نبی اکرمﷺ نبی آخرالزماں ہیں۔ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں قیامت تک قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، بالکل اسی طریقے سے خود نبی اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ اور آپؐ کی تعلیمات کو بھی محفوظ رہنا ہے۔نبی اکرمﷺ کے بعد اُمت آپؐ کی قائم مقام ہے کہ اس مشن کو لے کر اُٹھے اور اس ہدایت کی علمبردار بنے۔ آپؐ کی تعلیمات کا خود بھی پیکر بنے اور دُور تک پھیلی ہوئی دنیا تک آپؐ کا پیغام پہنچائے۔ خود نبی اکرم ﷺ نے اس بارے میں جو اسوہ حسنہ چھوڑا ہے ، ظاہر ہے کہ جو لوگ قائم مقام ہیں، اُمت کی حیثیت سے آپؐ کے مشن کے علمبردار ہیں، انہیں اس بارے میں بھی رہنمائی وہیں سے لینی چاہئے۔احساسِ ذمہ داری کی شدت:واقعات میں آتا ہے کہ نبی ﷺ مسجد میں تشریف لائے، منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ وہاں بیٹھے تھے، ان سے کہا کہ عبداللہ! مجھے قرآن سنائو۔ وہ قدرے حیران ہوئے، عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ! میں قرآن سنائوں؟ یہ تو آپؐ پر نازل ہوا ہے، آپؐ ہی سے ہم نے سنا ہے، آپؐ ہی سے ہم تک پہنچا ہے۔ آپؐ نے فرمایا نہیں، عبداللہ! آج تو جی چاہتا ہے کہ کوئی پڑھے اور میں سنوں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے سورۂ نساء کی تلاوت شروع کی۔ جب اس آیت پر پہنچے ترجمہ ’’پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہراُمت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمہیں (یعنی محمدﷺ کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے‘‘۔ (النساء ۴:۴۱) ، تو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو اندازہ ہوا کہ جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ہاتھ کے اشارے سے روک رہے ہیں، عبداللہ بن مسعود نے سر اُٹھا کر دیکھا کہ آنحضوؐر کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں، ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہے۔ نبی اکرم ﷺ اس گواہی، شہادت اور ذمہ داری کے احساس سے گویا دبے جا رہے ہیں اور آنکھوں سے آنسوئوں کا رواں ہونا تو پورے جسم و جان کی کیفیت کی گواہی دے رہا ہے کہ اندر کیا ہلچل ہے، کیا کیفیت ہے کہ جس سے آپؐ گزر رہے ہیں۔
گویا حضور ﷺ اس لمحے سے پریشان ہیں جب پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے اس پیغام کو پہنچایا، لوگوں کے دلوں کو گرمایا، ان کے جسم و جان کو ان راہوں پر لگایا، تم نے لوگوں کو منزل کا شعور دیا، تم نے انہیں جدوجہد کا پیکر بنایا، تم نے چاردانگ عالم میں اس نئی کشمکش کی داغ بیل ڈال کر اس کی طرف ان کو بلایا؟ یہ احساس اور احساس کی شدت آپؐ کو رُلا رہی ہے۔یہ اُمت آپؐ کی قائم مقام ہے اور آپؐ رہتی دنیا تک اُمت کو اس حوالے سے رہنمائی دے رہے ہیں۔ جو لوگ اس مشن کو لے کر چل رہے ہیں وہ اُن پوری بستیوں کے ذمہ دار ہیں جہاں وہ اپنے شب و روز بسر کرتے ہیں اور ملک اور قوم کے۔ کبھی اتفاقاً آدمی اپنے آپ سے یہ سوال کرلے کہ قرآن تو میں بھی پڑھتا ہوں کہ اگر پوچھ لیا جائے کہ ان بستیوں میں تم نے کیا کام کیا، کتنے دلوں پر دستک دی، کتنے دل کے دریچے کھولنے کا تم ذریعہ بنے اور کتنے دریچہ ہائے دل ایسے تھے جو تکتے رہ گئے کہ کوئی آئے اور بتائے تو سہی کہ اسلام کہتے کس کو ہیں!
اللّٰہ سے مضبوط تعلّق:اگر ہم نے حضور نبی کریمﷺ کی قائم مقامی کرنی اور ان کے مشن کو لے کر آگے چلنا ہے تو یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اسوۂ حسنہ کا کامل اتباع نہ کیا جائے۔ جب تک حالتِ قیام سے، قرآنِ پاک کے ساتھ شغف سے، فی الواقع ایک مستحضرعلم سے اور وسعتِ علم کے نتیجے میں اپنے آپ کو بنایا نہ جائے، کوئی بڑا کام تو دُور کی بات ہے، اس ذمہ داری کا ہلکا سا بوجھ بھی نہیں اُٹھایا جاسکتا۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے طور طریقوں اور رویوں میں، اپنے شب و روز کے معمولات، مشاغل و مصروفیات میں تبدیلی لانی چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ جو ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے اس کے بوجھ کو ہلکا کرنے اور فی الحقیقت اس کو نبھانے کیلئے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے۔ فرداً فرداً کوئی کسی کو نہیں بتا سکتا لیکن ہرشخص اپنے بارے میں جانتا ہے، اسی کے مطابق اس کو اپنا لائحہ عمل مرتب کرنا چاہئے۔ آپ چاہیں تو اس کا نام تعلق باللہ رکھ دیں یعنی ہر بندے کا اپنے رب کیساتھ جو تعلق اور استواری ہے، مسلسل اس میں منہمک رہنا ضروری ہے لیکن بدرجۂ اولیٰ کہ
جن کے رتبے ہیں سوا، ان کی سوا مشکل ہے
جو لوگ ان راہوں پر چلے اور لوگوں پر ذمہ دار قرار پائے ہیں ان کا فرض ہے کہ رب کے ساتھ اپنے تعلق کو مستحکم کریں۔ جس کا کام کررہے ہیں اسی کیساتھ رابطہ اگر ٹوٹا رہے گا، جس کی دعوت لے کر اُٹھے ہیں اسی کیساتھ تعلق اگر ضعف کا شکار ہو گا تو سوچئے کہ کہاں سے طاقت ملے گی اور کہاں سے نصرت و تائید آئے گی۔ نصرت و تائید کی بات بسااوقات لفظوں میں سمجھ نہیں آتی۔ یہ جو انسان کی طبیعت میں انشراحِ صدر ، قدموں کے اندر جمائو اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے، انسان نامساعد حالات میں صبر کی چٹان اور تحمل کا کوہِ گراں نظر آتا ہے، اسی کو نصرت اور تائید کہتے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کمزور بندوں اور اپنے راستے پر چلنے والوں کی کس کس طریقے سے مدد کرتا ہے۔ کیسے وہ ان کی آنکھیں، پیر اور کیسے وہ ان کے ہاتھ بن جاتا ہے۔سیرتِ رسولؐ سے رہنمائی:سیرت کے ہر واقعے کے اندر رہنمائی موجود ہے۔ کچھ نہیں تو آنکھوں کے لئے نمی، دلوں کےلئے گداز اور قلوب کے لئے خشیت کی کیفیت موجود ہے۔ اگر ان واقعات کو زمانی ترتیب کے ساتھ جوڑ لیں کہ ایک واقعہ پیش آیا پھر دوسرا پیش آیا، صبح کو یہ ہوا، پھر دوپہر کو یہ اور شام کو یہ ہوا۔ پھر لوگوں نے کانٹے بچھا دیئے پھر وہ پتھر برسانے اور گالیاں دینے لگے پھر لوگوں نے حالتِ نماز میں اوجھ رکھ دی پھر لوگوں نے ہجرت پر مجبور کر دیا۔ یہ تمام واقعات کسی ترتیب کے ساتھ جمع کرلیں تو جوڑتے جوڑتے لگے گا کہ واقعی یہ تو پہلے دن سے کسی منزل کا تعین کرکے کسی انقلاب کی طرف رہنمائی ہو رہی ہے اور لوگوں کو ایک بڑے مقصد کی طرف بلایا جا رہا ہے۔ یہ اتفاقی اور حادثاتی واقعات نہیں ہیں۔ سیرت کے تمام واقعات ایک مقصد کی طرف لے جاتے ہیں، منزل کا شعور دیتے ہیں۔
راہِ دعوت کی مشکلات:واقعۂ طائف پر نظر ڈالئے۔ نبی اکرمﷺ نے مصائب و شدائد کا دور مکے میں گزارا ہے۔ مکے میں جب دعوت و تبلیغ اور اللہ کی طرف بلاتے ہوئے آپؐ کو ایک مدت گزر گئی، تو یہ احساس ہوا کہ بہت تھوڑے لوگ اس دعوت کو قبول کر رہے ہیں اور اس کو بہت کم پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔ گویا ایک تجزیہ کیا، جائزہ لیا اور پھر آپؐ نے طے کیا کہ مکہ کے لوگ تو بات قبول ہی نہیں کرپا رہے ہیں، چلو طائف کا رُخ کرتے ہیں اور طبیعت اور مزاج کے اندر یہ بات رچی بسی تھی کہ کیا عجب کہ طائف کے لوگ اس دعوت کو قبول کرلیں اور یہ دعوت محض نظریاتی اور لفظوں کا پھیر نہ رہے بلکہ سلطنت بن جائے۔ کیا عجب کہ یہ دعوت ریاست قرار پائے، یہ دعوت مقتدر ہوجائے، اس دعوت کا سکّہ رواں ہوجائے، یہ دعوت قیل و قال کے حوالوں سے بھی جانی پہچانی جائے اور احکامات و ہدایات کے نازل ہونے اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے بھی۔ کس قدر بصیرت و بصارت ہے، کس قدر دُوراندیشی اور دُوربینی ہے کہ اس دعوت کو یہاں پر وہ فروغ حاصل نہیں ہو رہا لیکن وہ تمکن اور غلبہ جو اس دعوت کے اندر پنہاں ہے اور حالات کی بہتری اسی وقت ہاتھ آئے گی جب یہ دعوت غالب آجائے گی۔ اس تجزئیے اور ان امیدوں ، اس سوچ اور فکر کے ساتھ آپؐ نے طائف کا سفر کیا لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت خود ایک موضوع ہے، لوگوں نے اس پر بہت لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو پوری کائنات کا فرمانروا ہے، طاقت کے ہرسرچشمے کا مالک ہے، وہ اپنے محبوب ترین بندے کو دیکھتا ہے کہ ستایا جا رہا ہے، اُلٹے پیروں لوٹایا جارہا ہے، جابجا پتھروں اور گالیوں کی یورش میں ایک مضبوط انسان کی حیثیت سے کھڑا ہوا ہے۔ کیفیت کو بیان کرنے کیلئے الفاظ تلاش کرنا مشکل ہے۔ بعض لوگ خود ہی پوچھتے اور خود ہی اس کا جواب دیتے ہیں۔ اگر انسانی الفاظ اور جذبات کا سہارا لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ کیا گزر رہی ہو گی کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے محبوب ترین بندے کو ان کیفیات سے گزار رہا ہو گا، مشکلات و مصائب میں دیکھ رہا ہوگا۔ یہ اصل اسوۂ حسنہ ہے۔