• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پرویز مشرف پر غداری کے الزام میں مقدمے کا آغاز کیا ہوا کہ ہمارے بعض دانشور دوست، تجزیہ کار اور تبصرہ نگار دور دور کی کوڑیاں لانے لگے۔ کسی پائوں کی آہٹ، کسی سائے کی جنبش، پتوں کی کسی سرسراہٹ اور ہوا کے کسی جھونکے میں بھی ان کی ’’نوز فار نیوز‘‘ مشرف کی بو سونگھ لیتی۔ بیرون ملک سے کسی وی وی آئی پی کی مہینوں پہلے سے طے شدہ آمد کو بھی پاکستانی حکمرانوں کے لئے پرویز مشرف کے حوالے سے خصوصی پیغام کا عنوان دیدیا جاتا۔ چولستان میں شکار کے لئے متحدہ عرب امارات سے مہمانوں کی آمد برسوں کا معمول ہے، یہ محض اتفاق تھا کہ اس سال انہی دنوں ڈکٹیٹر مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ زیر سماعت ہےمگر یاروں نے اس سالانہ روایت کو بھی مشرف کے مقدمے سے جوڑ دیا۔یہی معاملہ سعودی وزیر خارجہ جناب سعود الفیصل کے دورۂ پاکستان کے ساتھ ہوا۔ گزشتہ سال ستمبر میں وزیراعظم نوازشریف یو این جنرل اسمبلی سے خطاب کے لئے نیویارک میں تھے کہ سعودی دوستوں سے ملاقات ہوئی اور وزیراعظم نے انہیں دورۂ پاکستان کی دعوت دیدی۔ صدر ممنون حسین حج کے لئے گئے تو اس دعوت کا اعادہ کر آئے۔ ادھر خطے میں سٹرٹیجک معاملات تغیر پذیر ہیں۔ شام کے بحران پر امریکی پالیسی میں تبدیلی ریاض اور واشنگٹن میں سردمہری کا باعث ہوئی۔ نیوکلیئر مسئلے پر ایران کے ساتھ امریکہ سمیت 6 ممالک کی مفاہمت بھی بعض ممالک کے لئے لمحۂ فکریہ تھی۔ پاکستان اور ایران میں گیس پائپ لائن منصوبہ بھی ان کے لئے شاید احساس رقابت کا باعث بنا ہو۔ خطے میں ان اہم تبدیلیوں کے باعث سعودی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی لیکن اس کے ڈانڈے بھی مشرف کے مقدمے سے ملا دیئے گئے حالانکہ پاکستانی فارن آفس اس دورے سے قبل بھی اپنی وضاحت جاری کر چکا تھا۔
جناب سعودی الفیصل اور سرتاج عزیز کی مشترکہ پریس کانفرنس میں اس وقت دلچسپ صورت حال پیدا ہوگئی جب پرویز مشرف کے حوالے سے سوال پر معزز مہمان نے میزبان سے استفسار کیا ۔ ’’کون مشرف؟‘‘ ہمیں یہاں کوئی 45 سال پرانی بات یاد آگئی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کی آمریت کے خلاف جناب احمد سعید کرمانی کی آواز لاہور کی دبنگ آوازوں میں ایک تھی۔ تب ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے اور ان کے پرجوش وکیل اور ترجمان گورنر مغربی پاکستان نواب محمد خاں آف کالا باغ نے ایوب خاں کی طرف سے کرمانی صاحب کو وزارت کی پیشکش کی، کرمانی کی سرکش جوانی نے جسے مسترد کرنے میں دیر نہ کی۔ اس پر ان کے دوستوں نے جشن انکار وزارت کا اہتمام بھی کر ڈالا۔ پھر آسمان نے رنگ یوں بدلا کہ کرمانی صاحب کنونشن لیگ کو پیارے ہوگئے۔ اب وہ مغربی پاکستان (آج کے پورے پاکستان) کے وزیر اطلاعات تھے۔ ادھر بھٹو صاحب نے وزارت خارجہ سے اخراج کے بعد حزب اختلاف کا رخ کیا۔ تب شاید ہی کوئی دن ہو جب بھٹو صاحب کے جواب میں احمد سعید کرمانی کا بیان جاری نہ ہوتا ہو۔ لاہور آمد پر جناب بھٹو سے کرمانی صاحب کے بیانات پر تبصرے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے الٹا سوال کر دیا۔
WHO IS SHE?
یہ بھٹو صاحب کی طرف سے تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ ہی نہیں تھا بلکہ HE کی بجائے SHE کہہ کر انہوں نے اس میں اپنی بے پناہ WIT کا رنگ بھی بھر دیا تھا۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد کرمانی صاحب پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے قاہرہ چلے گئے۔ احمد سعید کرمانی وزیراعظم نوازشریف کے پولٹیکل سیکرٹری ڈاکٹر آصف کرمانی کے والد محترم ہیں۔ ہم نے متعدد بار آصف سے اس خواہش (بلکہ پرزور فرمائش) کا اظہار کیا کہ وہ کرمانی صاحب سے اپنی یادداشتیں مرتب کرنے کے لئے کہیں کہ اس کے ذریعے ہماری قومی تاریخ کے کئی ڈھکے چھپے گوشے منظر عام پر آسکتے ہیں۔ آصف کا کہنا ہے کہ 90 سال سے زائد عمر کے بزرگ لیڈر کے لئے اب یہ کام آسان نہیں کہ بہت سے معاملات میں یادداشت شاید ساتھ نہ دے سکے۔
آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے ڈاکٹروں کی طرف سے جاری کردہ پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹ نے ستم ظریفوں کے لئے طنز و مزاح کا خاصا سامان فراہم کردیا ہے۔ کمانڈو صدر اللہ کے فضل سے اس وقت 70 سے اوپر ہے۔ میڈیکل رپورٹ میں ان کی جن 9 بیماریوں کا ذکر کیا گیا ہے، کتنے خوش قسمت پاکستانی ہوں گے جنہیں 60 سال کے بعد ان میں سے اکثر شکایات لاحق نہ ہوں۔ ان میں کوئی ایک بھی نہیں جسے مریض کی جان کے لئے خطرہ قرار دیا جاسکے اور خدانخواستہ اگر ایسا ہوتا بھی تو پاکستان میں قابل سے قابل ڈاکٹر اور اچھے سے اچھا ہسپتال موجود ہے جہاں اس کا علاج کیا جاسکے۔ لیکن یہاں تو غداری کے مقدمے میں عدالت کا سامنا کرنے سے گریز مطلوب و مقصود تھا۔ لیکن کمانڈو صدر کے اپنے ’’ادارے‘‘ کے زیر اہتمام جدید ترین طبی سہولتوں سے آراستہ اور قابل ترین ڈاکٹروں پر مشتمل ہسپتال کی رپورٹ ان کے کسی کام نہ آئی۔ کمانڈو نے اپنی کتاب میں اپنی بعض چالاکیوں کا ذکر کیا ہے۔ سنا ہے وہ اپنے حلقہ احباب میں بھی (خوشامدیوں پر مشتمل یہ حلقہ وقت کے ساتھ ساتھ سکڑتا چلا گیا) اپنی پھرتیوں کا ذکر کرتا رہتا ہے کہ ان کے چکر باز سجنا نے کسی مشکل سے نکلنے کے لئے کیا چکر چلایا تھا۔ شاید اس کا خیال تھا کہ وہ اب بھی کوئی چکرچلا لے گا لیکن آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ کے پروفیشنل ڈاکٹروں نے اپنی پیشہ ورانہ اخلاقیات سے ذرا برابر انحراف نہ کیا۔ اس میڈیکل رپورٹ کے ملاحظے کے بعد خصوصی عدالت نے ملزم کو 16 جنوری کو طلب کرلیا ہے کہ ان میں کوئی ایک بیماری بھی ایسی نہیں جو حاضری میں مانع ہو۔ گزشتہ شب حامد میر کے کیپٹل ٹاک میں مشرف کے کولیگ، ریٹائرڈ جرنیلوں کی رائے بھی یہی تھی کہ کمانڈو کو بہادری کے ساتھ عدالت کا سامنا کرنا چاہئے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی تو یہاں تک کہہ گئے کہ مشرف، سفید کوٹ والوں کے پیچھے چھپنے کی بجائے سیاہ کوٹ والوں پر بھروسہ کرے کہ شریف الدین پیرزادہ کی زیر قیادت اس کی لیگل ٹیم کروڑوں روپے فیس لینے والے بڑے نامی گرامی وکلا پر مشتمل ہے۔ جنرل معین الدین حیدر اور جنرل امجد شعیب کا کہنا تھا کہ یہ مقدمہ فوج کے نہیں، مشرف کے خلاف ہے۔وہ اپنے ادارے پر رحم کرے اور اسے اپنے مفاد میں ملوث نہ کرے۔ وہ اس سے پہلے دو بار ایسا کر چکا ہے۔ 12 اکتوبر 1999ء کو اپنی ملازمت کو بچانے اور 3 نومبر 2007ء کو اپنی باوردی صدارت کو جاری رکھنے کے لئے اس نے اپنی فوجی پوزیشن کو استعمال کیا۔ ریٹائرڈ جرنیلوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ فوج نے ان چھ سات برسوں میں سیاست سے الگ تھلگ رہ کر اور جمہوری نظام کے تسلسل میں مددگار بن کر آئین سے وفاداری کا اپنا جو امیج بنایا ہے، مشرف اپنی ذات کے لئے اسے متاثر نہ کرے۔ ائیرمارشل (ر) شہزاد چوہدری وزیراعظم نوازشریف کے اس بیان کی تحسین کررہے تھے کہ اس مقدمے میں اصل فریق پاکستان کا آئین اور ریاست ہے۔ یہ فیصلہ عدالت کو کرنا ہے کہ ملزم پر آرٹیکل 6 کا اطلاق ہونا ہے یا نہیں۔صدارتی استثنےٰ کے خاتمے کے بعد جناب آصف زرداری کے خلاف نیب عدالتوں میں مقدمات پھر شروع ہوگئے ہیں۔ یہ مقدمات سالہا سال سے موجود ہیں۔ جسٹس قیوم والی عدالت نے ایک کیس میں سزا سنا دی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ محترمہ کو فیصلے سے قبل ہی اطلاع دیدی گئی تھی چنانچہ وہ اس سے قبل ہی بیرون ملک چلی گئیں۔ زرداری صاحب البتہ جیل میں رہے۔ چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی زیر قیادت سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو تعصب پر مبنی قرار دیتے ہوئے کسی دوسری عدالت میں اس کی ازسرنو سماعت کا حکم جاری کردیا تھا۔ سوئٹزرلینڈ کی ایک عدالت سے بھی سزا ہوگئی تھی جس کے خلاف محترمہ اور زرداری صاحب اپیل میں چلے گئے تھے۔ تب زرداری امریکہ میں مقیم تھے، وہ سوئس عدالت میں عدم حاضری کے لئے میڈیکل سرٹیفکیٹ بھجوا دیتے۔ اب جناب زرداری کس شان سے عدالت میں پیش ہوئے اور کمانڈو صدر پر سویلین صدر کی اخلاقی برتری کا نقش جما گئے۔ اس سے پہلے نوازشریف نے بھی منتقم مزاج آمر کے دور میں اپنے خلاف مقدمات کا کسی بہادری سے سامنا کیا تھا۔ زرداری صاحب سے قربت کی شہرت رکھنے والے ایک سینئر ایڈیٹر بھی اپنے حالیہ کالم میں یہ اعتراف کئے بغیر نہ رہے کہ نوازشریف کی قید تو طویل نہیں تھی مگر ان کی اذیتوں کا شمار بہت زیادہ ہے۔ تنگ و تاریک کوٹھڑی میں ان پر سانپ اور بچھو چھوڑے گئے۔ قید تنہائی میں رکھا گیا۔ ان کے تنگ کمرے میں روشنی کی ایک کرن تک آنے کی جگہ بھی نہ چھوڑی گئی۔ قلعے کے ملازمین کو حکم تھا کہ ان کے ساتھ بات تک نہ کی جائے مگر پاکستان کے سابق (اور موجودہ) وزیراعظم یہ سب کچھ صبر و سکون سے برداشت کرتے رہے۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
تازہ ترین