• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روپے کی بے قدری کی بدولت پاکستان میں مہنگائی کا بہت شور ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر شخص پریشان ہے اور ہر بزنس مین بے کار بیٹھا ہے کہ گاہک ہی نہیں ہیں۔ لیکن اسی روپے کی بے قدری نے کچھ لوگوں پہ مثبت اثرات بھی مرتب کئے ہیں۔ یعنی واضح طور پہ ہمارا معاشرہ معاشی اعتبار سے دو انتہائی مختلف طبقوں میں بٹ چکا ہے۔ ایک وہ لوگ جن کے ہاں باہر سے کمائی (فارن کرنسی) آتی ہے اور جنہوں نے پاکستان سے کما کر اپنے آمدنی باہر کے ممالک میں محفوظ کی ہوئی ہیں۔ دوسرے وہ جو پاکستان میں ہی کماتے، رہتے اور خرچ کرتے ہیں۔ یوں جو باہر کماتے اور یہاں خرچ کرتے اور پاکستان سے کما کر باہر جمع کرتے ہیں، روپے کی بے قدری نے ان کی آمدنی اور اثاثوں میں خاطرخواہ اضافہ کردیا ہے۔ چوں کہ ان کی قوت خرید بڑھ چکی ہے لہذا ان کی اشیاء تعیشات کے لئے مانگ بڑھ چکی ہے۔ اشیاء ضروریات اور اشیاء آسائیشات میں آمدنی کے اضافے سے اتنا فرق نہیں آتا جتنا آمدنی کے اضافہ سے اشیاء تعیشات کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے۔ یوں ہمارے معاشرے میں ایک غریب تو غریب متوسط طبقے کو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ تو دوسری طرف luxury گاڑیوں، اور دوسری مہنگے غیر ملکی اشیاء کا استعمال بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ راقم نے ایک کار ڈیلر سے اس کے کاروبار کے بارے میں گفتگو کی کہ ڈالر مہنگا ہونے سے اس کے کاروبار پہ کیا فرق پڑا؟ جواب کافی چونکا دینے والا تھا کہ بڑے اچھے حالات چل رہے ہیں چھوٹی گاڑیوں کی مانگ بہت کم ہوگئی ہے کیونکہ لوگوں کی قوت خرید ہی نہیں رہی لیکن امیروں نے بڑی گاڑیوں کی مانگ بہت بڑھا دی ہے تو اب ہم نے چھوٹی گاڑیوں کا بزنس بند کرکے بڑی بڑی گاڑیوں کا کام شروع کردیا ہے۔ کوئی بھی گاڑی اسی نوے لاکھ یا کڑور سے کم نہیں۔ شکر ہے اوپر والے کا بزنس بہت اچھا چل رہاہے۔ کم و بیش یہی حال تقریبا تمام لگژری (تعیشات) کا ہے۔ مہنگے مہنگے ہوٹلوں میں کھانا، غیر ممالک کا سفر کرنا، مہنگی مہنگی گاڑیوں میں سفر کرنا، شاپنگ مالز میں جاکر خوب شاپنگ کرنا اور پھر سوشل میڈیا پہ اس کی تشہیر کرکے لوگوں کو جتانا کہ یہ مہنگائی (روپے کی بے توقیری) بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکی بلکہ اس نے تو ہمیں بہت فائدہ دیا۔اب آپ خود ہی بتائیں یہ انتہائی معاشی طبقاتی تقسیم ہمارے معاشرے میں کیا اثرات مرتب کرئے گی؟ کیا ملک میں رہنے اور کمانے والے یہ سوچنے پہ مجبور نہیں ہو جائیں گے کہ ہم نے ملک میں رہ کر یا اپنی کمائی ملک میں رکھ اپنا ہی نقصان کیا؟ ہم تو ملک کی محبت میں اپنی کمائی ملک میں رکھتے تھے لیکن فائدہ میں تو وہ لوگ رہے جنہوں نے اپنی کمائی سے ڈالر خریدے۔ ہم نے اپنے ملک میں جائیداد بنائیں لیکن فائدے میں وہ رہے جنہوں نے دبئی، لندن، امریکہ اور یورپ میں جائیدادیں بنائیں۔ مقروض ہم ہوئے اور دولت باہر لے جانے والے ٹیکس بھی نہیں دیتے اور عیاشی بھی وہی کر رہے ہیں۔ ایسے میں ملک کے بارے میں کون سوچے گا نئی نسل کی ایک بڑی تعداد باہر جانے کے لئے بےچین۔ کسی بھی ملک کے سفارت خانے چلے جائیں نوجوانوں کی لمبی لائن ویزہ لینے کے لئے کھڑی ملے گی۔ بڑے دکھ کی بات ہے ملک کا سب سے بڑا سرمایہ اور اثاثہ ہمارے یہ نوجوان ہیں جنہیں ملک کی باگ دوڑ چلانی تھی۔ لیکن اس معاشی طبقاتی تقسیم نے ان کے حوصلے پست کر دیے ہیں۔ کوئی ہے جو ان کو روکے۔

تازہ ترین