ہم شہر میں داخل ہوئے تو رات کے ساڑھے دس بج رہے تھے ، سورج غروب ہوئے ابھی ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا ، مگر ایسے لگ رہا تھا جیسے ہم کسی قبرستان میں آگئے ہوں، چاروں طرف خاموشی تھی، اکا دکا گھروں میں روشنی ٹمٹماتی ہوئی نظر آرہی تھی، دکانیں اور ریستوران بند تھے اور سڑک پر گاڑیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ ایک لمحے کے لیے یوں لگا جیسے یہ فلم ’A Quite Place‘ والا شہرہے جہاں کسی نے ہلکی سی آواز بھی نکالی تو کوئی خوفناک بلا اچانک کہیں سے نمودار ہوکر سب کونگل لے گی۔دَن ہاگ میں یہ ہماری پہلی رات تھی ، انگریزی میں اسے The Hagueلکھا جاتا ہے ، اسے آپ دنیا کا دارالحکومت برائے انصاف بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہاں عالمی عدالت انصاف کا دفتر قائم ہے ۔جس طرح شہر میں ہُو کا عالم طاری تھا ہمیں لگاکہ کہیں ہوٹل بھی بند نہ ہوچکا ہولیکن شکر ہے کہ ریسپشن پرایک نازنین موجود تھی ، ویسے میں نے نازنین کالفظ بلا وجہ ہی استعمال کیا ہے ،وہ بالکل عام سی لڑکی تھی، سفر نامے میں اگر آپ کوئی نازنین نہ ڈالیں تو یوں لگتا ہے جیسے یورپ سے نہیں بلکہ نتھیا گلی سے گھوم کر واپس آگئے ہوں۔
نیدر لینڈ سے ہمارا تعارف ہاکی کی مناسبت سے ہے، ہم اسے ہالینڈ کہتے ہیں جو اِس کے ایک صوبے کا نام ہے ۔دَن ہاگ کی ٹریفک کا نظام مجھے کافی پیچیدہ لگا ،یہاں یکدم سڑک پختہ اینٹوں سے بنائے گئے راستے پر چڑھ جاتی ہے جس سے اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کیا یہاں گاڑی لائی بھی جا سکتی ہے یا نہیں ۔ سڑک پر جا بجاٹریفک کے نشانات بنے ہیں ، یہ نشانات بتاتے ہیں کہ آپ نے کہاں رُکنا ہے اور کہاں سے گزرنا ہے ، یہاں کے لوگوں کے لیے تو یہ معمول کی بات ہے مگر ہم جیسوں کے لیے خاصی پیچیدہ ہے۔رہی سہی کسر ہمارے ڈرائیور نے پوری کردی، موصوف کو غلط گاڑی چلانے کا چالیس سالہ تجربہ ہے، ہائی وے پر گاڑی کو ایسے لہراتے کہ مرا ہوا بندہ جاگ اٹھے۔ میں نے پوچھا کہ عالی جناب یہ گاڑی اِس قدر لہراتی کیوں ہے، بڑی رسان سے فرمایا کہ اصل میں یورپ کی سڑکیں ہی ایسی ہیں کہ گاڑی لہراتی ہوئی لگتی ہے۔ ہم ہنس دیے، ہم چُپ رہے، منظور تھا پردہ ترا۔
کاروبار کرنا کوئی ڈچ لوگوں سے سیکھے، یہ لوگ صحیح معنوں میں تاجر ہیں، یہ ایک ملک سے چیزیں خریدتے ہیں ، یورپ کے معیار کےمطابق اُن کی برینڈنگ کرتے ہیں ، اُن پر اپنا ٹھپہ لگاتے ہیں اور دوسرے ملکوں کو بیچ دیتے ہیں، مثلاً پاکستان سے جراحی کے آلات منگواتے ہیں اور اُن پر اپنی مہر لگا کر جرمنی اور دیگر ممالک کو فروخت کردیتے ہیں۔یہ لوگ چینیوں کی طرح معیار گراکر قیمت کم نہیں کرتے ،یہ اپنا معیار برقرار رکھتے ہیں اور منہ مانگی قیمت مانگتے ہیں۔اِن کے کام کرنے کی صلاحیت بھی حیرت انگیز ہے، دَن ہاگ کے نواح میں ہمیں ایک بائیو گیس پلانٹ کو دیکھنے کا موقع ملا ، یہ پلانٹ کئی ایکڑ پر محیط تھا اور اسے صرف دو بندے چلاتے تھے اور خود پلانٹ کا مالک اور اُس کا بیٹا بھی انہی کے ساتھ کام کرتے تھے۔
