• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہا جاتا ہے کہ کسی عدد میں کیا رکھا ہے ، یہ بہرحال ایک عدد ہی تو ہے۔ لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا کہ یہ اس سے بڑھ کر کچھ اور بھی ہوسکتا ہے ؟ یہ دراصل کسی شخص، لوگوںکے گروہ کی خوابیدہ نفسیات کی عکاسی کرتا ہے جو بظاہر ایسے بے ضرر عدد تخلیق کرتے ہیں جو تباہ کن نتائج کا موجب بنتے ہیں ۔

ہوسکتا ہے کہ 180 صرف ایک عدد ہی ہو،لیکن یہ ان جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات کی تعداد بتاتا ہے جو سابق وزیر اعظم پاکستان اور چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف درج ہیں ۔ دیگر امکانات کے ساتھ ساتھ ان کی وجہ سے وہ ہرروز ایک عدالت سے نکل کر دوسری عدالت میںپیش ہونے پر مجبور ہوچکے ہیں جہاںکوئی نہ کوئی جج انصاف کے تمام تر تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے جلد ی جلدی پہلے سے ہی لکھے گئے فیصلے کو پڑھ رہا ہوتا ہے ۔

یہ صورت حال مجھے اس موضوع کی طرف لے جاتی ہے جس پر میں نے اکثر قلم اٹھایا ہے: اس ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں عدلیہ کا مرکزی کردار۔ ایسا پاکستان میں ہی ہوتا ہے جہاں بدقسمتی سے ریاست کا ایک ستون ہمیشہ ان کی طرف داری کرتا ہے جن کے ہاتھ میں بندوق ہوتی ہے ، اور وہ اس سے استدلال کی طاقت کو دبا لیتے ہیں ۔بلاشبہ کچھ روشن ستارے اپنی جگہ پر موجود ہیں لیکن جو لوگ اس چھوٹے سے محترم گروہ سے تعلق نہیں رکھتے ، اُنھوں نے ملک کا اتنا زیادہ نقصان کردیا ہے کہ بیان سے باہر ۔ عشرے بیت گئے ، لیکن ہم یا تو خوف زدہ رہتے ہیں یا آمریت کے ڈسے ہوئے ہیں ۔

ملک کے جمہوری اور آئینی تصورات کا دفاع کرنے میں مسلسل ناکام رہنے پر عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹے جانے کی سہولت کار بن گئی ۔ اس طرح ملک مصائب کے اس شیطانی چکر کا شکار ہوگیا جس سے ابھی تک نکلنے میںکامیاب نہیں ہوا ۔ درحقیقت آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 ء میں ہونے والی تازہ ترین ترامیم انٹیلی جنس ایجنسیوں کے دائرہ کار کو مزید وسیع کردیں گی۔ جدید ترین ذرائع مواصلات قانون کی دسترس میں آجائیں گے ۔

