پچھلے دنوں ایک نوجوان جوڑا اپنے ساڑھے تین سالہ بچّے کے علاج کے سلسلے لیے میرے کلینک پر آیا۔ والدہ نے بتایا کہ’’ بچّہ ٹھیک سے بول نہیں پا رہا اور لگتا ہے کہ اُس کی سماعت بھی خاصی کم زور ہے۔ ‘‘والدین کا مزید کہنا تھا کہ’’ ہم اپنے قریبی ڈاکٹر سے اس کا معاینہ کروا چُکے ہیں، ڈاکٹر صاحب اور خاندان کے کچھ بزرگ افراد کا یہی کہنا ہے کہ’’ بچّہ جب بڑا ہوگا، تو خود ہی بولنے لگے گا‘‘، لیکن جب ہم اس کی عُمر کے دوسرے بچّوں کو ہنستے بولتے اور کھیلتے دیکھتے ہیں، تو ہمیں اپنے بچّے کو الگ تھلگ دیکھ کر بہت تشویش ہوتی ہے۔
ہمارے ایک عزیز نے اِس صُورتِ حال پر ہمیں مشورہ دیا کہ اِسے ناک، کان اور گلے کے کسی ماہر کو دِکھائیں، ہوسکتا ہے کہ اس کا زبان کے نیچے تندوہ ہو، جس کی وجہ سے یہ بول نہیں سکتا۔‘‘ہم نے والدہ سے بچّے کی ہسٹری معلوم کی، تو پتا چلا کہ دونوں میاں، بیوی ایک دوسرے کے کزن ہیں اور یہ اُن کا پہلا بچّہ ہے، جب کہ بچّے کی پیدائش نارمل ہوئی تھی۔جب بچّے کا معائنہ کیا، تو ایسا لگا کہ وہ بہت ذہین ہے، مگر ٹھیک طرح سے تعاون نہیں کر پا رہا تھا۔ اُس کے دونوں کان باہر سے بالکل درست تھے اور کان کا پردہ بھی نارمل تھا۔ بچّے کی زبان کے نیچے تندوہ بھی نہیں تھا۔
ہم نے والدین کو سمجھایا’’ لگتا ہے کہ بچّے کی سماعت بہت کم زور ہے اور اِسی لیے وہ ٹھیک سے بول نہیں پاتا۔ اِس کے لیے ہمیں سماعت کا ایک اسپیشل ٹیسٹ (BERA) کروانا پڑے گا، جس سے اندازہ ہوسکے گا کہ بچّے کی سماعت کتنی ہے اور پھر اُس کے مطابق ہی اس کا علاج ہوسکے گا۔‘‘ دو دن بعد والدین بچّے کی ٹیسٹ رپورٹ کے ساتھ کلینک تشریف لائے، تو رپورٹ کے مطابق بچّے کے دونوں کانوں کی سماعت بہت ہی کم تھی۔ جب ہم نے اُنھیں یہ صُورتِ حال بتائی، تو اُنہیں بہت تشویش ہوئی۔
ہم نے اُنھیں بتایا کہ مرض کی تشخیص میں کافی تاخیر ہوچُکی ہے، مگر یہ اب بھی لاعلاج مرض نہیں ہے۔ اُنہیں تقریباً چھے ہفتوں کے لیے دونوں کانوں میں آلۂ سماعت لگانے کا مشورہ دیا اور ساتھ میں اسپیچ تھراپی کے لیے بھی بھیج دیا۔ اُنہیں یہ بات بھی سمجھا دی کہ اگر آلۂ سماعت سے بہتری نہ ہوئی، تو پھر بچّے کو cochlear implant کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ چوں کہ یہ تشخیص کافی تاخیر سے ہوئی، اِس لیے اِس کے نتائج اور اسپیچ تھراپی میں بھی بہت وقت اور محنت درکار ہوگی۔
والدین کے جانے کے بعد مَیں سوچ رہا تھا کہ اے کاش! اِس ذہین بچّے اور والدین کی اکلوتی اولاد کے اِس مرض کی تشخیص عُمر کے پہلے ہی سال میں ہوجاتی اور علاج بھی درست طریقے سے ہوتا، تو یہ آج اپنے بچّے کے کھیل کود اور شوخیوں، شرارتوں سے خُوب لُطف اندوز ہو رہے ہوتے۔ یہ المیہ کوئی نئی بات نہیں، ہم آئے روز اپنے کلینک میں ایسے مریض دیکھتے ہیں، جنھیں والدین پانچ سال کی عُمر یا اس کے بعد لے کر آتے ہیں۔
جب کہ اِس عُمر میں عموماً بچّے قوّتِ سماعت نہ ہونے کی وجہ سے بولنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔اور پھر اُنہیں اشاروں کی زبان (sign language) سِکھانے کے لیے اسپیشل اسکولز میں داخل کروایا جاتا ہے، جو والدین کے لیے زندگی بھر کی آزمائش سے کم نہیں۔ یہ سب کچھ کمیونٹی میں صحیح آگاہی اور درست رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