ڈچ لوگوں کی یہ خوبیاں اپنی جگہ مگر یہ لوگ مہمان نواز بالکل نہیں ، یہ خوبی صرف ہم میں پائی جاتی ہے، ہم نے یہاں بڑے بڑے زمینداروں کے کھیت، فارم ہاؤس اور کارخانوں کا دورہ کیا مگر مجال ہے کہ اکا دکا جگہوں کے علاوہ کسی نے پانی بھی پوچھاہو۔ایک جگہ جب ہم پیاس سے بلبلا اٹھے تو میں نے کھیت کا دورہ کروانے والے زمیندار سے کہا کہ بھیاکیا پینے کے لیے پانی مل سکتا ہے ، اُس نے کہا کیوں نہیں ، اور پھر اندر سے پلاسٹک کے چھوٹے سے گلاس میں ایک گھونٹ پانی یوں بھر کر لایا جیسے آبِ زم زم پلا رہاہو۔اسی طرح ڈَچ لوگ انصاف کے علمبردار بھی بنتے ہیں، لبرل ازم کا جھنڈا بھی انہوں نے اٹھایا ہوا ہے، یہ دنیا میں احتجاج اور اختلاف رائے کی بھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ نیدر لینڈ LGBT کا بہت بڑا حامی ہے ، ایمسٹرڈیم میں اِن کا میلہ لگتا ہے جہاں دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں ، اِن کی پارلیمان میں جتنے ہم جنس پرست ہیں شاید کہیں اور نہ ہوں، اسی طرح اِن لوگوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ یہ رنگ ،نسل ، زبان، قومیت کی بنیاد پر تعصب نہیں برتتےمگراِن اعلیٰ اقدار کے باوجود ڈَچ حکومت کشمیر پر پاکستان کی حمایت نہیں کرتی،دیگر معاملات پر بھی یہ زیادہ تر امریکہ کی پیروی کرتے ہیں۔کشمیر کے معاملے میں کچھ نہ کچھ ہماری نا اہلی بھی ہوگی مگر جس طرح نیدر لینڈ نے انصاف کا جھنڈا اٹھایا ہوا ہے اُس کی وجہ سے انہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ کشمیر پر ناانصافی سے کام لیں۔
یورپ کے دیگر شہروں کی طرح دَن ہاگ بھی بے حد خوبصورت ہے، یہاں سمندر لگتا ہے جس کے کنارے جگہ جگہ ریستوران اور کیفے بنے ہیں، یہاں کی مچھلی بے حد لذید ہے، سردیوں میں یہ کیفے بند ہوجاتے ہیں۔دَن ہاگ شہر میں گاڑی چلاؤ تو اچانگ گمان ہوتا ہے جیسے شہر میں جنگل شروع ہوگیا ہواور پھر یہ جنگل کافی دیر تک ہائی وے پر بھی آپ کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔اِس جنگل کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ہم ایک دن کے لیے برسلز بھی گئے تھے، یہ شہر اڑھائی گھنٹے کی مسافت پر ہے، پتا ہی نہیں چلا کب نیدر لینڈ کی سرحد ختم ہوئی اور بلجیم شروع ہوگیا۔برسلز پہنچے تو بارش شروع ہوگئی، کھانے کا وقت بھی ہورہا تھا ، ہم نے جلدی سے ایک ترک ریستوران میں پناہ لی، اِس کا مالک خاصا سڑیل اور بد مزاج تھا مگر کھانا اچھا تھا۔ برسلز چھوٹا سا شہر ہے اور اِس کی تمام رونق گرینڈ پلیس (پیلس نہیں)کے ارد گرد ہے ، یہیں گلیوں میں بلجیم چاکلیٹس کی دکانیں ہیں جنہیں دکانیں کہنا کچھ توہین آمیز سا لگتا ہے ، یہاں چاکلیٹ کی ایسی ایسی اقسام ملتی ہیں کہ بندہ چکرا کر رہ جاتا ہے،انہوں نے چکھنے کے لیے دو تین دانے بھی رکھے ہوتے ہیں ۔ ایسی ہی ایک دکان میں پاکستانی سے ملاقات ہوگئی ، اُس کی مہمان نوازی نے وہاں بھی چین نہیں لینے دیا،چاکلیٹ کا پورا ٹوکرا اٹھا کر ہمارے آگے رکھ دیا کہ جو دل میں آئے ’چکھ لیں‘۔ہم نے چاکلیٹس خریدیں اور باہر نکل آئے ۔بارش اب بھی جاری تھی ۔ لاہور فون کیا تو پتا چلا کہ وہاں بھی بارش ہورہی ہے ۔برسلز کی بارش خوبصورت تھی مگر وہ بات کہاں لاہور جیسی، لاہور میں بارش کے ساتھ ہمارا دِل بھی تو تھا!