گزشتہ برس ستمبر میں شام کی حکومت کی طرف سے کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا معاملہ سامنے آنے پر امریکی صدر بارک اوباما نے امریکی عوام سے خطاب کرتے ہوئے شام میں مداخلت کا عندیہ دیا۔ان کی تقریر میں ایک جملہ یہ بھی تھا کہ امریکہ کو بین الاقوامی برادری میں استثنائی حیثیت حاصل ہے۔ اس پر روس کے صدر پیوٹن نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی قوم کے لئے یہ سمجھنا انتہائی خطرناک ہے کہ اسے کسی طرح کا استثنیٰ حاصل ہے۔ صدر پیوٹن کا مؤقف درست تھا کیونکہ تاریخی طور پر انسانیت کو استثنیٰ پسندی سے بہت نقصان پہنچے ہیں۔ تاریخ میں بہت سی قوموں اور گروہوں میں یہ خیال موجود رہا ہے کہ انہیں کچھ ایسا خصوصی مقام حاصل ہے کہ ان پر معمول کے اصول و ضوابط اور اقدار کا اطلاق نہیں ہوتا۔ گویا ایسی اقوام یا گروہ سمجھتے ہیں کہ وہ آزمودہ اصول و ضوابط سے انحراف کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ امریکہ میں یہ خیال اٹھارہویں صدی ہی سے موجود رہا ہے۔ مختلف امریکی رہنمائوں، دانشوروں اور سیاسی جماعتوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ اپنے تاریخی تجربے، معاشی ڈھانچے اور جغرافیائی خدوخال کے باعث امریکہ کو خصوصی اور رہنما حیثیت حاصل ہے۔ بیسویں صدی میں ہم نے بار بار یہ دیکھا کہ امریکہ کے اس مؤقف کی وجہ سے دنیا میں فتنہ و فساد نے جنم لیا۔ نشاۃ ثانیہ کے بعد نو آبادیاتی نظام آیا تو اہل یورپ نے ’سفید آدمی کا فرض ‘کے نام پر خود کو استثنائی درجہ تفویض کر لیا۔آج انسانیت نوآبادیاتی نظام کو رد کر چکی ہے۔ انیسویں صدی میں جرمنی میں فلسفی جوہان ہرڈر اور جوہان فختے کے زیر اثر استثنیٰ پسندی کا رجحان چلا تو بالآخر نازی پارٹی کی فسطائیت پر منتج ہوا۔ گزشتہ صدی میں جاپانی قوم نے اپنے لئے استثنیٰ کا اعلان کیا اور مشرق بعید کی درجنوں اقوام پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ مارکسزم کا فلسفہ مفروضہ پرولتاریہ کے لئے استثنائی درجے کی بنیاد پر قائم تھا۔ ہم اس نظام کی تباہ کاریاں بھی دیکھ چکے ہیں۔ مذہبی گروہوں میں اہل یہود نے اپنے لئے خدا کی چنیدہ قوم ہونے کا مفروضہ اختیار کیا۔ ہم اس کا مآل اسرائیل کی صورت میں جانتے ہیں۔ کسی قوم یا گروہ میں استثنیٰ پسندی کے ایک سے زیادہ محرکات ہو سکتے ہیں۔ ایک سامنے کی وجہ تو یہ ہے کہ متعلقہ گروہ ، ادارہ یا طبقہ تجزئیے اور جواب دہی کے عمومی اصولوں اور طریقہ کار سے گریز کرنا چاہتا ہے۔ قوموں میں استثنیٰ پسندی کا ایک طاقتور محرک بین الاقوامی قوانین کے اطلاق سے بچنا ہوتا ہے۔ استثنیٰ پسندی سے کبھی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ اس سے اقدار اور ضابطوں میں ایسے رخنے پیدا ہوتے ہیں جو بالآخر ناانصافی اور عدم استحکام کی طرف لے جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں استثنیٰ پسندی کی مثال علامہ اقبال کا یہ کہنا ہے کہ ’اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر‘۔ ہم نے اقبال کی استثنیٰ پسندی کو ایسے اشتیاق سے اپنایا کہ ہماری 66 سالہ تاریخ استثنیٰ پسندی کے شاخسانوں سے عبارت ہے۔ اس ملک میں نظریۂ ضرورت کے نام پر عدالتوں میں جو گل کھلائے گئے، سیاسی قیادت کی مفروضہ نااہلیوں کو جواز بنا کر جو آمریتیں مسلط کی گئیں، وہ سب استثنیٰ پسندی کے نمونے تھے۔ ہماری سیاست میں مقبولیت پسندی کا جو چلن ہے وہ بھی کرشمہ ساز شخصیتوں کی مفروضہ استثنائی حیثیت کا مرہون منت ہے۔ ایک سیاسی جماعت کا یہ نعرہ ہے ’ہمیں منزل نہیں، رہنما چاہئے‘۔ سبحان اللہ۔ اگر منزل مطلوب نہیں تو رہنما صاحب کے ساتھ کیا مارننگ واک پر جانے کا ارادہ ہے۔ یہاں پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہر انسانی معاشرے میں احترام مسلمات کا تصور پایا جاتا ہے۔ علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح پاکستان میں مسلمات کا درجہ رکھتے ہیں۔ مسلمات کی بصیرت اور کردار سے آگے بڑھنے کا جذبہ اخذ کیا جاتا ہے تاہم کسی گروہ کی معاشی، سماجی اور سیاسی حرکیات کو مسلمات کا پابند نہیں کیا جا سکتا۔ پنڈت نہرو آزاد ہندوستان کے مسلمہ رہنما تھے۔ 1990ء میں بھارت نے پنڈت جی کے اقتصادی ماڈل پر نظرثانی کی۔ بھارت کی موجودہ معاشی ترقی پنڈت نہرو کی اقتصادیات سے انحراف کا نتیجہ ہے۔ چین نے ڈنگ شائو پنگ کی قیادت میں چیئرمین مائو کے معاشی نمونے کو ترک کر کے موجودہ ترقی کی بنیاد رکھی۔ تھامس جیفرسن امریکہ کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ تھامس جیفرسن غلامی کو درست سمجھتے تھے۔ ابراہم لنکن نے غلامی کو غیر قانونی قرار دیا۔ابراہم لنکن تھامس جیفرسن کی عظمت سے انکار نہیں کر رہے تھے ۔ وہ اس سادہ اصول کا اثبات کر رہے تھے کہ حال کو ماضی کا اسیر نہیں رکھا جا سکتا۔ معاشرے کا ارتقاء اقدار اور ڈھانچوں پر مسلسل نظرثانی کا تقاضا کرتا ہے۔
پاکستان میں بہت خوشی کا مقام ہے کہ بالآخر ہماری عدلیہ نے دو ٹوک انداز میں نظریہ ضرورت کو رد کر دیا ہے۔ پرویز مشرف کے 3نومبر 2007ء کے اقدام پر عدالت عظمیٰ نے 31جولائی 2009ء کو جو فیصلہ دیا، وہ ہماری آئینی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے تاہم یہ سمجھنا چاہئے کہ سیاسی ثقافت عدالتوں میں تشکیل نہیں پاتی۔ ہمیں اپنے سیاسی اور تمدنی مکالمے میں استثنیٰ پسندی کو ختم کرنا چاہئے۔ محترم ڈاکٹر عطاالرحمن نے پرویز مشرف عہد کے بارے میں جو اعداد و شمار دئیے ہیں، عین ممکن ہے کہ وہ بالکل درست ہوں لیکن ان کے دلائل سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ پرویز مشرف کی حکومت آئینی طور پر بلاجواز تھی۔ مرحوم عزیز صدیقی فرمایا کرتے تھے، لاقانونیت کے بطن سے اجتماعی فلاح کے پھول پتے نہیں نکلتے۔ جمہوری معاشرے میں تمام شہری منتخب قیادت پر تنقید کا استحقاق رکھتے ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں کو اپنے اپنے منفرد تشخص کا حق بھی حاصل ہے لیکن ہمیں صرف یہ احتیاط کرنی چاہئے کہ سیاسی قیادت پر تنقید کا حتمی نتیجہ آمریت کی وکالت نہیں ہونا چاہئے۔ اگر ہمیں کسی سیاسی جماعت کے مؤقف یا کارکردگی پر اطمینان نہیں تو ہم اپنے ووٹ کے ذریعے اسے رد کر سکتے ہیں لیکن ہمیں سیاسی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے جمہوریت کو تنقید کا نشانہ نہیں بنانا چاہئے۔ جمہوریت کا متبادل آمریت ہے۔ آمریت کا ظہور چھائونی سے ہو یا حجرے سے، غیر آئینی اور ناقابل قبول ہے۔ پاکستان کو اپنے آئین کی صورت میں موجود عمرانی معاہدے سے کوئی مفر نہیں۔ ہمیں اس عمرانی معاہدے کی بالادستی کو ہر صورت میں قائم رکھنا چاہئے۔ آئین کی بالادستی کا مطلب ہے استثنیٰ پسندی کو خیرباد کہنا۔ ہم معیشت میں بھی استثنیٰ پسندی کا شکار ہیں۔ سامنے کی بات ہے کہ پاکستان کا زمینی رقبہ دنیا کے کل رقبے کا 0.7 فیصد ہے جبکہ ہماری آبادی دنیا کی کل آبادی کے 3 فیصد کو پہنچ رہی ہے۔ گویا ہم نے اپنی زمین پر چار گنا زیادہ آبادی کا بوجھ ڈال رکھا ہے۔ کسی ایک ملک میں ان پڑھ آبادی کی تعداد میں بھارت کے بعد ہمارا دوسرا نمبر ہے۔ ناخواندہ آبادی بذات خود ایک معاشی بوجھ ہے۔ تیسری بات یہ کہ ہم توانائی کے وسائل میں خودکفیل نہیں ہیں۔ ہمیں پٹرولیم کی 85 فیصد ضروریات درآمد کرنا پڑتی ہیں۔ ہمارا بنیادی معاشی مفاد یہ ہے کہ کس طرح اپنی پیداوار کو یہاں تک بڑھایا جائے کہ ہماری برآمدات درآمدات سے بڑھ جائیں۔ یہ کوئی فخر کی بات نہیں کہ ہم ہر برس تجارت کا خسارہ پورا کرنے کے لئے بیرونی امداد پر نظریں جمائے رکھیں۔ ہمیں خود کو استثنائی قوم سمجھنے کے بجائے ان معاشی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی معاشی ترجیحات طے کرنی چاہئیں۔ اگر تاریخ میں کسی قوم کو استثنیٰ پسندی خوش نہیں آئی تو ہمیں بھی اس اصول سے استثنیٰ حاصل نہیں۔