لفظ ’’ڈاکومنٹ ‘‘ کی از سرنو کی گئی تعریف نے اس کا اطلاق کسی بھی ’’تحریری ، غیر تحریری الیکٹرانک، ڈیجیٹل، یا کسی بھی مادی یا غیر مادی آلہ جس کاتعلق فوجی سازوسامان اور صلاحیتوں سے ہو‘‘ پر کردیا ہے ۔ اسی طرح لفظ ’’دشمن ‘‘ کی تعریف اب ہر اس شخص کا احاطہ کرتی ہے جو’’ بلاواسطہ یا بالواسطہ ، یا جان بوجھ کر یا انجانے میں کسی غیر ملکی طاقت، غیر ملکی ایجنٹ ، غیرریاستی عنصر ، تنظیم ، ادارے، تنظیم یا گروپ کے لیے کام کرتا ہے یا تعلق رکھتا ہے جو پاکستان کے دفاع اور مفاد کو زک پہنچاتا ہے ۔‘‘سیکشن 11 میں ترامیم کے ذریعے حساس اداروں کے افسران کو وسیع اختیارات دے دیے گئے ہیں، جن کے تحت وہ ’’کسی بھی وقت، کسی بھی شخص یا جگہ میں داخل ہو کراس کی تلاشی لے سکتے ہیں، بغیر وارنٹ کے، اور اگر ضروری ہو تو طاقت استعمال کر تے ہوئے، اور کسی بھی دستاویز، خاکہ یا کوئی بھی چیز جو کسی کئے گئے یا مبینہ طور پر کئے گئے جرم کے ثبوت کے طور پر پیش کی جا سکتی ہو،کو ضبط کر سکتے ہیں۔‘‘ قانون کسی مقدمے میں ثبوت کی نوعیت کا بھی تعین کرتا ہے:’’تمام اشیاء جو تفتیش کے دوران اکٹھی کی جائیں، بشمول برقی آلات، ڈیٹا، معلومات، دستاویزات یا کوئی اور متعلقہ مواد جو کسی جرم کے ثابت کرنے میں مددگار ہوں،ثبوت کے طور پر قابلِ قبول ہو گا۔‘‘یہ بھی ایک جرم ہوگا اگر’’کوئی کسی فوجی تنصیب، دفتر، کیمپ آفس، یا عمارت کے کسی حصے پر در اندازی، داخلے یا حملے کی کوشش کرے‘‘۔ اس قانون کو حالتِ جنگ تک محدود رکھنے کی بجائے حالتِ امن میں بھی لاگو کردیا گیا ہے۔یہ ترمیم اس ملک میں حقوق کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوسکتی ہے۔اس کے بعد کسی فرد کے حقوق اور نجی زندگی کا تصور دھواں بن اُڑ جائے گا۔ان دونوں کو اب حساس اداروں کے افسر اپنی صوابدید پر روند سکتے ہیں۔ وہ فیصلہ کر سکیں گے کہ کسی شخص کے حقوق ہیں یا نہیں ہیں۔کسی شخص کے تمام حقوق ختم کردینا اب آئین و قانون کے عین مطابق ہو گا اور ایسا محض اس شک کی بنیاد پر کہ ہو سکتا ہے کہ یہ شخص ملک کے مفاد کے خلاف کام کر رہا ہو۔

حقوق کا خاتمہ تو اس ترمیم سے ہو ہی جاتا ہے مگر اس سے بھی زیادہ اہم یہ بات ہے کہ یہ ریاست اور عوام کے درمیان سمجھوتے کو دفنا دیتی ہے۔قانون کی پیروی کرنے کے بجائے ایک اصول متعارف کروایا گیا ہے جس کی تشریح چند لوگ کریں گے اور اسے عوام کے اجتماعی فیصلوں پر مقدم جانیں گے۔قانون سے ایک طرح سے لاتعلقی کا اظہار ہوا ہے اور ایک غیر آئینی بیانیہ لوگوں کی آواز کے متبادل کے طور پر تیار کیا گیا ہے۔

یہ ایسے ہی ہے جیسے زندہ انسانوں کو لاشوں میں تبدیل کردیا جائے ۔ انھیں ایسی اشیا میں تبدیل کردیا جائے جو ہمیشہ راہداری میں چلتے ہوئے ہر قدم پر سہم جاتے ہیں ، دروازے پر ہونے والی ہر دستک اُن کا دل دہلا دیتی ہے ، دیوار کے آرپار ہر سرگوشی خوف کا ہیولہ بن کر اُن کی رگوں میں اتر جاتی ہے ۔ ان کی زیست کا ہر لمحہ خوف کے سائے میں بسر ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ میں نے کچھ عرصہ پہلے تواتر سے لکھا ہے کہ ہمیں بے یقینی کے ہیولوں کو دفن کرتے ہوئے معقولیت کو راستہ دینا ہوگا۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے ، جیسا کہ اس نازک دور میں دکھائی دیتا ہے تو یہ صورت حال ایک بھیانک سانحے کو جنم دے گی، جو ایک مرتبہ بے قابو ہوگیا تو پھر ہم کبھی اس کے زہرآلود پنجوںسے نہیںنکل سکیں گے ۔ رک کر سوچنے کا ابھی وقت ہے ۔ اسی قدم پر رکنا ہوگا۔ مہیب بھوتوںکی جکڑ سے بچنا ضروری ہے ورنہ استدلال اور منطق کی قبر کھد چکی۔ آئیے مل کر اس کی تدفین کا جشن منائیں۔

تازہ ترین