پروفیسر خالد اقبال جیلانی
یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ اسلام نے اپنی آمد کے ساتھ ہی عقائد کی خرابیوں میں مبتلا انسانوں کو صاف ستھرا عقیدہ عطا کیا۔غیراللہ کے خیر وشر اور نفع و نقصان کے مالک ہونے کی تردید فرمائی ، کفر و شرک اور توہمات کی دلدل میں پھنسی انسانیت کو مثالی تعلیمات سے نوازا اور عقیدہ توحید کی عظمت کو دل و دماغ میں جا گزیں کیا۔ تمام دنیاوی بدعات، خرافات و توہمات سے ہٹا کر انسانوں کا رشتہ اللہ کی ذات سے جوڑا۔
اسلام کے آنے سے پہلے لوگ مختلف قسم کی بدعقیدگیوں اور طرح طرح کی خرافات میں مبتلا تھے۔ بد شگونی لینا، پرندوں کے ذریعے فال نکالنا، پتھروں اور دیگر چیزوں سے فائدہ و نقصان کو منسوب کرنا، ستاروں کو دیکھ کر اچھائی اور برائی کے فیصلے کرنا، جانوروں کے ذریعے بدگمان ہونا، اس طرح کی بے شمار خرابیاں عہد جاہلیت کے عرب معاشرے میں پائی جاتی تھیں۔ اسلام نے ان سب لا یعنی باتوں ، توہمات اور خرافات کا خاتمہ کیا اور اپنی پیاری اورمثالی تعلیمات انسانوں کو عطا کیں جس میں کسی بھی قسم کی بدگمانی اور وہم و بدشگونی کی کوئی گنجائش نہیں۔
اسلام سے پہلے کی ایسی ہی بد گمانیوں اور توہّمات میں سے جاہلیت کی ایک بد گمانی ماہِ صفر کے متعلق بہت ساری توہمانہ باتوں کو منسوب کرنا تھا، وہ مختلف وجوہ سے اسے منحوس سمجھتے تھے۔ صفر المظفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے۔ اس مہینے سے متعلق قرآن و سنت میں نہ کوئی خصوصی فضیلت وارد ہوئی ہے، نہ ہی کوئی نحوست بیان ہوئی ہے۔ ماہِ صفر کی حقیقت یہ ہے کہ اس مہینے میں عرب اپنے گھروں کو خالی کر دیتے تھے، کیوں کہ وہ ذوالقعدہ ، ذی الحج اور محرم الحرام میں ان مہینوں کی حرمت کی وجہ سے جنگ اور لڑائی بند رکھتے تھے۔ چوں کہ یہ تینوں مہینے ایک ساتھ ہوتے ہیں ،اس لئے ان کے گزرتے ہی عرب جنگوں کو فوراً دوبارہ شروع کر دیتے تھے اور جنگوں کے لئے گھروں سے نکل جاتے جس سے ان کے مکان خالی ہو جاتے اس پر عرب کہتے ’’صفر المکان‘‘ یعنی مکان خالی ہو گئے، اسی سے اس مہینے کا نام صفر سے موسوم ہوگیا۔
زمانہ جاہلیت میں لوگوں نے بہت سی لغو اور بے بنیاد باتوں کو اس مہینے سے منسوب کر رکھا تھا اور وہ اس مہینے کومنحوس سمجھنے لگے اور انہی بدفالوں کی وجہ سے اس مہینے کی تقدیم و تاخیر کے مرتکب بھی ہوئے ،ان کی اس غلط حرکت کے ارتکاب کو اللہ تعالیٰ نے سورۂ توبہ میں اس طرح بیان کیا کہ ’’احترام کے کسی مہینے کو ہٹا کر آگے پیچھے کرنا کفر میں بڑھ جانا ہے۔ اس سے کافر گمراہی میں پڑے رہتے ہیں۔ ایک سال تو اسے حلال کر لیتے ہیں اور دوسرے سال حرام، تاکہ احترام کے مہینوں کی، جو اللہ نے مقر ر کئے ہیں۔ گنتی پوری کر لیں، اور جس سے اللہ نے منع کیا ہے اسے جائز کر لیں ، اِن کے برے اعمال اِن کو اچھے نظر آتے ہیں اور اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔‘‘ (سورۃ التوبہ37:)
