بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر انوارالحق کاکڑ دیگر تمام امیدواروں کو شکست دیکر نگران وزیراعظم بننے میں کیسے کامیاب ہوئے؟یہ دلچسپ روداد کسی سنسنی خیز فلم کی کہانی محسوس ہوتی ہے۔ اقتدار کا یہ ہما اسحاق ڈار، شاہدخاقان عباسی، مفتاح اسماعیل، فواد حسن فواد، جنرل (ر) راحیل شریف، جسٹس (ر) تصدق جیلانی،جلیل عباس جیلانی، گورنر سندھ کامران ٹیسوری، مخدوم احمد محمود، عبدالحفیظ شیخ، صادق سنجرانی اور جام کمال سے ہوتا ہوا سینیٹر انوار کاکڑ کے سر پر کیسے بیٹھا؟یہ تفصیل جاننے سے پہلے ہم کاکٹر فارمولا ون کی بات کرلیتے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے 18اپریل 1993ء کو صدر غلام اسحاق خان کیخلاف بغاوت کا علم بلند کرتے ہوئے ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کیا تو صدر نے 58(2b)کے تحت قومی اسمبلی تحلیل کردی۔میر بلخ شیر مزاری نگران وزیراعظم بنے، انکے عہدے کی معیاد 90دن تھی مگر 39دن بعد ہی انہیں گھر جانا پڑا کیونکہ سپریم کورٹ نے 26مئی 1993ء کو نوازشریف کی حکومت بحال کر دی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ صدر غلام اسحاق خان عدالتی فیصلے کی روشنی میں استعفیٰ دیکر گھر چلے جاتے مگر وہ اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے ڈٹ گئے اور منتخب جمہوری حکومت کی راہ میں روڑے اٹکانا شروع کردیئے۔ آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے ثالث کا کردار اداکرتے ہوئے تجویز دی کہ صدر اور وزیراعظم دونوں استعفیٰ دیکر گھر چلے جائیں اور عام انتخابات کا اعلان کردیا جائے۔ کاکڑ فارمولے کے تحت صدر اور وزیراعظم کی چھٹی ہوگئی تو نگران وزیراعظم ڈھونڈنے کی ضرورت پیش آئی۔ گزشتہ چند روز سے 8,10امیدواروں کے نام سامنے آئے تو لوگ اُکتا گئے اور انہیں لگا کہ اس بار متوقع امیدواروں کی فہرست بہت طویل ہوگئی ہے۔ لیکن 1993ء میں نگران وزیراعظم کیلئے متوقع امیدواروں کی فہرست 80افراد پر مشتمل تھی جب مشاورت کا عمل شروع ہوا تو یکے بعد دیگرے یہ سب نام کسی نہ کسی فریق کی جانب سے مستر دکر دیئے گئے۔ آخر میں دو ٹیکنوکریٹس کے نام باقی رہ گئے۔ AGNقاضی اورمحبوب الحق۔ مگر بینظیر بھٹو ان دونوں ناموں پر معترض تھیں۔چنانچہ آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ کی ہدایت پر ڈی جی آئی ایس آئی جنرل جاوید اشرف قاضی نے جادوگر کی طرح اپنے ہیٹ سے معین قریشی کا نام نکالا اور اس پر سب مان گئے۔ آئی ایم ایف کے سابق نائب صدر معین قریشی جو امریکی گرین کارڈ ہولڈر تھے، اس وقت سنگاپور میں تھے اور کینسرجیسے موذی مرض کے خلاف نبردآزما تھے، ان سے رابطہ کیا گیا مگر معین قریشی نے یہ عہدہ قبول کرنے سے انکار کردیا۔ معین قریشی کے انکار پرلیفٹیننٹ جنرل جاوید اشرف قاضی نے بیک اپ پلان کے مطابق ضیا دور کے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس محمد حلیم کو بطور نگران وزیراعظم سامنے لانے کا فیصلہ کیا۔