آج دنیا میں طبّی سائنس بہت ترقّی کرچُکی ہے، جدید تحقیق کے مطابق بچّے کے بولنے اور سیکھنے، سمجھنے کی صلاحیت کا انحصار اُس کے سُننے کی قوّت پر ہوتا ہے۔ جب کہ ہمارے دماغ میں بولنے اور سمجھنے کے مراکز (Speed centers) عُمر کے پہلے سال میں نشوونما پاتے ہیں۔ اگر ان سینٹرز کو دماغ میں کسی وجہ سے آواز کے سگنلز نہ ملیں، تو ان بولنے والے سینٹرز کی نشوونما رُک جاتی ہے۔ اِسی وجہ سے بچّہ پھر بقیہ عُمر میں قوّتِ گویائی کے ساتھ ساتھ آموزش کی صلاحیت سے بھی محروم رہ جاتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر نومولود بچّوں میں بروقت کم زور سماعت کی تشخیص ہو جائے اور اُن کا درست علاج بھی ہو، تو وہ اس مرض سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام ترقّی یافتہ ممالک میں لازمی قرار دیا گیا ہے کہ کسی بھی نومولود بچّے کو سماعت کے ٹیسٹ کے بغیر اسپتال سے گھر نہیں لے جایا سکتا اور ان سب ٹیسٹس کے نتائج کمپیوٹرائزڈ ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے اُنہیں بعد میں ٹریس بھی کیا جاسکتا ہے۔ جس نومولود کا یہ ٹیسٹ کلیئر نہیں ہوتا، اُس کے مزید ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ ان ممالک کا ہدف یہ ہے کہ بچّے میں سماعت کی کمی کی تشخیص تین ماہ کی عُمر کے اندر ہوجائے اورچھے ماہ کے اندر اندر اُس کا علاج شروع کیا جاسکے تاکہ اُس کے بولنے کے سینٹرز دماغ کے اندر نارمل انداز میں پرورش پائیں۔
اِس طرح یہ بچّہ اپنے ہم عُمر بچّوں کی طرح پروان چڑھتا ہے۔ یہ پروگرام انتہائی کام یاب ہے کہ اب ان ممالک میں گونگے، بہرے بچّوں کے اسکولز بند ہو رہے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن( عالمی ادارۂ صحت) بھی اِس پروگرام پر بہت توجّہ دے رہی ہے۔ اِسی وجہ سے اب بہت سے ترقّی پذیر ممالک نے بھی نومولود بچّوں میں سماعت کی تشخیص کا ٹیسٹ شروع کردیا ہے۔ تاہم، پاکستان میں ابھی صرف چند ہی اسپتالوں میں یہ ٹیسٹ شروع ہوا ہے اور یہ تعداد جو آٹے میں نمک کے برابر ہے، جب کہ ہمارے پڑوسی ممالک ایران، بھارت اور بنگلا دیش اِس معاملے میں ہم سے کئی گُنا آگے ہیں۔
پاکستان میں دیگر ترقّی پذیر ممالک کی طرح سماعت سے محروم بچّوں کا تناسب ایک ہزار میں 4سے 6 کے درمیان ہے۔ یہ بچّے کسی نہ کسی وجہ سے سماعت سے محروم ہوتے ہیں۔ جب کہ ترقّی یافتہ ممالک میں یہ تناسب ایک ہزار میں ایک یا دو بچّوں تک محدود ہے۔اگر بچّے کی پیدائش کے ایک سال کے اندر اندر قوّتِ سماعت سے محرومی کی تشخیص کرلی جائے اور پھر بروقت علاج بھی میسّر آ جائے، تو یہ بچّے بھی دوسرے نارمل بچّوں کی طرح تعلیم حاصل کرسکتے ہیں، مختلف ہنر سیکھ سکتے ہیں اور معاشرے میں وہی مقام حاصل کرسکتے ہیں، جو کہ ایک نارمل سماعت کا حامل شخص حاصل کرتا ہے۔تاہم، اگر اس تشخیص میں تاخیر ہو جائے، جیسا کہ ہمارے معاشرے میں لاعلمی کی وجہ سے ہو رہا ہے، تو ایسے بچّوں کے بولنے کی صلاحیت پھر نارمل نہیں ہوسکتی اور یہ بچّے اپنی تعلیمی، معاشرتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں اپنے ہم عُمروں سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔
اِن حالات کے پیشِ نظر ہمارے مُلک میں بھی’’ عالمی نومولود بچّوں کی سماعت کی تشخیص کے پروگرام‘‘(Universal Newborn Hearing Screeing Program) کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں ترکیہ حکومت اور وہاں کے عوام کا شُکر گزار ہونا چاہیے، جنہوں نے ’’Turkish Cooperation and Coordination Agency karachi Branch‘‘ (TIKA)کے تعاون سے 13،14جولائی کو کراچی کے کوہی گوٹھ اسپتال میں نومولود بچّوں میں سماعت سے متعلقہ مسائل پر ایک دو روزہ، شان دار ورکشاپ کا اہتمام کیا۔ اس ورکشاپ میں کراچی اور حیدرآباد کے 10سے زاید انسٹی ٹیوٹس کے تقریباً135 مندوبین نے شرکت کی اور یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی ورکشاپ تھی۔
اس کے ماسٹر ٹرینر، پروفیسر محمّد طیار تھے، جن کا تعلق میڈینیت یونی ورسٹی، استنبول سے ہے۔ ورکشاپ کے پہلے روز شرکاء کو نومولود بچّے کی سماعت کی اسکریننگ کے طریقۂ کار اور اُس کی اہمیت پر تھیورٹیکل ٹریننگ دی گئی، جب کہ دوسرے دن شرکاء کو عملی تربیت دی گئی۔ورکشاپ کے اختتام پر TIKA کراچی کے مہتمم، خلیل ابراہیم بساران نے تُرکیہ کے عوام کی طرف سے پانچ اسپتالوں کو نومولود بچّوں کی اسکریننگ کے لیے مشینز تحفے میں دیں۔ اِن اسپتالوں میں کوہی گوٹھ اسپتال، کراچی، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر، کراچی، لیاقت یونی ورسٹی آف میڈیکل سائنسز حیدرآباد، المصطفیٰ میڈیکل سینٹر، کراچی اور الخدمت اسپتال، کراچی شامل ہیں۔واضح رہے،ان اسپتالوں میں یہ سروس بالکل مفت ہوگی۔
یہ ایک قسم کے پائلٹ پراجیکٹس ہیں، جن کی مدد سے مریضوں کے اعدادو شمار بھی اکٹھے کیے جاسکیں گے تاکہ اُن کی بنیاد پر اسی طرح کے مزید پراجیکٹس شروع کیے جاسکیں۔ وہ بچّے، جو جن کے اس ٹیسٹ کی رپورٹ ٹھیک نہیں آتی، اُن کے لیے مزید ٹیسٹس کا بندوبست کیا جائے گا تاکہ اُن کا علاج عُمر کے پہلے ہی سال میں ممکن بنایا جا سکے اور وہ سُننے، بولنے کے قابل ہوسکیں۔
ورکشاپ کا افتتاح سندھ کے سیکریٹری صحت، قاسم سومرو نے کیا اور اِس موقعے پر اُنہوں نے تُرکیہ حکومت کا شُکریہ ادا کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ اِس منصوبے کو پبلک/ پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ساتھ مزید فروغ دیا جائے گا۔ اس موقعے پر سی ای او، کوہی گوٹھ اسپتال، ڈاکٹر شاہین ظفر نے بھی ترکیہ حکومت کا شُکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ کوہی گوٹھ اسپتال کو اِس اسکریننگ پروگرام کے لیے ٹریننگ سینٹر بنائیں تاکہ یہ پروگرام مزید اسپتالوں میں شروع کیا جاسکے۔ تقریب کے اختتام پر ایک سوال جواب کا سیشن بھی ہوا، جس میں پروفیسر محمّد طیار اور اُن کی ٹیم نے شرکاء کے سوالات کے تفصیلاً جوابات دیئے۔نیز، اُنہوں نے نوجوانوں کو تُرکیہ میں آکر اُن کے انسٹی ٹیوٹ سے تربیت حاصل کرنے کی بھی دعوت دی۔
بلاشبہ، یہ بچّے ہی ہمارے مستقبل کے معمار ہیں، لہٰذا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو نومولود بچّوں میں سماعت کی تشخیص کے پروگرام کی سرپرستی کرنی چاہیے تاکہ ہر وہ بچّہ، جو سرکاری یا نجی اسپتال میں پیدا ہو، اُس کی سماعت کی اسکریننگ ہوسکے۔ اِس ضمن میں عالمی ادارۂ صحت سے بھی مدد لی جاسکتی ہے، جو مختلف ممالک میں مطلوبہ آلات کی فراہمی کے ساتھ عملے کو تربیت بھی فراہم کرتا ہے۔
اس ضمن میں ہر صوبے میں ایسی کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے، جس میں متعلقہ شعبوں کے نمائندے شامل ہوں اور جو کان اور سماعت کی حفاظت سے متعلق امور کی نگرانی کرسکیں۔ اِس طرح حکومت اور کمیونٹی کے وہ اخراجات کم ہو سکیں گے، جو سماعت سے محروم بچّوں پر خرچ ہوتے ہیں۔یاد رہے، نومولود بچّوں میں سماعت کی کمی کی 80فی صد وجوہ کا علاج کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب عوام النّاس کے لیے اِس حوالے سے آگاہی پروگرام شروع کیے جائیں تاکہ دَورانِ حمل اور بچّے کی پیدائش کے بعد اُن بیماریوں سے بچا جاسکے، جو بچّوں میں قوّتِ سماعت سے محرومی کا باعث بنتی ہیں۔ (مضمون نگار، معروف ماہرِ امراض ناک، کان و گلا ہیں۔ ساؤتھ سٹی اسپتال، کراچی سے بطور کنسلٹنٹ ای این ٹی سرجن وابستہ ہیں، جب کہ انڈس اسپتال، کراچی کے شعبہ ای این ٹی کے سربراہ بھی رہ چُکے ہیں)