حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کر سکتی ہے۔ اِس پر مولانا محمد علی جوہرؔ نے صاف صاف اعلان کیا کہ ہم گاندھی کا ساتھ دینے سے انکار کرتے ہیں۔ اِس بیان سے مسلم قائدین میں یہ احساس راسخ ہوتا گیا کہ اُنہیں علیحدہ جدوجہد کرنا ہو گی۔ (جاری ہے)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)