چین پاکستان اقتصادی راہ داری (سی پیک) منصوبےکو دس سال مکمل ہوگئے۔ دس برس قبل اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اور چین کے صدر، شی پنگ چن نے سی پیک پر دستخط کیے تھے۔ آج معاہدوں اور ایم اوہوز پر دستخطوں کے بعد دوسرے مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ زیرِ نظر مضمون میں ہم،سی پیک کے دس سالہ سفر پر ایک نظر ڈال رہے ہیں۔
……٭٭……٭٭……٭٭……
’’ سی پیک‘‘ دراصل چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو (BRI) کا ایک اہم ترین منصوبہ ہے جس کا افتتاح 2013 میں ہوا تھا۔ منصوبے کا بنیادی مقصد پاکستان، چین کے درمیان مشترکہ مفادات کو فروغ دینا اور باہمی مشاورت کے ساتھ تعمیر و ترقی کے کئی منصوبوں پر کام کرنا تھا۔ دس سال میں سی پیک پر کام کبھی تیزی اور کبھی سست رفتاری سے آگے بڑھا اور اس کےفائدے نظر بھی آرہے ہیں۔
پاکستان چوں کہ اقتصادی طور پر مسلسل پسماندگی میں گھیرا رہا ہے اس لیے، سی پیک کے منصوبوں کی اہمیت اپنی جگہ برقرار اور اس سے بڑی توقعات وابستہ ہیں ۔منصوبے کا مقصد پاک چین تعلقات میں ایک نئی جہت کے ساتھ کام کرنا شامل رہا ہے ،جس سے اس خطے میں اقتصادی کے علاوہ سماجی اور بین الاقوامی طور پر بہتری کی امید رہی ہے۔
پاکستان اور چین میں سرکاری سطح پر یہ بات اکثر دہرائی جاتی ہے کہ باہمی دوستی سمندر سے گہری اور ہمالیہ سے اونچی ہے لیکن ماضی میں اس کے ٹھوس ثبوت ڈھونڈنے خاصے مشکل تھےمگرگزشتہ دس سال میں سی پیک، منصوبوں کے تحت ایسے ثبوت ملنا نسبتاً آسان ہوئے ہیں۔
کسی بھی باہمی معاہدے یا منصوبے کو جانچنے کا غالباً سب سے اہم پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ وہ معاہدہ یا منصوبہ کس حد تک عوام دوست رہا ہے ۔ اگر امریکا کی پاکستان کو مدد کا جائزہ لیا جائے تو امریکا نے پاکستان کو زیادہ تر فوجی امداد دی ہے اور جو منصوبے ،صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بنائے اُن میں بہت کم ہی کام یاب ہوئے۔ روس کی جانب سے پاکستان کو، اسٹیل مل کی فراہمی ایک عوام دوست منصوبہ تھا مگر یہ اپنی تکمیل کے صرف تیس سال بعد ہی بند ہوگیا۔
اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو سی پیک کے منصوبوں کے عوام دوست ہونے میں کوئی شک نہیں، البتہ یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ ،آنے والی حکومتیں کس حد تک ان کو کامیابی سے چلا سکیں گی۔
تحریک انصاف کی حکومت کے دوران ، سی پیک کو ایک طرح سے مفلوج کرکے رکھ دیا گیا تھا اور اگر کوئی کام ہوا بھی تو اس سست رفتاری سے کہ اس کے کچھ حصوں پر تشویش کا اظہار کیا جانے لگا تھا۔
اگر سی پیک کو بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں دیکھا جائے تو پچھلے دس سال میں پاکستان رفتہ رفتہ امریکا کے دائرہِ اثر سے نکل کر چین کی طرف زیادہ مائل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایک طرف پاکستان بتدریج معاشی بدحالی کا شکار ہوا تودوسری طرف توانائی کا شدید بحران مزید پریشانی کا باعث بنتا رہا لیکن اس سلسلے میں امریکا پاکستان کی کوئی خاطر خواہ مدد نہ کر سکا۔
2013 میں نواز شریف کی حکومت آنے کے بعد چین سے تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا اور تیزی سے، سی پیک کے منصوبے آگے بڑھنے لگےاور یہ بات امریکا کو قطعی پسند نہ آئی۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان پر عمران خان کو مسلط کرنے میں امریکا کا ہاتھ بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ۔اس مقصد کے لیے اس وقت کے امریکی صدر ٹرمپ نے بھی فیصلہ کُن کردار ادا کیا اور سن دو ہزار اٹھارہ میں اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ نواز شریف کسی بھی طرح اقتدار میں واپس آکر سی پیک کو تیزی سے مکمل نہ کرا سکیں۔
سی پیک کا غالباً سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ توانائی کا بحران اس شدت سے باقی نہیں رہا جیسے دس برس پہلے تھا ۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ اگر توانائی کے شعبے میں سی پیک کے ذریعے سرمایہ کاری نہ ہوتی تو پاکستان کی حالت بہت زیادہ خراب ہوتی، کیوں کہ کوئی دوسرا ملک بشمول امریکا اور روس کے اس بات پر راضی نہیں تھے کہ توانائی کے شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کریں۔
یعنی اگر سی پیک نہ ہوتا تو پاکستان میں توانائی کی شدید قلت ہوتی اور برآمدات اتنی بھی نہ رہتیں جتنی اس وقت ہیں ۔ محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان میں اب تک سی پیک کے ذریعے پچیس ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری ہوچکی ہے۔
گوکہ سی پیک پر بنیادی کام زیادہ تر نوازشریف کے دورِ حکومت میں ہوا پر یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نےپاکستان کو چین کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، جب کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے دورِ حکومت میں 2008 سے 2013 تک پاک چین تعلقات میں خاصی پیش رفت ہو چکی تھی ۔ آصف زرداری نے کئی بار چین کا دورہ کیا اور باہمی تعلقات کو مزید بہتری کے راستے پر ڈالا تھا، جس کا فائدہ نواز شریف نے بھی اٹھایا ۔
توانائی کے علاوہ سی پیک کے ذریعے چین کے علاقے، سنک یانگ سے گوادر تک بندرگاہ، ریلوے اور موٹروے کے ذریعے ذرائع نقل و حمل کو بہتر بنانا بھی شامل رہا ہے۔ اس کی بدولت تیل اور گیس کی بروقت ترسیل کے امکانات مزید بہتر ہوئے ہیں۔
گوادر سے کاشغر تک تقریباً ڈھائی ہزار کلو میٹر کی راہ داری بڑی حد تک مکمل ہو چکی ، اس پر مجموعی اندازه پچاس ارب ڈالر تک کا لگایا گیا ہے، حبس میں ریلوے کی تجدید و توسیع بھی شامل ہے، جس پر ابھی کام ہونا باقی ہے۔
سی پیک کے تحت گوادر کی، بندرگاہ پر کام مکمل ہوا اور اگلے چالیس سال کے لیے چین کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ کراچی سے پشاور تک مرکزی ریلوے لائن پر کام اب تک شروع ہو جانا چاہئے تھا لیکن تحریک انصاف کی حکومت کی نا اہلی کے باعث اس پر ابھی تک امکانات کا مطالعہ اور مشاہدہ جاری ہے۔
اس کے علاوہ سی پیک کے تحت کراچی تا لاھور موٹروے پر بڑی حد تک کام مکمل ہو چکا ہے لیکن سندھ میں یہ منصوبہ شدید بدعنوانیوں کی زد میں رہا اور کام کی نوعیت بھی اتنی اچهی نہیں جتنی کہ پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں رہی ہے ۔ یقین نہ آئے تو کراچی سے سکھر تک سفر کر کے دیکھ لیں۔
اس طرح حویلیاں سے خنجراب تک ریلوے لائن کی منظوری تو دے دی گئی ہے، مگر کام پر بڑی سست رفتاری سے پیش رفت ہو رہی ہے ۔ سی پیک کے تحت مکمل ہونے والے منصوبوں میں غالباً سب سے اچھا منصوبہ ہزارہ موٹروے کا تھا، جس نے اس خطے میں آمدورفت کو بہت آسان اور تیز رفتار بنا دیا ہے۔ اب اسلام آباد سے مانسہرہ تک جانے کا وقت خاصا کم ہوگیا ہے۔
ایک اور منصوبہ جس پر پاکستان نے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا ،وہ ایران سے پاکستان کی گیس پائپ لائن کا تھا، جس پر ایران اپنے ملک کے اندر کا حصہ مکمل کر چکا ہے لیکن پاکستان مختلف وجوہ کی بنا پر کام کو آگے نہ بڑھا سکا۔
سی پیک کے تحت بلوچستان میں اہم لنک روڈ یا رابطے کی سڑک ،جون 2023 میں مکمل کر لی ہے ۔ پنجاب اور ملک کے دیگر شمالی حصّوں سے گوادر جانے والی ٹریفک کے لیے اب فاصلہ خاصا کم ہوگیا ہے۔
گیارہ ارب روپے کی لاگت سے بیسمہ خضدار روڈ پر کام مکمل کرلیا گیا ہے لیکن ابھی رتو ڈیرو گوادر موٹروے مکمّل نہیں ہو سکی۔ یہ سڑک کل ساڑھے آٹھ سو کلومیٹر پر مشتمل ہوگی ۔ سی پیک کے دیگر منصوبوں میں حویلیاں خشک گودی (ڈرائی پورٹ) اورنج لائن لاھور میٹرو بھی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ گوادر بین الاقوامی ہوائی اڈہ، پاک چین مشترکہ کپاس حیاتی تکنیکی تجربہ گاہ، گوادر نواب شاہ ایل این جی ٹرمینل اور پائپ لائن پراجیکٹ، ستر میگا واٹ ہائیڈرو بجلی سکی کناری ہائیڈرو پاور منصوبہ بن قاسم، 2x660 میگا واٹ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ، سات سو بیس میگاواٹ خروٹ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، پنجاب میں شمسی بجلی کا منصوبہ، جام پور میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ، تھر بلاک دو میں کان کنی منصوبہ، تھر بلاک دو میں 2x330 میگا واٹ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ، نجی ہائیڈرو پاور منصوبوں کی ترقی، دادو میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ اور سرحد پار سے فائبر آپٹک ڈیٹا مواصلاتی نظام کا منصوبہ بھی شامل ہیں ۔
کراچی پشاور موٹروے کی تکمیل جو ڈیڑھ ہزار کلو میٹر پر مشتمل ہوگی اور سی پیک کی مجموعی لمبائی جو ڈھائی ہزار کلو میٹر ہوگی، مکمل ہونے سے پورے ملک کی آبادی کو فائدہ ہوگا،گو کہ بعض تنقید کرنے والے کہتے ہیں اس سے نہ غربت کم ہوئی اور نہ مہنگائی پر قابو پایا جاسکا مگر اس کی وجوہ دیگر بہت سی ہیں۔ اگر سی پیک نہ ہوتا تو ہمارے حالات اور بھی زیادہ خراب ہوتے۔
اس کے علاوہ گوادر سے ڈیرہ اسماعیل خان تک براستہ کوئٹہ سڑک بھی شامل ہے۔ چوں کہ سی پیک کا مجموعی دورانیہ 2015 سے 2030 پھیلا ہوا ہے اس لیے ابھی اس منصوبے کی تکمیل میں مزید آٹھ سے دس برس لگ سکتے ہیں۔ بندرگاہوں، توانائی، نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے اور صنعتی تعاون کے شعبوں میں اہم پیش رفت، سی پیک کے تحت ہوئی ہے لیکن ابھی پاکستان کے مالیاتی مسائل اتنے گمبھیر ہیں کہ لوگ مہنگائی اور غربت کے بوجھ تلے پستے چلے جارہے ہیں اور سی پیک کے منصوبے براہ راست غربت،مہنگائی کم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
چین اور پاکستان کی جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی (JCC) کے تحت پانچ ورکنگ گروپ ہیں جنہیں ابھی مزید فعال کرنے اور مطلوبہ نتائج پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ گو کہ گوادر بندرگاہ اور ہوائی اڈے پر کام ہوا ہے مگر گوادر کے عوام اب بھی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں، وہاں تعلیم، صحت اور روزگار کی فراہمی کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ، اگر مقامی لوگوں کی زندگی بہتر نہیں ہوتی تو تمام دعوے کھوکھلے نظر آئیں گے اور سی پیک پر اعتراضات بھی بڑھتے رہیں گے۔
اب جب کہ چین کے نائب وزیراعظم ہی لی فینگ پاکستان کا تین روزہ دورہ مکمل کر کے اور سی پیک کی دسویں سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کر کے جا چکے ہیں تو توقع کی جانی چاہیے کہ آنے والے برسوں میں سی پیک پر کام تیز رفتاری سے آگے بڑھے گا اور اس کے ثمرات عوام تکپہنچتے نظر آئیں گے۔
چین کے نائب وزیراعظم نے چین کے بین الاقوامی اقتصادی تعلقات اور بی آر آئی کے نفاذ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ،کیوں کہ وہ چین کے قومی ترقیاتی اور اصلاحاتی کمیشن کے سربراہ کے طور پر چھ سال سے خدمات انجام دے رہے ہیں اور سی پیک کے منصوبوں کی براہ راست نگرانی بھی کرتے رہے ہیں۔ ان ہی خدمات کے اعتراف میں پاکستان نے ہی لی فینگ کو ہلالِ پاکستان کا اعزاز بھی دیا ہے۔
اسی دورے کے دوران پاکستان اور چین نے مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعاون چھ معاہدوں اور مفاہمت کی یاداشتوں پر دست خط کیے ہیں۔ ان میں ماہرین کے تبادلے کا طریقہ کار وضع کرنے اور پاکستان کی طرف سے چین کو خشک مرچیں برآمد کرنے کے معاہدے بھی شامل ہیں ۔ ان کے علاوہ قراقرم ہائی وے کی دوبارہ بحالی اور صنعتی کارکنوں کے تبادلے کے معاملات بھی شامل کئے گئے ہیں۔ سب سے اہم ایم ایل ون کے منصوبے پر پیش رفت بھی ہوئی ہے ۔
یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئیے کہ 2022 کے تباہ کن سیلاب اور آئی ایم ایف کے معاہدے کو حتمی شکل دینے میں چین کی معاونت نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اچھی بات یہ ہے کہ سی پیک کی دسویں سالگرہ اور نائب وزیراعظم کے دورے کے موقع پر مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی شانہ بہ شانہ کھڑ ے رہے کہ یہی جمہوریت کی روایت ہے۔
جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگلی حکومت چاہےکسی کی ہو، سی پیک پر کام بدستور جاری رہے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ سی پیک کا زیادہ فائدہ چین کو ہورہا ہے اور ہوگا۔ مثلاً گوادر کی بندگاہ کا معاہدہ دیکھیں تو اس میں نوے فی صد سے زیادہ آمدنی چین لے جائے۔ اس طرح پاکستان میں پنجاب کا فائدہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہو رہا ہے۔ اب اس کو بدلنے کی ضرورت ہے اور پاکستان کو اپنا حصہ بہتر کر کے تمام صوبوں کو ثمرات بانٹنے چاہئیں۔