حکومتی ترجمانوں کے دعوے اپنی جگہ لیکن پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کا آغاز ہی بتارہا ہے کہ انجام سے خیر نہیں بلکہ شر ہی برآمد ہوگا۔ یہ مقدمہ آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لئے سوچ سمجھ کر شعوری طور پر نہیں بنایا گیا۔ ہدف اور مقصد فوجی مداخلتوں کا راستہ روکنا نہیں بلکہ چند انائوں کی تسکین اور عوام کو بے وقوف بناناہے۔ یہ کہنا سراسر جھوٹ ہے کہ ایک عرب ملک یکسر لاتعلق ہے اور ظاہر ہے موجودہ حکمران عرب حکمرانوں کے آگے ’’نہ‘‘ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے ہی میاں نوازشریف کو اٹک قلعہ سے اٹھا کر سرورپیلس پہنچایا تھا۔ وہ بھی کسی اور کے چنگل سے نہیں بلکہ اسی پرویز مشرف کے چنگل سے‘جو ان دنوں میاں صاحب کی حکومت کے چنگل میں ہیں۔ اب یقیناً پرویز مشرف ان کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور روایت پسند عرب حکمران ان کے احسان کا جبکہ میاں نوازشریف عربوں کے احسان کا بدلہ ضرورچکائیں گے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ عوامی سطح پر یا میڈیا کے سامنے ان کے وزیرخارجہ نے دورہ پاکستان کے موقع پر پرویز مشرف سے متعلق کوئی بات نہیں کی تو وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کا طریقہ اپنے مخصوص طریقے سے پیغام دینے کا ہوتا ہے ۔ وہ پیغام وہ پہلے بھی دے چکے تھے جبکہ صدر ممنون حسین اس عرب ملک کے دورے کے موقع پر بھی اس کی مبینہ یاددہانی بھی کراچکے ہیں۔ افواہیں ہیں چین نے بھی پرویز مشرف کے مسئلے کو اٹھایا ہے اور ترکی بھی انہیں نہ چھیڑنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کی ایک اور کمزوری برطانیہ ہے اور وقت آنے پر برطانیہ بھی پرویز مشرف کے حق میں آگے آسکتا ہے کیونکہ ماضی میں پرویز مشرف کے بے نظیر بھٹو یا پھر میاں نوازشریف کے ساتھ معاملات میں برطانیہ بھی کردار ادا کرتا رہا ہے۔ یوں تو یہ سب حکومتیں پاکستانی حکمرانوں کو مجبور کرسکتی ہیں لیکن لوگ کہتے ہیں کہ اس عرب ملک اور برطانیہ کے آگے تو ’’نہ‘‘ اس لئے بھی نہیں کی جاسکتی کیونکہ وزیراعظم صاحب کا ایک بیٹا ایک جبکہ دوسرا دوسرے ملک میں کاروبار کررہا ہے ۔دراصل جو کچھ ہورہا ہے اس کا خود میاں صاحب نے بھی نہیں سوچا تھا۔ مذکورہ کرداروں اور فوج کو میاں صاحب کی طرف سے مبینہ طور پر بتایا گیا تھا کہ اگر عدالتوں کی طرف سے ریلیف ملے تو وہ پرویز مشرف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ اسی وجہ سے پرویز مشرف کے سرپرستوں نے عدالتوں سے پے درپے ان کی ضمانتیں کروادیں۔ آخری کیس میں ضمانت ہو جانے کے اگلے دن وہ جانے کا منصوبہ بنا چکے تھے اور دبئی روانگی کا بھی بندوبست کر لیا گیا تھا کہ اچانک وزیراعظم کے حکم پر چوہدری نثار علی خان نے سانحہ پنڈی کے روز پریس کانفرنس کر کے ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کیا۔ جس کی وجہ سے نہ صرف پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی موخر ہوگئی بلکہ ایک نیا پنڈوراباکس بھی کھل گیا۔ لوگ باتیں کرتے ہیں کہ میاں صاحب اور ان کے مشیروں کا خیال تھا کہ پرویز مشرف کو ہتھکڑی لگانے کی خواہش بھی پوری ہوجائے گی اور انہیں عدالت سے جلد ازجلد سزا ہوجائے گی‘ جسے معاف کرواکر پھر وہ پرویز مشرف کے ہمدردوں کو خوش کرنے کے لئے بیرون ملک بھیج دیں گے لیکن پرویز مشرف کے عدالت میں پیش ہونے سے انکار نے سارا کھیل کا رخ بدل دیا۔ پرویز مشرف کے سرپرستوں کا موقف ہے کہ غداری کا مقدمہ بنا کر حکومت وعدہ خلافی کررہی ہے کیونکہ ان سے کہا گیا تھا کہ عدالتوں سے ریلیف کے بعد انہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ جس وقت وعدے وعید ہو رہے تھے‘ اس وقت غداری کا مقدمہ قائم نہیں ہوا تھا اور وہ اس سے مراد پہلے سے چلنے والے کیسز ہی لے رہے تھے جبکہ مقابلے میں حکومت کا موقف یہ ہے کہ وہ جن کیسز کا ذکر کررہی تھی‘ ان میں غداری کا کیس بھی شامل تھا۔ اب مصیبت یہ ہے کہ فوج بھی پھنس گئی‘ عدالت بھی اور خود حکومت بھی۔ درون خانہ جس مبینہ اسکرپٹ اور ڈیل پر اتفاق ہوا تھا‘ اس کا اقرار کوئی بھی فریق عوام کے سامنے نہیں کر سکتا لیکن دونوں فریقوں کو شکایت ہے کہ فریق ثانی وعدہ خلافی کرکے ملک کو بحران کی طرف لے جارہا ہے ۔ میاں صاحب پارٹی یا عوام کے سامنے اس سمجھوتے کا ذکر کرسکتے ہیں اور نہ سابق عسکری قیادت‘جن کے ساتھ اس مبینہ اسکرپٹ پر اتفاق ہوا تھا‘ اپنی نچلی صفوں تک اصل معاملے کو منتقل نہیں کرسکی ہے۔ جس کی وجہ سے افواہیں ہیں کہ سیاسی حلقوں میں اس بنیاد پر غصہ جنم لے رہا ہے کہ عسکری ادارے اپنے سابق سربراہ کو قانون سے بالاتر قرار دلوانے کے لئے سیاسی قیادت اور عدالت پر دبائو ڈال رہی ہے جبکہ اس طرح یہ افواہ ہے کہ عسکری حلقوں کو شکوہ ہے کہ وعدہ خلافی کر کے سب ذمہ داروں پر قانون کا یکساں اطلاق کے بجائے ان کے سابق چیف کو وقتی سیاسی مقاصد کے لئے ذلیل کیا جارہا ہے۔ اب وہ سوال اٹھانے لگے ہیں کہ اگر آئین اور قانون پر عمل درآمد ہی مقصود تھا تو پھر بارہ اکتوبر 1999ء کے اقدام کی بنیاد پر تمام ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ کیوں نہیں چلایا جارہا ہے ۔ جب ہم جیسے لوگ ان کو قانون اور آئین کی بالادستی یا پھر ماضی میں سیاسی قیادت کے خلاف فوجی حکومتوں کے اقدامات کا ذکر کرتے ہیں تو وہ جواب دیتے ہیں کہ پھر قانون کے اطلاق میں مصلحتوں سے کام کیوں لیا جارہا ہے اور پھر افتخار چوہدری سے لے کر پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے تمام جج‘ مشرف کی حمایت کرنے والے سیاستدانوں اور خود نوازشریف کی کابینہ میں بیٹھے ہوئے ان لوگوں کے خلاف مقدمہ کیوں نہیں چلایا جاتا جو تین نومبر کے اقدام کو سپورٹ کررہے تھے۔ یہ رائے دی جا رہی ہے کہ اب خود حکمرانوں کے لئے بھی مشرف کا مقدمہ و بال جان بن گیا ہے ۔ اس کی طرف سے مبینہ طور پر عسکری اداروں سے کہا جارہا ہے کہ وہ عدلیہ کے محاذ پر پرویز مشرف کو نکالنے کے لئے راستہ نکالے اور یہ کہ وہ رکاوٹ نہیں بنے گی۔ ایک سازشی تھیوری بھی پھیلی ہوئی ہے کہ یہ جو راستے میں بم رکھنے اور پرویز مشرف کو بیمار کرواکر اے ایف آئی سی تک لے جانے جیسے واقعات رونما ہورہے ہیں‘ ان میں بھی رکاوٹ ڈالنے کے بجائے درپردہ حکومت تعاون کررہی ہے لیکن وہ غیرملکی طاقتوں یا عسکری اداروں کے اس مطالبے کو پورا نہیں کر سکتی کہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ واپس لے لے۔ دوسری طرف عسکری اداروں کی تمام ہمدردیاں پرویز مشرف کے ساتھ ہیں اور مخصوص طریقوں سے ان کو بچانے کی کوشش بھی کررہے ہیں لیکن نہ تو کھل کر عدالت کے مقابلے میں آسکتے ہیں اور نہ حکومت کے مقابلے میں کھڑا ہونا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف مقدمہ سے متعلق میڈیا میں جو بحث جاری ہے اس کی وجہ سے سول ملٹری تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے کو اس کا ماضی یاددلایا جارہا ہے اور یوں سول ملٹری تنائو کے تصادم کی طرف جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے اور یہ بھی افواہیں ہیں کہ فوج کے اندر اپنی قیادت پر دبائو بڑھتا جارہا ہے اور اگر یہ دبائو ان کے لئے ناقابل برداشت ہوگیا تو جمہوری نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یوں ضرورت اس امر کی ہے کہ سول اور عسکری قیادت بیٹھ کر اس پنڈوراباکس کو بند کرنے کی کوئی سبیل نکال لے اور ایک ممکنہ صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ٹروتھ اینڈ ری کنسیلیشن کمیشن(Truth and Reconcilliation Commission) بنا کر پرویز مشرف کے کیس کے ساتھ ساتھ ماضی اور حال کے تمام ملزمان کے کیس اس کے سپرد کردیئے جائیں۔