• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بجلی کے بلوں کے خلاف پاکستان بھر میں لوگ سراپا احتجاج ہیں اور احتجاج کے مختلف طریقے اختیار کر رہے ہیں ۔ کہیں سڑکوں پر نکل کر لوگ مظاہرے کر رہے ہیں اور بجلی کے بل جلا رہے ہیں ۔ کہیں بجلی کے اداروں کے دفاتر پر مشتعل افراد اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں ۔ کہیں تاجروں کی تنظیمیں اپنے حلقہ اثر میں لوگوں کو قائل کر رہی ہیں کہ لوگ بل ادا نہ کریں ۔ کہیں مساجد سے اعلانات ہو رہے ہیں کہ لوگ بجلی کا بل ادا نہ کریں ۔ کہیں بجلی کے زیادہ بلوں پر گھروں کے اندر آپس میں لڑائی جھگڑے اور قتل ہو رہے ہیں اور کہیں بل ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے لوگ خود کشی کر رہے ہیں ۔ پاکستانی سماج میں بالآخر وہ ہلچل اور کھلبلی پیدا ہو چکی ہے ، جسے طویل عرصے سے روکا جا رہا تھا ۔ یہ ہلچل کیا صورت اختیار کرے گی ، شورش ، منظم سیاسی مزاحمت یا بے سمت انتشار ؟ یا تھوڑے عرصے میں خود ہی ختم ہو جائے گی ؟

لوگ اس لئے بجلی کے بلوں پر احتجاج کر رہے ہیں کہ وہ ان بلوں کی ادائیگی کے قابل نہیں رہے ۔ پاکستان کے 80فیصد سے زیادہ گھرانوں کی کل ماہانہ آمدنی کا زیادہ تر حصہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے اور کہیں تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ کل ماہانہ آمدنی سے زیادہ بجلی کا بل آجاتا ہے ۔ عالمی مالیاتی ادارے اور ان کے پروردہ پاکستانی حکمران اس منطق پر بجلی کے نرخوں میں اضافہ کر رہے ہیں کہ دنیا کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں بجلی اب بھی پاکستان میں سستی ہے ۔ وہ یہ نہیں دیکھ رہے کہ دیگر ملکوں میں لوگوں کی آمدنی کیا ہے ۔ ان کی کرنسی کی قدر کیا ہے اور ان کی کل ماہانہ آمدنی کا کتنا فیصد بجلی کے بلوں کی مد میں چلا جاتا ہے ۔ دیگر ملکوں میں بجلی یا دیگر یوٹیلٹی بلز پر ایسے ٹیکسز نہیں ہوتے ، جو پاکستان میں لگائے جا تے ہیں ۔ یہ ٹیکسز بجلی پیدا اور تقسیم کرنے والے اداروں کو نہیں ملتے بلکہ حکومت کے خزانے میں چلے جاتے ہیں ۔ ان ٹیکسوں سے ہونے والی وصولیوں سے حکومت اپنے بجٹ کے دیگر اخراجات اور خسارے پوری کرتی ہے ۔ یہ احتجاج لوگوں نے اپنے طو رپر شروع کیا ہے ، اس لئے کہ ان کے صبر اور ان کی برداشت کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے ۔ کسی سیاسی ، مذہبی یا قوم پرست جماعت یا جماعتوں نے اس احتجاج کیلئےنہ تو کوئی منصوبہ بندی کی اور نہ اس معاملے پر لوگوں کو اکسایا ۔ اس لئے یہ احتجاج منظم نہیں ہے ۔ یہ لوگوں کا اشتعال اور ردعمل ہے ۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے ابھی تک اس احتجاج کو سیاسی تحریک میں بدلنے کیلئے کوئی کام نہیں کیا گیا کیونکہ ان کے پیش نظر مستقبل کی سیاست ہے ۔ وہ مہنگائی اور استحصال کے خلاف لوگوں کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہیں تو وہ اس کیمپ سے نکل جائیں گی ، جس میں رہ کر وہ ملکی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اقتدار کیلئےسمجھوتے کر سکتی ہیں ۔ یہ مہنگائی سامراجی مظہر ( Phenomenon ) ہے ۔ اس کے خلاف تحریک بھی کثیر جہتی ہوتی ہے ۔ ایسی تحریک سیاسی جماعتوں کو دوسرے کیمپ میں دھکیل دیتی ہے ، جہاں اقتدار کیلئے صرف عوامی قوت پر انحصار رہ جاتا ہے ۔ میاں نواز شریف کی وزارت عظمی کے دور میں جو عمران خان بجلی کے بل پھاڑ کر سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کر رہے تھے ، وہ بھی مہنگائی اور استحصال کے خلاف کسی حقیقی تحریک میں شمولیت کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔ دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کا بھی یہی حال ہے ۔

اس مرحلے پر ایک بات جو قابل غور ہے ، وہ یہ کہ مذہبی جماعتیں عوام کے اس احتجاج میں آہستہ آہستہ شریک ہو رہی ہیں ۔ خیبر پختونخوا اور اس کے قبائلی علاقہ جات میں وہاں کی مساجد کمیٹیاں اور دیگر مذہبی گروہ لوگوں کو بل نہ دینے کی ترغیب دے رہے ہیں اور ساتھ ہی انہیں یہ یقین دہانی بھی کرائی جا رہی ہے کہ لوگوں کے میٹرز نہیں کاٹے جائیں گے ،بجلی کے اداروں کا کوئی بھی اہل کار کسی کا میٹر کاٹنے آیا تو وہ خود اپنے کئے کا ذمہ دار ہو گا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان علاقوں میں کسی حد تک سول نافرمانی کی تحریک غیر منظم انداز میں ابھر رہی ہے ۔ پنجاب ، سندھ اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر میں بھی مذہبی جماعتیں لوگوں کے احتجاج میں شامل ہو رہی ہیں ۔ یہ مذہبی جماعتیں اس احتجاج کو تحریک کی شکل دے سکتی ہیں ؟پاکستان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ مذہبی جماعتوں کا کردار سیاسی تحریکوں کا رخ موڑنے پر رہا ہے یا وہ انہیں ’’ نان ایشوز موومنٹس ‘‘ میں تبدیل کر دیتی ہیں ۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کی اسکیم میں یہ ہے کہ اگلے عام انتخابات میں مذہبی جماعتیں زیادہ طاقتور ہو کر ابھریں اور بڑی سیاسی جماعتوں کے ’’ سائز میں کٹوتی ‘‘ ہو تو یہ اس اسکیم پر عمل کرنے کا بہترین موقع ہے ۔

اب حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ وہ پرانی حکمت عملی کا رگر ثابت نہیںہو سکے گی ۔ لوگ اس قابل نہیں رہے کہ وہ گمراہ کن نعروں کے جال میں پھنس کر بھی موج مستیاں کریں ۔ اکثریت آبادی کا جینا محال ہو گیا ہے ۔ لوگوں کو جینے کیلئے روٹی چاہئے ۔ بجلی کے بلوں سے یہ روٹی بھی لوگوں سے چھینی جا رہی ہے ۔ اگلے انتخابات میں اس عوامی احتجاج کو کچھ پسندیدہ مذہبی جماعتوں کو اسٹیبلشمنٹ کی اسکیم کے تحت تقویت مل سکتی ہے لیکن عوام کی ان مشکلات کا کسی کے پاس حل نہیں ہے ۔ حکمت عملی یا اسکیم چاہے کچھ بھی ہو ، پاکستان پر اشرافیہ کے مسلط کردہ استحصالی نظام کو ’’ بجلی کا جھٹکا ‘‘ ضرور لگے گا ۔ اس جھٹکے سے منظم سیاسی مزاحمت شاید جنم نہ لے سکے ۔ نظام میں توڑ پھوڑ اور سماج میں انتشار کے امکانات نمایاں ہیں ۔ نگران حکومتیں صرف تماشائی بن کر رہ سکتی ہیں ۔ وہ کوئی بڑے فیصلے نہیں کر سکتیں ۔ اگر اسکیم کے تحت آئندہ انتخابات کے نتیجے میں کوئی کمزور سیاسی حکومت بنی تو وہ بھی بجلی کے اس جھٹکے سے سنبھل نہیں پائے گی یا یوں کہیے کہ سسٹم کو بجلی کے بلوں ، اس غیر منظم اور کمزور احتجاج سے جو جھٹکا لگ سکتا ہے ۔ اس کے اثرات کا وہ سیاسی ذہن ادراک کر سکتا ہے ، جس نے پاکستان میں 1960 ء کے عشرے کی سیاسی تحریک دیکھی یا جنہوں نے 1980 ء کے عشرے میں ایم آر ڈی جیسی بظاہر کمزور تحریک دیکھی ۔ ان تحریکوں کی طرح بجلی کے بلوں کے خلاف اٹھنے والا ابھار حقیقی عوامی سیاسی عمل ہے ۔

تازہ ترین