زمانۂ جاہلیت کے اس مذموم عمل کی تردید و مذمت کر تے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’بے شک ،زمانہ اپنی اصل حالت کی طرف لوٹ آیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی تخلیق سے پہلے مقدر فرمایا تھا۔ سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، ان میں سے چار مہینے احترام والے ہیں۔ تین مہینے ذوالقعدہ ، ذی الحج اور محرم الحرام مسلسل ہیں جبکہ ایک مہینہ رجب کا ہے، جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اسلام سے پہلے اہل عرب صفر کے مہینے کو منحوس تصور کرتے تھے ۔ رسول اللہ ْﷺ نے اس توہم پرستی کی سختی سے بیخ کنی اور تردید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’صفر کا مہینہ منحوس نہیں ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)اس حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے وضاحت و تفصیل سے ارشاد فرمایا ’’ کوئی مرض متعدی نہیں ہوتا ، نہ بدفالی کوئی چیز ہے، نہ الّو کے بولنے سے کوئی نحوست آتی ہے اور نہ ہی ماہِ صفر میں نحوست ہے۔‘‘(بخاری و مسلم)
جو بات معاشرتی طور پر مذہبی حوالے سے معروف یا عام ہو جائے تو وقت پر اُس کا خیال آہی جاتا ہے، لیکن اس خیال یا وہم پر عمل کرنا یا اس پر دل کو جمائے رکھنا جائز نہیں ۔ اس طرح کے خیالات و توہمات کا علاج اللہ کی ذات پر کامل توکل ہے، جب انسان کے وہم و خیال پر توکل علیٰ اللہ غالب آجاتا ہے تو تمام باطل خیالات فوراً دل و دماغ سے نکل جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کے دل میں اس طرح کی کوئی بات نہ آتی ہو، مگر اللہ پر کامل توکل اور بھروسے سے یہ دور ہو جاتی ہے‘‘ (ابوداؤد ، ترمذی)
بہت سے مسلمان آج بھی اس مہینے کو نحوست کا حامل تصور کر تے ہوئے اس مہینے میں نکاح شادی، منگنی، سفر وغیرہ سے گریز کرتے ہیں۔ جبکہ اسلام کی تعلیمات کی رو سے کوئی ساعت ، دن، تاریخ یا مہینہ منحوس نہیں ہوتے۔ نحوست و برکت تو ہمارے اپنے اعمال پر منحصر ہے ۔ صفر کے مہینے کے ابتدائی تیرہ دنوں کو منحوس سمجھ کر نکاح شادی، خوشی کی تقریب ، نئے کام یا کاروبار کا آغاز اور سفر جیسے کاموں سے رک جانا گناہ کی بات ہے۔ ہمارے معاشرے کی ماہِ صفر کی توہم پرستی اور بدعقیدگی کا یہ حال ہے کہ اس مہینے کا نام ہی ’’تیرہ تیزی‘‘ یعنی نحوست کا مہینہ پڑ گیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس بدعقیدگی اور نحوست کے تصور کی سختی سے نفی فرمائی ، افسوس کہ مسلمان آج بھی اسلامی تعلیمات اور رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کے برخلاف مشرکین کے عقائد کی پیروی کر رہے ہیں۔ نیز رسول اللہ ﷺ کے اس مہینے میں بیمار ہو کر شفایاب ہونے اور اس کے آخری بدھ کو غسلِ صحت فرما کر بغرضِ تفریح باغ میں جانا بھی غلط روایات ہیں۔ لوگ ان ہی روایات کی اتباع میں آخری بدھ کو ایک تہوار کی حیثیت سے مناتے اور مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں یہ سب بدعت کے زمرے میں آتا ہے، جبکہ تاریخی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ صفر کے آخری بدھ کو رسول اللہ ﷺ کی بیماری کاآغاز ہوا تو یہودیوں نے اسی خوشی میں کہ محمد ﷺ بیمار ہو گئے ہیں، مٹھائیاں تقسیم کی تھیں ۔ بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم زندگی کے ہر معاملے میں رسول اللہ ﷺ ہی کی اتباع و پیروی کریں اور اس اتباع و پیروی میں مستند روایات و اقوال پر ہی عمل کریں کہ واقعتاً یہ بات یا عمل رسول اللہ ﷺ سے ثابت بھی ہے کہ نہیں۔ سنی سنائی بے پرکی باتوں پر عمل گناہ کبیرہ ہے۔