• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگست ہماری آزادی اور احتساب کا مہینہ ہے۔چند روز بعد ریاست پاکستان اپنی خود مختاری کی 76ویں سالگرہ منائے گی مگر سوال یہ ہے کہ پچھلے 75بر سوں میں ہماری اشرافیہ نے مملکت کو کیا دیا۔ہم ترقی کے بجائے تنزلی کی جانب کیوں گامزن رہے۔ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا بھارت ہم سے آگے کیوں نکل گیا ۔ بنگلہ دیش نے ہمیں کیوں پیچھے چھوڑ دیا۔ محرم الحرام کا مہینہ ا بھی جاری ہے جس ماہ میں نواسہ رسولﷺ حضرت امام حسین رضی اللّٰہ عنہ نے تمام تر دنیاوی فوائد کو پائے حقارت سے ٹھکرا کر اسلام کی سر بلندی اور امت مسلمہ کی بقاء کیلئے اپنا پورا گھرانہ قربان کر کے رہتی دنیا تک ایک ایسی انمول مثال قائم کردی جس کی کوئی بھی انسان یا قوم تقلید کرکے اپنا حال اور مستقبل سنوار سکتی ہے ۔ افسوس ہمارے حکمرانوں نے اپنی ذات کے خول سے باہر نکلنے کی کوشش ہی نہ کی ۔آزادی کے چند برس تک مخلص حکمرانوں نے اپنی لگن سے ملکی مفادات کو سامنے رکھ کر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا مگر بعد میں آنے والوں نے جمہوریت کے نام پر ریاست کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ،وہ ملک جنہیں ہم قرضہ دیتے تھے اب ہم ان کےآگے جھولی پھیلانے پر مجبور ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام ٹھپ ہے۔ اسپتال عدم سہولیات کی وجہ سے گویا مقتل بن چکے ہیں۔قانون کی حکمرانی ختم،عدالتیں بھی تقسیم کا شکار ۔ ملک میں جمہوریت کے نام پر صرف خاندانی اور موروثی سیاست کا کھیل جاری رہا، جس نے جمہوریت کے حقیقی فوائد عوام تک پہنچنے ہی نہ دئیے، ہمارے حکمرانوں نے کسی بھی دور میں عوام کو ریلیف دینے پر توجہ نہیں دی۔ ملک میں مہنگائی عروج پر ہے، عمران حکومت کی نااہلی سے ہم سستی ترین گیس نہ خرید سکے۔ملک میں سیاسی چپقلش اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ معیشت بھی سیاسی رسہ کشی کا شکار ہے۔ صوبائی حکومتیں پوری کوشش کررہی ہیں کہ معاشی بدحالی اور مہنگائی کی تمام تر ذمے داری وفاقی حکومت پر ڈالی جائے۔اٹھارویں ترمیم کے تحت زیادہ تر اختیارات صوبوں کو منتقل ہوچکے ہیں، لہٰذا مہنگائی کے ایشو پر جہاں وفاق ذمے دار ہے وہاں صوبے بھی اپنی ذمے داری سے انکار نہیں کرسکتے،روازانہ استعمال کی اشیاء کے نرخوںکو مستحکم رکھنا، تھوک مارکیٹس وغیرہ کو ریگولرائز کرنا،وہاں نگرانی کرنا اور فول پروف میکنزم بنانا صوبائی حکومت کی ذمے داری بھی ہے اور اس کے پاس اختیارات بھی ہیں۔صوبوں میں پرائس کنٹرول کمیٹیاں بھی موجود ہیں لیکن اس کے باجود ہر جانب بدنظمی اور لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ملک میں خود ساختہ مہنگائی کو روکنے والا کوئی نہیں۔طرفہ تماشہ یہ کہ ضلعی حکومتیں اپنی ہی متعین کردہ اشیائےخورونوش کی قیمتوں کے سلسلے میں روزانہ جو نرخ نامہ جاری کرتی ہیں اس کے برخلاف اشیاء کی دگنی قیمت وصول کی جاتی ہے کوئی گاہک اگر اعتراض کرتا بھی ہے تو اسے بدتمیزی اور بے عزتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس وقت بجلی، گیس اور پانی کے بھاری بل ادا کرنے کے باوجود عوام اس کے حصول میں دشواری اور مشکلات سے دوچار ہیں،پاکستان میں گورننس کی کمزوریوں نے بھی قیمتوں میں اضافہ کیا کیونکہ ’پرائس کنٹرول‘ کا نظام زمیں بوس ہو چکا ہے اور مقامی سطح پر کوئی پرائس کنٹرول کا نظام موجود نہیں کہ جو ناجائز منافع خوری کی روک تھام کر سکے۔گزشتہ چار پانچ حکومتوں میں قیمتوں کو کنٹرول رکھنے کا نظام مکمل طور پر ختم ہو چکا ہےاس سے پہلے کسی حد تک مقامی سطح پر قیمتوں پر نظر رکھی جاتی تھی۔

اس وقت جبکہ ہم غیر ملکی قرضوں میں بری طرح جکڑے جا چکے ہیں، آرمی چیف جنرل حافظ سید عاصم منیر نے ذاتی دل چسپی سے مشکلات سے باہر نکلنے کے لئے مضبوط معیشت کو اپنا ہدف بنایا ہے،انہوں نے چند ماہ میں ملک کے معاشی حالات کو سدھارنے کے لئے کئی اہم منصوبوں کو سامنے لاکر دنیا کو حیران کردیا ہے،معدنیاتی منصوبوں کو عوام کی ترقی کا زینہ قراردیا،شمالی وزیرستان کے علاقے محمد خیل میں کاپر مائننگ پروجیکٹ پاکستان کا مستقبل روشن کرنے کیلئے اہم کردار ادا کرسکتا ہے، یہ بات بہت زیادہ خوش آئند ہے کہ حال ہی میں پاکستان میں 6سے 8ٹریلین ڈالرز کے معدنی ذخائر کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ یہ پاکستان کے معاشی مستقبل کے روشن ہونے کی جانب مثبت اشارہ ہے، آرمی چیف کا یہ کہنا کہ’’ برف پوش پہاڑوں سے لے کر صحراؤں کی وسعت تک ، ساحلی پٹی سے میدانی علاقوں تک پاک سر زمین میں کیا کچھ نہیں ہے‘‘،اس حقیقت کو واضح کررہا ہے کہ اگر ہماری نیت صاف ہو تو ہمارے اسلامی جمہوری ملک ہونے کی اس مضبوط دلیل کو دنیا کی کوئی طاقت مسترد نہیں کرسکتی ، ہماری حکومتوں کوبیرونی سرمایہ کاروں کو دعوت د ینی چاہئے کہ پاکستان میں چھپے خزانوں کی دریافت میں اپنا کردار ادا کریں یہ ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے کہ ہم مل کر ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کریں، توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو سزا ہوگئی ہے، ان کی سیاسی حکمت عملی مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے، دوسروں کو چور اور ڈاکو کہنے والے عمران خان خود کرپٹ ثابت ہوئے، اب قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد ہمیںنگراں سیٹ اپ تشکیل دینا ہوگا، صورت حال کے غیر واضح ہونے کی وجہ سے سیاسی بے یقینی بڑھ رہی ہے،نئی مردم شماری کی منظوری کے بعد عام انتخابات تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں، ایسے میں نگراں حکومت کو ملک میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کو بھی سامنے رکھنا ہوگا،بھارت اور افغانستان مسلسل پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں جس پر نگاہ رکھنا ناگزیر ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین