اسلام آباد ہائی کورٹ میں توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس طارق جہانگیری نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کی جس میں چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل مکمل کیے۔
سماعت کے آغاز میں چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ خواجہ حارث پیش نہیں ہو رہے، ان کے منشی کو اغواء کیا گیا تھا، خواجہ حارث کا اس سے متعلق بیان حلفی دے رہا ہوں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہمیں سپریم کورٹ کا آرڈر بھی ملا ہے۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی درخواست پر دلائل دوں گا، ان کی تین گراؤنڈ پر سزا معطلی کے لیے دلائل دوں گا، سب سے پہلے عدالتی دائرہ اختیار کا تعین ہونا ضروری تھا، الیکشن کمیشن اپنے کسی افسر کو کمپلینٹ دائر کرنے کا مجاز قرار دے سکتا ہے، اس کیس میں سیکریٹری الیکشن کمیشن نے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کو کمپلینٹ دائر کرنے کا کہا، صدر مملکت نے 14 اگست کو قیدیوں کی سزا میں 6 ماہ کی معافی کی، چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا کا دورانیہ پہلے بھی کم اور تین سال قید تھا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں الیکشن کمیشن کا کمپلینٹ دائر کرنے کا اجازت نامہ قانون کے مطابق نہیں؟
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ جی بالکل، وہ اجازت نامہ درست نہیں ہے، ٹرائل کورٹ نے ہائی کورٹ کے آرڈر کو بھی نظر انداز کیا، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بہت خامیاں ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کےخلاف ہماری اپیل منظور کی، ہائی کورٹ نے درخواست دوبارہ فیصلہ کرنے کے لیے ٹرائل کورٹ کو بھجوائی، کمپلینٹ ٹرائل کے لیے ڈائریکٹ سیشن جج کے پاس نہیں جا سکتی، قانون میں طریقہ کار دیا گیا ہے، کمپلینٹ پہلے مجسٹریٹ کے پاس جائے گی، سیشن کورٹ براہ راست کمپلینٹ سن ہی نہیں سکتی، ٹرائل کورٹ کا آرڈر غلطیوں کے باعث برقرار نہیں رہ سکتا، استدعا ہے چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطل کردی جائے، سزا کالعدم قرار دینے کی اپیل پر دلائل کے لیے ہم دوبارہ عدالت کے سامنے آئیں گے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں ان تمام ایشوز پر فیصلہ دیا گیا؟
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ بالکل نہیں، جو فیصلہ انہوں نے دیا تھا وہ ہائی کورٹ کالعدم قرار دے چکی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس استفسار کیا کہ حتمی فیصلے میں کیا ٹرائل کورٹ نے وجوہات دیں؟
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ جی ٹرائل کورٹ نے وجوہات نہیں دیں، ٹرائل جج نے آپ کو اگنور کیا، سوری آپ کے فیصلے کو اگنور کیا، لطیف کھوسہ کے دلائل پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
جسٹس طارق جہانگیری نے سوال کیا کہ ٹرائل کورٹ نے دفاع کے گواہوں کو کس بنیاد پر غیر متعلقہ کہا؟
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دے دیا، ٹرائل کورٹ نے گواہوں کو جانچے بغیر انہیں اسی روز غیرمتعلقہ قرار دیاجس کی وجہ لکھی ہی نہیں، کیا فوجداری تاریخ میں ایسا کبھی ہوا ہے؟ حق دفاع ختم کرنے کے ٹرائل کورٹ فیصلے کی درخواست پر نوٹس جاری ہو چکا تھا۔
وکیل لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ معذرت کے ساتھ آپ نے بھی ٹرائل کورٹ کو حتمی فیصلہ کرنے سے روکا نہیں، اگر ہائی کورٹ نے نہیں روکا پھر بھی جج کو حتمی فیصلہ نہیں دینا چاہیے تھا، ملزم کو اپنےدفاع میں گواہ پیش کرنےسے روکاہی نہیں جاسکتا، ایک شخص اپنا دفاع پیش کر رہا ہے آپ کیسے اُسے روک سکتے ہیں، چار گواہ تو پیش کر رہے تھے کوئی چالیس تو نہیں تھے، ٹرائل کورٹ کے فیصلے سے چیئرمین پی ٹی آئی کے آئینی حقوق متاثر ہوئے، گوشوارے جمع ہونے کے 120 دن کے اندر کمپلینٹ دائر کی جا سکتی ہے، یہ کمپلینٹ گوشوارے جمع ہونے کے 920 دن بعد دائر کی گئی، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ میرے سر پر ہمیشہ تلوار لٹکی رہے, ٹرائل کورٹ نے ملزم کے دفاع کاحق ختم کیا بلکہ خواجہ حارث کی بحث بھی نہیں سنی، خواجہ حارث نے بتایا ان کے منشی کا مسئلہ بنا ہوا تھا جس وجہ سے آنے میں تاخیر ہوئی، خواجہ حارث 12 بجے ٹرائل کورٹ پہنچ گئے تھے مگر جج نے کہا اب آپ کی ضرورت نہیں، عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا اور آدھے گھنٹے بعد 30 صفحات کا فیصلہ جاری کر دیا، ساڑھے بارہ بجے فیصلہ آیا اور 12:35 پر پولیس چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار کرنے پہنچ گئی، چیئرمین پی ٹی آئی نے بتایا ان کے گھر کے گیٹ اور واش روم کا دروازہ تک توڑا گیا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حق دفاع سے متعلق چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل بینچ میں زیر سماعت ہے، حق دفاع کی درخواست پر نوٹس جاری کیے جانے کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست سپریم کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے، سپریم کورٹ اور سنگل بینچ میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے یہ بینچ اس معاملے پر کوئی آبزرویشن نہیں دے سکتا، سپریم کورٹ میں بھی معاملہ زیرالتوا تھا، سنگل بینچ میں بھی ان کی پٹیشن زیرالتوا تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تو پھر سنگل بینچ اور سپریم کورٹ کے درمیان یہ بینچ سینڈوچ ہو گیا۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ اکاؤنٹنٹ اپنی طرف سے تو کچھ نہیں لکھتا، کلائنٹ ہی بتاتا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ہم اگرچہ لیگل کمیونٹی سے ہیں لیکن ٹیکس ریٹرن تو نہیں بھر سکتے۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ انہوں نے گوشواروں میں 4 بکریاں ظاہر کیں لیکن باقی متعلقہ چیزیں ظاہر نہیں کیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ ان کے تین سوالات ہیں ایک مجسٹریٹ والا ہے، ایک دورانیے والا ہے اور ایک اتھارٹی والا ہے۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ان کا سوال یہ بھی ہے ان کو آخری دن سنا نہیں گیا، ان کا حق دفاع بھی ختم ہوا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت اس وقت سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کر رہی ہے، سزا معطلی کی درخواست پر عدالت میرٹس پر گہرائی میں نہیں جائے گی، یہ سوالات تو آئیں گے کہ ملزم کو حقِ دفاع ہی نہیں دیا گیا۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ گوشوارے تو اپنے کنسلٹنٹ کی مشاورت سے جمع کرائے جاتے ہیں نا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ یہ تو کلائنٹ کو بتانا ہوتا ہے کہ اُس کے اثاثے کیا تھے، چیئرمین پی ٹی آئی کی فیملی کے پاس 3 سال تک کوئی جیولری یا موٹرسائیکل تک نہیں تھی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ مجھے تو کوئی اپنے ریٹرنز فائل کرنے کا کہے تو میں خود نہیں کر سکتا۔
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ یہ ٹیکس ریٹرن کا کیس ہی نہیں غلط ڈیکلریشن کا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے اپیل میں اسٹیٹ کو فریق نہ بنانے کا اعتراض اٹھا دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے عامر فاروق نے استفسار کیا کہ شکایت کنندہ الیکشن کمیشن ہے اور درخواست گزار نے اسے فریق بنایا ہے، ریاست کو اپیل میں فریق بنانے کی ضرورت کیا ہے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ سزا سنائے جانے کے بعد ملزم کا اسٹیٹس مجرم میں تبدیل ہو گیا، سزا یافتہ اب ریاست کی قید میں ہے، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اس گراؤنڈ پر اپیل مسترد کردی جائے، میرا مؤقف ہے کہ کم از کم اسٹیٹ کو نوٹس کر کے سنا جائے۔
عدالت نے سوال کیا کہ اسٹیٹ کو نوٹس بھی کردیں تو کیا ہو گا؟
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ یہ مینڈیٹ آف لاء ہے کہ اسٹیٹ کو بھی نوٹس ہونا چاہیے۔