جسٹس حلیم اس وقت اندرون سندھ سفر کررہے تھے ،کراچی میں آئی ایس آئی کے اہلکاروں کوٹاسک دیا گیا کہ انہیں ڈھونڈ کر رابطہ کروائیں ۔اس دوران آخری کوشش کے طورپر دوبارہ معین قریشی سے رابطہ کیا گیا تو وہ کچھ حیل و حجت کے بعد مان گئے اور یوں جسٹس محمد حلیم تک پیغام پہنچنے سے پہلے ہی نگران وزیراعظم کی پیشکش واپس لے لی گئی۔ معین قریشی پاکستان پہنچے تو ایئر پورٹ پر ان کا قومی شناختی کارڈ تیارکرکے دیا گیا جس پر پتہ وزیراعظم ہائوس درج تھا۔ معین قریشی کی آمد سے پہلے ہی ان کے بھائی بلال قریشی کی معاونت سے شیروانی بھی سلوائی جا چکی تھی تاکہ وہ پاکستان کے قومی لباس میں نگران وزیراعظم کا حلف اُٹھا سکیں ۔معین قریشی انتخابات ہونے کے فوری بعد امریکہ واپس لوٹ گئے اور انتقال ہونے پر وہیں دفن ہوئے۔ اس بار جتنے متوقع امیدواروں کے نام لئے جارہے تھے ان میں سب سے پہلے عبدالحفیظ شیخ پر غور کیا گیا مگر انہیں نگران وزیراعظم بنائے جانے کی صورت میں یہ تاثر جاتا کہ آئی ایم ایف کابندہ لگادیا گیا ہے۔سیاسی جماعتوں کی خواہش تھی کہ کسی ٹیکنوکریٹ کے بجائے قابل اعتماد سیاسی شخصیت کو یہ ذمہ داری سونپ دی جائے۔میاں نوازشریف چاہتے تھے کہ اسحاق ڈار نگران وزیراعظم بنیں تاکہ آئندہ چند ماہ کے دوران معیشت میں بہتری کا کریڈٹ انکی جماعت کو جائے۔مگر اسٹیبلشمنٹ نے اس تجویز کو مسترد کردیا۔آخر کار سابق سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی کو نگران وزیراعظم بنانے کا فیصلہ ہوا۔جہاں بلا کر بات چیت کی جاتی ہے وہاں ان کا غیر رسمی انٹرویو ہوگیا،ان کی رہائشگاہ پر سکیورٹی کے انتظامات کردیئے گئے ،انہوں نے مبارکبادیں وصول کرنا شروع کردیں لیکن شاید یہ سب کچھ بلف گیم کا حصہ تھا۔موقع آنے پر جادوگر کی طرح ہیٹ سے بلوچستان کارڈ نکال لیا گیا اور یہ کہا جانے لگا کہ نگران وزیراعظم چھوٹے صوبے سے ہونا چاہئے۔ سینیٹر انوارالحق کاکڑ کے بارے میں یہ گفتگو ہورہی ہے کہ وہ محمد خان جونیجو اور ظفراللہ جمالی بنیں گے یا پھر صادق سنجرانی ثابت ہوں گے۔مجھے دوستی کا دعویٰ تو نہیں البتہ ان سے برسوں پرانی شناسائی تب سے ہے جب وہ بلوچستان حکومت کے ترجمان ہوا کرتے تھے ۔وزیراعلیٰ بلوچستان بذات خود کہا کرتے تھے کہ کاکڑ صاحب ’’کسی اور‘‘کے ترجمان ہیں۔انوارالحق کاکڑ کے ایک جملے نے مجھے بہت متاثر کیا کہ بلوچستان کو لاشیں تو رقبے کے حساب سے ملتی ہیں مگر وسائل آبادی کے تناسب سے ۔ان کی قابلیت اور صلاحیت پر ہرگز کوئی دورائے نہیں مگر جنہوں نے انہیں سیاست میں متعارف کروایا اور اب نگران وزیراعظم بنوایا ،وہ ان سے ایمان کی حد تک وفادار ہیں۔لہٰذا میری دانست میں معاملات سیاستدانوں کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔اسے کاکڑ فارمولا 2سمجھا جائے کیونکہ یہ نگران وزیراعظم صرف 3ماہ کے لئے نہیں لائے گئے ،منصوبہ بہت طویل اور خطرناک ہے۔