کوئی ڈیڑھ برس کی عجیب و غریب حرکتوں نے ہمارا قومی وقار مجروح کر کے رکھ دیا ہے۔ ہر نیا دن پہلے سے زیادہ بدنامیاں لے کر طلوع ہوتا ہے، ہم دنیا میں مذاق بن کر رہ گئے ہیں، خوف کے سائے بڑھتے جا رہے ہیں، ہر سو اداسی بکھری ہوئی ہے، لوگوں کے چہروں پر خوشیوں کی جگہ بھوک اور غربت لکھ دی گئی ہے۔ میں کئی دنوں سے اس کش مکش میں تھا کہ کیا کروں میرا پیارا پاکستان ہے، حکمرانوں کو دولت سے پیار ہے اور مجھے اپنے وطن کی مٹی سے، امیدوں کے چراغ بجھتے ہوئے دیکھ کر کل شام میں بودی سرکار کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میرے جاتے ہی انہوں نے مہربانی کی اور اپنے سارے مریدوں کو کمرے سے نکال دیا، میں نے ان سے پوچھا کہ سرکار خیر ہے؟ میری بات سن کر بودی سرکار اپنی گرجدار آواز میں بولے "جب میں تمہارے پاس جاتا ہوں تو خیر نہیں ہوتی، آج تو تم میرے پاس آئے ہو، آج خیر کہاں سے ہو گی۔ بندوں کو اس لئے نکال دیا ہے کہ تم بڑی الٹی سیدھی باتیں کرتے ہو، ہر خاص بات عام لوگوں کے سامنے نہیں کی جا سکتی"۔ میں نے بودی سرکار سے عرض کیا کہ جناب میرا تو ایک ہی مقدمہ ہے اور وہ پاکستان کا مقدمہ ہے، مجھے اس مٹی سے عشق ہے، عاشق کو اپنے مقدمے کی فکر لاحق ہے سو میں آپ کے پاس آگیا ہوں۔ اس کے بعد میں نے اپنا مقدمہ کچھ واقعات کے ساتھ پیش کیا تو بودی سرکار بولے" تم بہت برے لوگ ہو، اچھے انسانوں کی قدر نہیں کرتے، تمہیں خدا نے متعدد مرتبہ اچھے انسان دیئے مگر تم لوگوں نے ان کی قدر نہیں کی، ان پہ عرصۂ حیات تنگ کیا،کہاں سے بات شروع کروں۔ کیا تم نے بانی پاکستان کی قدر کی؟ پاکستان کی ابتدائی مشکلات میں پیر جماعت علی شاہ، نواب آف بہاولپور اور سید مراتب علی شاہ نے معاشی حوالوں سے پاکستان کی مدد کی۔ کیا تم لوگوں نے ان کی یا ان کی اولادوں کی قدر کی؟ پاکستان بنانے والوں میں حسین شہید سہروردی،جی ایم سید اور شیخ مجیب الرحمٰن بھی شامل تھے، تم لوگوں نے غداری کے تمغے ان کے سینوں پر سجائے۔ پچاس کی دہائی میں سمجھداری آپ سے تقاضا کرتی رہی کہ سمجھ جاؤ مگر تم نہ سمجھے، تم نے اقتدار کے کھیل کو کھلونا بنائے رکھا۔ تم ٹھیک ٹھاک تھے، تم جرمنی اور جاپان کو قرضہ دینے والوں میں شامل تھے مگر پھر 60 کی دہائی میں تم نے طاقت کے زور پہ سیاستدانوں کے مستقبل کو تاریک کر دیا تو وہ سیاستدان قائد اعظم کی بہن کو سامنے لے آئے، تم نے اسے بھی غدار بنا دیا اور اسے دھاندلی سے ہروا دیا۔ تمہیں یاد ہے کہ تمہارے ملک کے بڑے بڑے جاگیر دار، سردار، علماء اور پیر بک گئے تھے، طاقت کے سامنے جھک گئے تھے۔کیا تم نے فاطمہ جناح کی توہین کرنے والوں کو سزا دی؟تمہیں ایک اور بات یاد کرواتا چلوں، تمہارے جسٹس منیر نے انصاف کا قتل کیا تھا، نظریۂ ضرورت کا فلسفہ گھڑا تھا، یہ جو تم لوگ جسٹس کارنیلیس، ایم آر کیانی اور جسٹس پٹیل کی باتیں کرتے ہو تو یاد رکھو وہ تو آئی سی ایس آفیسرز تھے۔ مولانا بھاشانی نے تمہیں جگانے کی کوششیں کیں مگر تم نے اس کی امیدوں کے چراغ بجھا دیئے۔ شیخ مجیب الرحمٰن تم سے مذاکرات کی بھیک مانگتا رہا مگر تم نے سمجھداری چھوڑ کر طاقت کے نشہ آور راستے کو اپنایا۔
تم لوگوں نے الیکشن جیتنے والے کو اقتدار نہ دے کر جمہوریت کی نفی کی، اخلاقیات کی توہین کی اور اپنے ایک چہیتے کو لانے کے لئے اکثریت پر چڑھ دوڑے۔ ہم نے سینے پر زخم کھائے، ظلم، تشدد اور ناانصافی کے راستے نے ہمارا آدھا ملک گنوا دیا، جب تمہارا چہیتا بولا تو تم اسے بھی پھانسی گھاٹ پر لے آئے پھر نوے روز کے وعدے نے قوم کے مقدر میں ایسی تاریکیاں لکھیں کہ ہم آج تک سفیدیاں ڈھونڈھ رہے ہیں۔ نوے روز والے صاحب نے سیاست میں ایسے لوگ متعارف کروائے جو کونسلر لیول کے بھی نہیں تھے، جنہوں نے اس ملک میں لوٹ مار کا بازار گرم کیا، اتنا لوٹا کہ دھرتی کے پیدا ہونے والے بچے بھی مقروض ہو گئے، انہیں بار بار ماہر بنا کر پیش کیا گیا مگر وہ ماہرین تو کباڑیے تھے۔ قدرت نے پھر مہربانی کی، تمہیں ایک بندہ دیا مگر تم ناقدرے لوگ ہو، اس کی بھی قدر نہ کر سکے۔ ماہرین کا آخری حملہ بھی عجیب تھا، وہ معیشت کا گلا دبا گئے، قرضوں کا بوجھ بڑھا گئے، غریبوں کی زندگیوں کو بھوک کی کشتی پر بٹھا کر بھنور کے سپرد کر گئے، جہاں پیسے وہاں وہ، اب وہ لندن جا چکے ہیں اور اب تمہارا ایک ادارہ تحقیق کر رہا ہے۔ آٹا سکیم میں 18ارب، موٹر وے میں 32 ارب اور سیلاب فنڈ میں 48ارب کی کرپشن کیسے ہو گئی؟ ماہرین کے اس دور میں ظلم، تشدد اور ناانصافی کا راستہ اپنایا گیا، انسانی حقوق آہیں بھرتے رہے مگر ان کے لئے کسی نے شمع نہ جلائی،بد قسمتی سے یہ سفر ہنوز جاری ہے، معاملات کتنے خراب ہیں اس کا اندازہ ریاست کے سپریم کمانڈر کے ایک ٹویٹ سے ہو سکتا ہے۔ کس طرح اشتر اوصاف کے شاگرد نگراں وزیر قانون نے غیر آئینی طور پر دو بلوں کو منظور قرار دے دیا حالانکہ ان پر صدر مملکت کے دستخط ہی نہیں، نئے وزیر قانون کو کم ازکم پارلیمان کے قانون سازی کے طریقوں ہی کو پڑھ لینا چاہیے تھا۔ اب یہ معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے ہے، جہاں ججوں کے سامنے ایک سوال ہو گا کہ وہ جسٹس منیر بننا چاہتے ہیں یا جسٹس کارنیلیس، مولوی مشتاق بننا چاہتے ہیں یا جسٹس ایم آر کیانی، جسٹس ارشاد حسن خان بننا چاہتے ہیں یا جسٹس پٹیل"۔ بودی سرکار کی لمبی تقریر میں تھوڑا سا وقفہ آیا تو میں نے پوچھا، اب کیا ہو گا؟ کہنے لگے"بس تھوڑا ہی وقت ہے، کھیل پلٹ جائے گا، پاکستان کی سمت درست ہو جائے گی"۔ بودی سرکار کی باتیں ختم ہوئیں تو واپسی پر مجھے شوکت واسطی کا یہ شعر رہ رہ کر یاد آتا رہا کہ
شوکت ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا