• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں برق رفتاری سے بڑھتی ہوئی موسمیاتی تبدیلیوں نے عالمی اداروں اور ماہرین کو شدید پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ 195 ممبر ممالک کی عالمی تنظیم (The Intergovernmental Panel on Climate Change) کی سال 2023 کی ایک رپورٹ نے ،جسے سینکڑوں ماہرین نے سالہا سال کی محنت سے تیار کیا ہے، میں خطرے کی گھنٹی بجا دی گئی ہے۔ رپورٹ میں صورتحال کا بڑی باریکی سے تجزیہ کیا گیا ہے اور یہ قرار دیا گیا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور اس کا ذمہ دار بھی انسان ہی کو ٹھہرایا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات اور نقصانات کے حوالے سے آخری وارننگ دے دی گئی ہے UN سکریٹری جنرل کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ تقاضا کر رہی ہے کہ دنیا کا ہر ملک ہر محاذ پر اس بحران کا مقابلہ کرنے کے لئے تر جیحی بنیادوں پر کا م شروع کردے اُن کے مطابق موسمیاتی ٹائم بم ٹک ٹک کر رہا ہے اور یہ رپورٹ اس ٹائم بم کو ڈی فیوز کرنے کے لئے آگاہ کررہی ہے ۔\

عالمی ماہرین ماحولیات اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خوفناک اثرات مُرتب ہونا شروع ہو چکے ہیں جن میں سمندروں کی برف اور گلیشیئرز کا پگھلنا، سمندروں کی سطح کااوپر آجانا اور درجہ حرارت میں اضافہ سر فہرست ہیں ماہرین اس پر متفق ہیں کہ دنیا میں کہیں جنگلات میں خوفناک آگ ، بے وقت کی اور بے موسمی بارشیں ، سیلاب، طوفان اور کہیں گرمی کی لہر، بدترین خشک سالی یہ سب کچھ ماحولیاتی تبدیلیوں ہی کا شا خسانہ ہے اس صورتحال کا براہ راست تعلقgreenhouse gases سے ہے جن میں methane, nitrous oxide اور carbondioxide, شامل ہیں ورلڈ بینک گروپ اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی ایک مشترکہ حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے عمل سے شدید خطرات کا سامنا ہے موسمی کیفیات انتہائی غیر یقینی نوعیت کی ہیں ایک تو یہاں خشک سالی کے امکان تیزی سے بڑھ رہے ہیں تو دوسری جانب گاہے گاہے سیلابی صورتحال پیدا ہونے کے بھی یکساں امکانات پیدا ہو چکے ہیں۔

پاکستان میں کاٹن، گندم ، گنا، چاول اور مکئی کی پیداوارمیں واضح کمی کا رجحان ہے موسمیاتی اتار چڑھائو کا سامنا کرنے والے 191ممالک کی فہرست میں پاکستان 18اویں نمبر پر ہے جو ہمارے لئےبلاشبہ ایک انتہائی پریشان کن صورتحال ہے ۔ ماہرین کے مطابق یہ صورتحال انسانی زندگی اور صحت کے لئے بھی کئی حوالوں سے خطرناک اور پریشان کن ہے جو غذائی قلت کا بھی باعث بنے گی اور غربت کو بھی فروغ دے گی۔ آئے دن ہم دیکھ رہے ہیں کہ سب ہی موسم بکھر سے گئے ہیں اور ان کے اوقات اور دورانیے یکسر تبدیل ہو گئے ہیں اس ساری صورتحال سے دنیا نہ صرف با خبر ہے بلکہ بڑی سنجیدگی سے سوچ بچار کر رہی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ہم من حیث القوم اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے کیا اقدامات کر رہے ہیں کیا ہمیں صورتحال کی سنگینی کا علم بھی ہے کہ نہیں ؟ہمارے وسائل ترقی یافتہ ممالک کی طرح نہیں کہ ہم خود ریسرچ کر سکیں مگر یہاں تو دنیا نے ہمارے ملک کی صورتحال اور بچائو کی تدابیر پر مبنی رپورٹس تیارکر کے ہمارے ہاتھ میں تھمادی ہیں پینے کے صاف پانی کی قلت یاعدم دستیابی دورجدید کے تناظر میں حیران کن ہے، ہماری آبادی کے ایک بڑے حصے کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہمارے پاس دوصوبوں میں سمندر موجود ہے مگر لوگوں کو پینے کا پانی میسر نہیں، زرعی علاقوں میں اندھا دھند مکانات تعمیر ہوچکے ہیں ،بے ہنگم ہائوسنگ سوسائٹیز قائم ہو چکی ہیں ۔تھے تو ہم زرعی ملک مگر افسوس کہ ہم کم و بیش تمام اجناس امپورٹ کر رہے ہیں ایک جانب دنیا چیخ و پکار کر رہی ہے کہ آنے والے دن غذائی قلت ، قحط سالی اور خشک سالی کے ہوں گے دوسری جانب ہم زراعت کی اہمیت کو بھولے بیٹھے ہیں، دنیا صحرائوں اور ریگستانوں میں سبزہ اُگا رہی ہے او ر ہم زرخیز ترین زمینوں پر محلات تعمیر کر رہے ہیں عالمی ماہرین واویلا کر رہے ہیں کہ پاکستان کو کم و بیش ہر دوسرے تیسرے سال بدترین سیلابوں کا سامنا کرنا پڑے گا مگر ہم ڈیم نہیں بنا رہے بارشوں کا کروڑوں گیلن پانی نہ صرف ضائع ہو جاتا ہے بلکہ سیلاب کی شکل اختیار کر کے تباہ کاری کا باعث بنتا ہے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اسکا بیشتر کام مکمل ہوچکا ہے مگر بلاوجہ کی سیاست کی نذر ہوگیاہے، یہ پاکستان کی بقاء کا منصوبہ ہے مگر صد افسوس کہ ہم جانتے بوجھتے ہوئے بھی غافل ہیں ہمارے پڑوسی ملک میں 5200 سے زائد ڈیم ہیں چائنا میں 8000 سے زائد ڈیم ہیں کینیڈا میں 15000ڈیم موجود ہیں اور امریکہ میں 91000 سے زائد ڈیم ہیں ہماری معیشت آخری ہچکیاں لے رہی ہے مگر ہم اس سنگینی کا ادراک کرنے کی شاید صلاحیت سے ہی عاری ہیں ۔ضروری ہے کہ ہم خواب غفلت سے بیدا ر ہو جا ئیں اور ملک کو درپیش حقیقی اور سنگین مسائل کی جانب توجہ کریں موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی امور کوا سکول اور کالج کے نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ یہ بچے اس بحران کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو سکیں زراعت کے بچائو اور فروغ کے لئے ایک قومی ایکشن پلا ن کی اشد ضرورت ہے ، سر سبز زمین ہی ہماری بقاء ہے کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے کھیت کھلیانوں کو آباد کریں اس قوم کے بچوں کو روزگار ملے ،زرعی اجناس سبزی فروٹ ایکسپورٹ کرکے لائیو اسٹاک اور ڈیری انڈسٹری کو بحال کر کے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین