• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شیکسپئیر نے جولیس سیزر میں ایک دفعہ لکھا تھا کہ ـ’’برائیاں انسان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی یاد رہتی ہیں جبکہ اسکی اچّھائیاں اسکے ساتھ ہی دفن ہو جاتی ہیں‘‘۔ جس طرح کسی بھی انسان سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں اسی طرح صدر مشرّف سے بھی کچھ غلطیاں ہو ئی ہیں جس میں سب سے بڑی غلطی قومی مفاہمت کے آرڈیننس کانفاذ ہے ۔لیکن 2000سے 2008کا عرصہ ڈھیر ساری کامیابیوں سے بھی مز ین ہے۔
سب سے پہلے اگر ہم معیشت کی طرف نگاہ ڈالیں تو اکتوبر1999میں پاکستان بڑے مشکل حالات سے گزر رہا تھا۔جبکہ 2008-7تک پاکستان کاشمار اگلے N-11 Next11)) ممالک کے گروپ میں آگیاتھا جن کیلئے پیشگوئی کی گئی تھی کہ یہ ممالک دنیا کی بہت مضبوط و طاقتور معیشت کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آسکتے ہیں 2000 سے 2008کے دوران پاکستان کی
مجموعی پیداوار ی صلاحیت 63 ارب ڈالر سے بڑھ کر 170 ارب ڈالر ہو گئی تھی اور سالانہ پیداواری صلاحیت اوسطاً 7% بڑھ گئی یہ یقیناً ایک شاندار کامیابی تھی ۔فی کس آمدنی 430ڈالر سے بڑھ کر تقریباً 1000ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔غیر ملکی زرِ مبادلہ 2008تک بڑھ کر 16.5 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ اور قومی آمدنی308ارب روپے سے بڑھ کر 2008میں1کھرب روپے ہو گئی تھی ۔قرض اور مجموعی پیداواری صلاحیت (GDP) کاتناسب 102% سے بہتر ہو کر 53%تک پہنچ گیا تھا۔ غیر ملکی براہ ِ راست سرمایہ کاری 400کروڑ ڈالر سے بڑھ کر 8.4ارب ڈالر تک پہنچ گئی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ غربت کا تناسب بھی 34% سے گھٹ کر صرف 17%. رہ گیا تھا اسی طرح ڈالر کی قیمت بھی 60روپے تک تھی تاکہ مہنگا ئی کو بھی قابو میں رکھا جا سکے۔
مواصلات کے بنیادی ڈھانچے میں بھی زبردست تبدیلیاں اور بہتری رونما ہوئیں۔ڈھیر ساری اہم سڑکیں ، ہوائی اڈّے،بندرگاہیں اور قائم شدہ ہوائی اڈّوں کی توسیع کام بھی کیا گیا۔زراعت کے شعبے میں کا فی اہم آ بیاری کے پروجیکٹ شروع کئے گئے ۔ڈیامر بھاشا بند کا افتتاح کیا گیا ۔منگلا بند کو 30 فٹ اونچا کیا گیا جس کی وجہ سے 2.9 maf زائد پانی کو محفوظ کرنے کی اور 100MW بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوا۔اس کے علاوہ اور بھی بہت سے بند اور نہریں تعمیر کی گئیں ۔اس طرح کل3لاکھ ایکڑ بنجر زمین کو قابلِ کاشت بنایا گیا۔ ساحل سمندر پر نکاسی کا نالہ رائٹ بنک آؤٹ فال ڈرین تعمیر کیا گیا تاکہ دریائے سندھ اور منچھر جھیل کو آلودگی سے بچایا جا سکے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں گندم کی پیداوار میں 14لاکھ ٹن سے 22لاکھ ٹن اورکپاس کی پیداوار میں 9لاکھ گانٹھوں سے 13لاکھ گانٹھ کااضافہ ہوا۔ ضروری اشیائۓ خوردونوش کی قیمتوں پر قابو رکھنے کیلئے اقدامات کئے گئے تاکہ غریب عوام پر بوجھ نہ بڑھے۔ مزارعوں اور کسانوں کے لئے بینک کے ذریعے گردشی ادھارکا نظام متعارف کرایا گیا۔ مزارعوں کیلئے قرضہ حاصل کرنے کی سہولت میں مزید اضافہ کیا گیا ۔ZTBL سے 35 ارب روپے اور باقی تمام نجی بینکوں سے 160ارب روپے کے قرضے دئے گئے۔
ملک بھر میں کُل ملا کر2900 MWبجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا ۔ شروع کئے جانے والے نئے پروجیکٹس میں غازی بروتھا پن بجلی پروجیکٹ۔ 1600MW، چشمہ IIجوہری بجلی پلانٹ۔ 300MW، 6سے زائد حرارت سے چلنے والے بجلی گھر لگائے گئے تھے، نیلم۔جہلم پن بجلی منصوبے شروع کئے گئے تھے جن کی پیداواری صلاحیت 1800MW ہے۔ ست پارہ توانائی پروجیکٹ اسکردو میں، نلتار توانائی پروجیکٹ گلگت میں شروع کئے گئے تھے۔
سب سے بڑاانقلاب ٹیلی مواصلات کے شعبے میں آیا 2000میں6لاکھ موبائل فون کی تعداد 2006تک 7کروڑ تک پہنچ گئی جس نے اس اس شعبے کو معاشی طور پر سب سے تیزی سے پنپنے والا شعبہ بنا دیا اور ٹیلی طلب 2.9% سے بڑھ کر70% ہو گئی جس کی بدولت لاکھوں کی تعداد میں اس شعبے میں نوکریوں کے مواقع میسّر آئے ۔ آئی ٹی کے شعبے میں معرکۃ الآراء انقلاب آیا ۔ انٹرنیٹ ربط سازی پاکستان کے 40شہروں سے بڑھ کر 2000شہروں اور دیہات تک پہنچ گئی اور اسی دوران فائبر آپٹک ربط سازی 30شہروں سے بڑھ کر 1500شہروں تک پہنچ گئی۔ 2پاکستان کا پہلا سٹیلائٹ پاک سیٹ 1بھی خلاء میں اسی دور میں بھیجا گیا جس نے کامیابی سے خلاء میں بچا آخری حصہ ّ حاصل کر لیا ۔2000سے 2008کے دوران صنعتیں بھی خوب پھلی پھولیں اور اس دوران ان کی پیداواری شرح 10% سے کبھی کم نہیں ہوئی۔
اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں انقلاب اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے قیام سے آیا جب 2000میں اعلیٰ تعلیم کیلئے مختص نصف ارب روپے کے بجٹ کو بڑھا کر 2008میں 28ارب روپے مختص کر دیا گیا یعنی علم پر مبنی معیشت کے فروغ اور ترقّی کے لئے مضبوط بنیادیں رکھ دی گئیں۔طلبہ کی تعداد اندراج میں 270,000سے 900,000کا اضافہ ہوا مزید جامعات اور ڈگری دینے والے ادارے قائم ہوئے جن کی تعداد 2000میں57سے بڑھ کر 2008میں 137ہو گئی۔پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کےمیدان میں اس تیزی سےتبدیلی نے بھارت میں ہلچل مچا دی اور 22جولائی کو بھارتی وزیراعظم کو اس ڈرامائی تبدیلی کی مفصّل رپورٹ پیش کی گئی۔ یہی رپورٹ 23 جولائی 2006کو ہندوستان ٹائمز میں نیہامہتا نے اپنے مقالےــ’بھارتی سائنس کو پاکستان سے خطرہ‘کے عنوان سے لکھی
جمہوریت کی جڑوں کومضبوط کر نے کیلئے بہت سے نئے ٹی وی چینلوں کی اجازت دی گئی اور صحافیوں اور اخبارات کو کھلی آزادی دی گئی۔مقامی حکومتی نظام شروع کیا گیا تاکہ عوام کو حکومتی سرپرستی حاصل ہو۔ سیاسی سطح پر خواتین کو بھی تمام حکومتی درجوں میں ان کیلئے مخصوص جگہ دی گئی۔ اقلیتوں کو مشترکہ رائے دہندگانی کا درجہ دیاگیا۔
دفاع کے شعبے میں پاک فوج کے لئے الخالد ٹینک اور پاک ائیر فورس کے لئے JF17تھنڈر جیٹ فائیٹر کی تیّاری کی گئی ۔ دفاع کی مضبوطی کیلئے مخصوص سامان خریدا گیاجس میں پاک ائیر فورس کیلئے AWACنگہداری طیّارہ، نیوی کے لئے تیز رفتار اور جدید بادبانی جنگی جہاز اور P3C نگہداری طیّارہ خریدا گیا۔
پاکستان کے آئین میں صدر کی حیثیت تو محض رسمی ہوتی ہےپاکستان کا اصل چیف ایگزیکٹو تو وزیرِاعظم ہوتا ہے ۔ صدر تو صرف وزیراعظم کے ـ’مشوروں‘ پر اپنی کابینہ کے ساتھیوں اور ساتھی کمانڈروں کے مشوروں کے بعدعمل کرتا ہے۔ اگر کوئی غلطی ہوتی ہے تو سب ہی اس میں برابر کے شریک ہیں۔ سجھ میں آنے والی بات صرف اتنی ہے کہ 1999 میں جو قدم اٹھایا گیا وہ تو سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ نے جائز قرار دیا اور اس کے تحت 2007تک حکو مت ہوتی رہی لیکن جب یہی قدم نومبر 2007میں 3مہینوں کیلئے اٹھایا گیا اور 18فروری 2008کو الیکشن ہو گئے تواس کو غدّاری کہہ کے صدر مشرّف کے خلاف غدّاری کا مقدمہ دائر کردیا گیا ۔ یہ بھی مدّنظر رکھنا ضروری ہے کہ 3نومبر 2007کے اقدام کو سپریم کورٹ پاکستان 24نومبر 2007 کو جائز قرار دے چکا ہے آ ئین میں اٹھارویں ترمیم کےذریعے آئین کو معطل کرنا غیر قانونی قرار دیا گیا ۔ لیکن یہ آئینی ترمیم بہت بعد میں نافذہوئی۔ جس وقت صدر مشرّف نے 3نومبر 2007کو ایمرجنسی نافذ کی اس وقت یہ غیر قانونی نہیں تھا۔ یہ بھی مدّ نظر رکھنا ہوگا کہ یہ معاملہ صرف دو مہینے کا ہے کیونکہ الیکشن 8جنوری 2008میں ہونے تھے لیکن 27دسمبر کو بے نظیر بھٹّو کے قتل کی وجہ سے ان کو 14 فروری 2008 تک ملتوی کرنا پڑا ۔ تو اس وقت جو ملک میں صدر مشرّف کے خلاف بینڈ باجابج رہا ہےوہ صرف تین مہینے کی ہنگامی حالت لاگو ہونے کا معاملہ ہے جب کہ اس سے پہلے آٹھ سالوں کو یعنی1999سے 2007کی شاندار کاوشو ں کو فراموش کیا جا رہا ہے۔ اب جبکہ سپریم کورٹ 24نومبر 2007کو صدر مشرّف کے اقدام کو جائز قرار دے چکی ہے یہ قطعاً ناانصافی ہوگی اگر ہم آئین میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے جو کہ بعد میں نافذ ہوئی قانون کو پچھلی تاریخوں میں لاگو کر کے موت یا عمر قید کی سزا دے دیں۔ یہاں ہمیں یہ بھی پوچھنا ہوگا کہ حسین حقّانی کے سلسلے میں میمو گیٹ اور ایک سابق منصف کے بیٹے کے سلسلے میں عدلیہ کا انصاف کہاں گیا؟ صدر مشرّف کے خلاف کوئی لوٹ مار کا الزام نہیں ہے جبکہ ان سے پہلی حکومت نے جس انداز سے اس ملک کو لوٹا ہے اسکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔ ہمیں صدر مشرّف کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ انہوں نے ڈوبتے ہوئے پاکستا ن کو 1999میں اندھیروں سے نکال کر N-11(next11) ممالک میں لاکھڑا کیا۔ جو حقائق میں نے یہاں پیش کئے ہیں ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اس ــ’ملک ‘ میں لُٹیرے ہی راج کرسکتے ہیں یہاں انصاف کہاں؟ پچھلی حکومت کے حکمران ہزاروں ارب روپے لے کر باہر چلے گئے انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے جس کے نتیجے میں آج پورا ملک غربت کے اندھیرے میں ڈوب رہا ہے۔ 1999میں اٹھایا گیا قدم صحیح اور وہی قدم 2007میں غلط کیسے ہو سکتا ہے یا تو دونوں اقدام صحیح تھے یا دونوں غلط تھے۔ اگر صحیح ہے تو پرویز مشرّف صاحب کوآزاد کر دینا چاہئے اور اگر غلط ہے تو 1999کا سپریم کورٹ کا فیصلہ غلط تھا اور اس کے لئے ججوں کو بھی دوسروں کے ساتھ سزاوار ہونا چاہئے۔
تازہ ترین