سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ سرکاری اداروں کی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا معاملہ ہمارے سامنے نہیں، اس معاملے پر الگ سے از خود نوٹس ہو سکتا ہے۔
سپریم کورٹ میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے فرانزک آڈٹ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اگر آئی بی کی ہاؤسنگ سوسائٹی ہوگی تو اس کے ساتھ کون مقابلہ کرے گا، دیکھتے ہیں زمینوں پر قبضے کے معاملے پر از خود نوٹس لینا ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بہتر ہوگا ہمارے سامنے کوئی درخواست آ جائے، ہم از خود نوٹس لینے میں محتاط ہیں، از خود نوٹس کا مقصد عوامی مفاد کا تحفظ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ایف آئی اے کی رپورٹ کا جائزہ لیا ہے، رپورٹ کے مطابق 175 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ رپورٹ میں ایک مجموعی تخمینہ دیا گیا مگر سوسائٹیوں سے وضاحت طلب نہیں کی گئی۔
سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے کیسے نجی بزنس میں اپنا نام استعمال کر سکتا ہے؟ کیا یہ مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہے؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے پر زمینوں پر قبضے کے سنگین الزامات ہیں، آئی بی بھی بظاہر زمینوں پر قبضوں میں ملوث ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان اداروں کا کام عوام کی خدمت کرنا ہے ہاؤسنگ سوسائٹی چلانا نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