• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی پوری تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا ہے کہ پوری قوم نے اپنے سپر اسٹار کا تماشا بنتے ہوئے دیکھا ہو۔ مجھے نہیں لگتا کہ ملک کی مکمل تاریخ میں نامور اور گم نام سیاستدانوں نے اپنے اختلافات اور دیرینہ دشمنیوں کو فی الحال بالائے طاق رکھ کر عمران خان کے خلاف اس طرح بھڑاس نکالی ہو۔ ایسے ایسے نامعلوم، نامانوس اور انجان اور اجنبی لوگ کونوں کھدروں سے سیاستدان بن کر نکل آئے جن کی نہ جان تھی، نہ پہچان تھی۔ کسی نے ان کا نام تک نہیں سنا تھا۔ جوان کے مائوف ذہن میں پنپتا رہتا تھا،عمران کے کھاتے میں ڈال دیتے تھے۔ اس نوعیت کی یلغار کسی نے پاکستان کی تاریخ میں سنی تھی، اور نہ کبھی دیکھی تھی۔بین الاقوامی شہرت اورعزت رکھنے والے کسی شخص کے خلاف ایسی عامیانہ مہم جوئی ہم نے پہلے کسی قومی ہیرو کے خلاف ہوتے ہوئے نہیں دیکھی تھی۔ فضل محمود کی بے پناہ شہرت ریٹائرڈ جسٹس کارنیلس کو اچھی نہیں لگتی تھی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے ایک بار ان کی سخت مینجمنٹ میں ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ بمبئی فلم انڈسٹری کی نامور اور شہرت یافتہ ہیروئنوں کا فضل محمود سے ملنا جلنا ریٹائرڈ جسٹس کو اچھا نہیں لگتا تھا۔ اپنی رپورٹ میں ریٹائرڈ جسٹس کارنیلئس نے سخت الفاظ میں ان ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے۔ تقریباً ستر برس پرانی بات ہے ۔ ممکن ہے کرکٹ بورڈ کا کچھ قدیم ریکارڈ ابھی سلامت ہو۔ پرانا ریکارڈ کھنگال کردیکھ لیں۔ فقیر کی تصیح ہوجائے گی اور ٹوئر رپورٹ اپنی اصلی حالت میں آپ کو پڑھنے کے لیے مل جائے گی۔ کھیل اور کھلاڑیوں سےرغبت رکھنے والے جانتے ہیں کہ سپر اسٹار فرشتے نہیں ہوتے ۔ سپر اسٹار درویش نہیں ہوتے۔ تمام عمر وہ اپنے کھیل اور کھیلوں کی د نیا میں غرق رہتے ہیں۔ اپنی چادر اور چار دیواری سے نکل کر باہر کی بے فیض دنیا میں کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ آپ اپنے کسی سپر اسٹار کو کرپٹ پولیس کا محکمہ ٹھیک کرنے کے لیے انسپکٹر جنرل آف پولیس نہیں لگا سکتے۔ عام، بے بس آدمی کی دہلیز تک انصاف پہنچانے کے لیے، آپ اپنے سپر اسٹار کو ملک کا چیف جسٹس نہیں لگا سکتے۔ جہالت کے اندھیرے دور کرنے کے لیے سپر اسٹار کو نہیں سونپ سکتے۔ مگر، بدقسمتی سے، آپ کے درمیاں گل محمد نامی شخص کا ظہور ہوتا ہے جس کی ذہانت، فہم اور فراست اور دانائی کے آگے بڑے بول بولنے والوں کی بولتی بند ہوجاتی تھی۔ ہم سب کی زندگی میں ایک عدد گل محمد ہوتا ہے۔

عمران خان کے لاکھوں کروڑوں چاہنے والوں میں گل محمد صاحب بھی شامل تھے۔ عمران خان سے بے انتہا متاثر تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کی سیاست کو راہ راست پر لے آنے کے لئے ملک کو عمران خان کی سخت ضرورت ہے۔ انہوں نے ایک لمحے کے لئے سوچنا گوارا نہیں کیا کہ عمران خان سیاست سمجھتا ہے؟ کھیلتے ہوئے، میدان میں، اور میدان سے باہر اس نے کب اور کتنی سیاست لڑائی تھی؟ تمام عمر وہ فاسٹ بالر تھا، اور اب تک فاسٹ بالر ہے۔ کھیل کے میدان میں اور میدان کے باہر وہ اکھڑ تھا، ضدی تھا ،اپنی مرضی کا مالک تھا۔ خود فیصلے کرتا تھا اور ان فیصلوں پر عمل پیرا ہوتا تھا۔ اگر کسی کھلاڑی کو ٹیم میں لینا ہوتا تھا، بغیر جھجک کے لےلیتا تھا۔ کوچ اور سلیکٹر کو اہمیت نہیں دیتا تھا۔ اگر کسی کھلاڑی کو ٹیم سے فارغ کرناہوتا تھا، تو کھڑے کھڑے اس کھلاڑی کو ٹیم سے نکال دیتا تھا۔ ایسے شخص کو گل محمد پاکستان چلانے کی ذمہ داری دینا چاہتے تھے۔آپ نے اسے ذمہ داری دی۔ نتیجہ آپ نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ آپ نے غلط فیصلہ کیا تھا۔ آپ کے غلط فیصلہ کا نتیجہ ایک سپر اسٹار کو بھگتنا پڑا۔ آپ عمران خان کو وہ بنانا چاہتے تھے، جو وہ کبھی بن نہیں سکتا تھا۔ آپ نے اپنے غلط فیصلے سے اتنے بڑے کھلاڑی، سپر اسٹار کو دنیا کے لیے تماشہ بناکر رکھ دیا۔ شاید ہی کسی قوم نے اپنے سپر اسٹار کو اس طرح رسوا اور خوار کیا ہو جس طرح ہم نے اپنے سپر اسٹار عمران خان کو خوار کیا ہے۔ خوش نصیب تھے فضل محمود اور جہانگیر خان جو گل محمد کے جھانسے میں نہ آئے۔ وہ دونوں سپر اسٹار جانتے تھے کہ سیاست ان کے بس کا کھیل نہیں ہے۔ انہوںنے اپنی عزت اور شہرت بچالی۔ انہوں نے پاکستان کی سیاسی بھول بھلیوں میں کبھی بھی اترنے کی غلطی نہیں کی۔ مگر عمران خان نے غلطی کی۔ انہوں نے سیاست کی دلدل میں اترنے کی بھول کردی۔ یادداشت کے ہاتھوں اگر میں دھوکہ نہیں کھارہا، تو مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک مرتبہ شیخ رشید کی طرح عمران خان اپنی پارٹی کیلئے ایک سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے اور تن تنہا اسمبلی میں آکر بیٹھے تھے۔ مجھے دکھ ہوا تھا یہ دیکھ کر کہ قوم کا سپر ہیرو وڈیروں، خانوں،پیروں میروں اور سرداروں کے درمیان اجنبی اور بیگانہ لگ رہا تھا۔

میں سمجھ رہاتھا کہ ہمارا فاسٹ بالر اب ہوش کے ناخن لے گا۔ زرداری اور نواز شریف کی باندی بنی ہوئی سیاست سے وہ کوسوں دور بھاگ کھڑا ہوگا۔ مگر اس نے ایسا نہیں کیا ۔بلکہ گل محمد اس کے اعصاب پر حاوی تھا۔ وہ عمران خان کو یقین دلواتا رہتا تھا کہ اس کے علاوہ پاکستان کی کرپٹ سیاست کو اور کوئی شخص راہ راست پرلا نہیں سکتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عمران خان کے لاتعداد مداح بھی قائل ہوتے رہے کہ عمران خان کھیل کے میدان کا سپر ہیرو نہیں، بلکہ سیاستدان تھا۔ وہ خود بھی قائل ہونے لگا تھا کہ وہ کھیلوں کی دنیا پر چھائے رہنے والا کھلاڑی نہیں بلکہ وہ پاکستان کوصاف ستھری سیاست دینے کیلئےپیدا ہواتھا۔ اس دوران عمران خان بھول چکا تھا کہ کسی بھی فاسٹ بالر کو ایک اوورمیں چھ چھکے لگ سکتے ہیں۔ سیاسی میچ میں آپ کو ایک اوور میں بارہ چھکے بھی لگ سکتے ہیں۔ شہباز شریف کی حکومت نے ثابت کردیا ہے کہ پاکستان کی سیاست کے تمام چھوٹے بڑے سیاستدان ملکر بھی عمران خان کی کرشماتی شہرت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ آپ نے کبھی سوچا کہ ایک حنیف محمد ، ایک فضل محمود، ایک جہانگیر خان اور ایک عمران خان بننے میں کتنے جگ بیت جاتے ہیں؟ اب آپ دوسرے عمران خان کے جنم کا انتظار کریں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین