ایسے میں جب توشہ خانہ شدید تنقید کی زد میں ہے اور سابق وزیراعظم عمران خان توشہ خانہ کیس میں سزا بھگت رہے ہیں، سابق وزیراعظم شہباز شریف کے اپنے دور حکومت میں ملنے والے تحائف نیلام کرکے رقم یتیموں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے اعلان نے عوام کے دل جیت لئے ہیں۔ شہباز شریف کا یہ اعلان محض ایک سیاسی اعلان تک محدود نہیں رہا بلکہ توشہ خانہ کے تحائف کی نیلامی کی منظوری وفاقی کابینہ سے بھی لی گئی اور اس طرح اربوں روپے مالیت کے تحائف نیلام کرکے ان سے حاصل ہونے والی رقم یتیم بچوں کیلئے وقف کردی جائے گی۔
سابق وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے ڈیڑھ سالہ دور حکومت میں 25غیر ملکی دورے کئے اور مختلف سربراہان مملکت بالخصوص سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے بیش بہا قیمتی تحائف دیئے گئے جن میں قیمتی ہیروں سے جڑی رولیکس اور دیگر گھڑیاں، سونے اور ہیرے جڑے زیورات اور دیگر قیمتی اشیاء شامل ہیں۔ مجھے اِن قیمتی تحائف کو قریب سے دیکھنے کا موقع اُس وقت ملا جب گزشتہ ماہ اپنے ایک دوست سے ملنے وزیراعظم ہائوس گیا۔ وزیراعظم ہائوس کے کوریڈور میں شیشے کی الماریوں میں رکھے اِن بیش بہا تحائف کو دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا۔ ان تحائف میں ایک درجن سے زائد دنیا کی مہنگی ترین گھڑیاں اور دیگر قیمتی تحائف آویزاں تھے جبکہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے دی گئی ہیروں سے جڑی رولیکس گھڑی کا سیٹ جس میں پین اور کفلنگ بھی شامل تھا، کو دیکھ کر ہیروں کی چمک سے میری آنکھیں چکا چوند ہوگئیں۔ رولیکس گھڑی کا یہ سیٹ شوپارڈ گھڑی کے اس سیٹ سے بھی زیادہ قیمتی تھا جو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے عمران خان کو تحفتاً دی تھی اور اس سیٹ کی مالیت تقریباً 75 کروڑ روپے سے زائد تھی۔ اِسی طرح ہیروں سے جڑا ایک قیمتی ہار جو وزیراعظم شہباز شریف کو ان کے ایک ذاتی دوست کی جانب سے دیا گیا تھا، بھی الماری میں آویزاں تھا جسے انہوں نے اپنے پاس رکھنے کے بجائے توشہ خانہ میں جمع کرانے کو ترجیح دی۔ میرے اندازے کے مطابق ان تمام تحائف کی رقم اربوں میں تھی۔ توشہ خانہ کابینہ ڈویژن کے انتظامی کنٹرول کے تحت ایک محکمہ ہے جو جذبہ خیر سگالی کے طور پر غیر ملکی سربراہان مملکت اور معززین کی طرف سے حکمرانوں، اراکین پارلیمنٹ، بیوروکریٹس اور حکام کو ملنے والے قیمتی تحائف کا بینک تصور کیا جاتا ہے۔ توشہ خانہ کا قیام 1974 میں اُس وقت عمل میں آیا جب سربراہان مملکت کو قیمتی تحائف ملنے کا سلسلہ بڑھنے لگا۔ اس سے قبل یا تو تحائف اتنے زیادہ قیمتی نہ ہوتے تھے یا اُن کی تعداد کم ہوتی تھی اور سربراہان مملکت ان تحائف کو کسی اندراج کے بغیر اپنے پاس رکھ لیتے تھے لیکن توشہ خانہ کے قیام کے بعد ان بیش بہا قیمتی تحائف جن میں بلٹ پروف گاڑیاں، ہیرے جڑے زیورات، قیمتی گھڑیاں، ڈائمنڈ جڑے کفلنگ اور پین شامل ہوتے تھے، کوتوشہ خانہ میں جمع کرایا جانے لگا جنہیں بعد ازاں معمولی رقم ادا کرکے سربراہان مملکت اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور مالی فوائد حاصل کرتے تھے۔ اس حوالے سے کیبنٹ ڈویژن کا کردار بھی اچھا نہیں رہا جو سربراہان مملکت کی خوشنودی کیلئے توشہ خانہ کے تحائف کی مالیت کم ظاہر کرکے اُن کے حوالے کردیتی تھی جبکہ تحائف کی تفصیلات یہ کہہ کر عام نہیں کی جاتی تھیں کہ اس سے تحائف دینے والے ملک سے تعلقات خراب ہونے کا امکان ہے جس پر توشہ خانہ کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ توشہ خانہ کے قیمتی تحائف سے سابقہ ادوار حکومت کے ہر سربراہان مملکت، اعلیٰ عہدیداران اور وزراء نے بھرپور فائدہ اٹھایا مگر اس حوالے سے سابق وزیراعظم عمران خان کا کردار نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی اور شرمندگی کا سبب بنا اور وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیراعظم ہیں جنہیں توشہ خانہ کیس میں سزا ہوئی ۔ سابق وزیراعظم شہباز شریف کا اپنے ڈیڑھ سالہ دور میں ملنے والے اربوں کی تحائف کی نیلامی کا فیصلہ اور اس سے حاصل ہونے والی رقم یتیموں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کا اقدام یقینا قابل ستائش ہے لیکن بہتر ہوتا کہ یہ فیصلہ وزیر اعظم کو ملنے والے تحائف تک محدود نہ رکھا جاتا بلکہ صدر مملکت اور دوسرے اداروں کے سربراہان کو ملنے والے تحائف پر بھی اس فیصلے کا اطلاق کیا جاتا تاکہ توشہ خانہ میں تحائف کی بندر بانٹ کا سلسلہ بند ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ توشہ خانہ کے تحائف کی نیلامی کیبنٹ ڈویژن پر نہ چھوڑی جائے بلکہ نیلامی کے عمل میں عوام کو بھی شامل کیا جائے تاکہ تحائف کی نیلامی میں شفافیت یقینی بنائی جاسکے ۔ سابق وزیراعظم شہباز شریف نے توشہ خانہ کے تحائف نیلام کرنے کی نئی روایت قائم کی ہے۔ اس طرح شہباز شریف وہ پہلے وزیراعظم ہیں جو وزیراعظم ہائوس سے خالی ہاتھ رخصت ہوئے اور توشہ خانہ سے کوئی قیمتی تحفہ اپنے ہمراہ لے کر نہیں گئے اور صادق اور امین ہونے کا ثبوت دیا۔