• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’’آئس برگ‘‘ سمندر میں رواں دواں بحری جہاز، برفانی چٹان سے ٹکرا کر دولخت ہوگیا

10اپریل 1912ء پوری دنیا کے لئے ایک تاریخی دن تھا جب ایک ’’ٹائی ٹینک‘‘ (Titanic)نامی جہاز سے ’’وائٹ اسٹار لائن‘‘ (نقل و حمل کرنے والی برٹش جہاز) کمپنی چلا رہی تھی۔ یہ اپنے پہلے بحری سفر پہ پوری آب و تاب اور برق رفتاری کے ساتھ سمندر کا سینہ چیرتے ہوئے اپنی منزل ’’جنوبی ایمنٹن‘‘ (Southamton)، انگلینڈ سے نیو یارک، امریکا کی جانب رواں دواں تھا۔ اس جہاز میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ٹائیٹینیم(Titanium)، فولاد اور دیگر قیمتی دھاتوں کا استعمال کیا گیا تھا،جس کی بنیاد پر تخلیق کاروں کا یہ دعویٰ تھا کہ یہ سمندر کے مدِمقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہو گا۔ گویا یہ بحری جہاز ناقابل ِ تسخیر تصور کیا جانے لگا۔ لیکن ماہرین کا یہ دعویٰ اس وقت ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہو گیا۔ 

جب اس مستحکم جہاز کو 400میٹر کی دوری پر شمالی بحراوقیانوس میں جنوبی نیوفائونڈلینڈ، کینیڈا کے قریب ایک تیرتے ہوئے دیوہیکل تیرتے ہوئی چٹان سے ٹکرا گیا جو اتنا شدید تھا کہ جہازمتزلزل ہو کر دولخت ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سمندر کی تہہ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غرق ہو گیا۔ عام خیال یہ تھا کہ رات کی روشنی اور دھند، سراب (Mirage)، نظر کا دھوکہ ، ناقص دو چشمی دوربین ((Binacular اور تیز رفتاری کی وجہ سے برف کے منجمد تیرتے ہوئے ٹکڑے واضح طور پر دکھائی نہیں دیئے اور یوں بحری جہاز ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا لیکن یہ صرف قیا س آرائیاں تھیں۔ 

اس حادثہ کی سب سے اہم وجہ بحری علوم کی مناسبت سے ’’سائنس‘‘ پر خاطر خواہ توجہ نہ دینا تھی۔وقت گزرنے کے ساتھ جب بحری علوم (اوشونوگرافی)، بحری، ارضیات اور دیگر سائنسی علوم میں وسعت پیدا ہوئی تو بعض حیران کن حقائق آتے گئے۔ مثلاً سمندر میں تیرتی ہوئے برف کی غیر معمولی نوعیت کئی کئی ٹن کی ہوتی ہیں اور اس کا معمولی سا حصہ سطح سمندر پر تیرتا ہوا دکھائی دیتا ہے جب کہ بیشتر حصہ زیر ِ آب ہوتا ہے جو جہاز رانی کے لئے انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ 

چناں چہ ’’ٹائی ٹینک‘‘ کے حادثہ کے بعد تحقیق کی جستجو نے انسانی ذہن کو جلا بخشی جس کے نتیجے میں سب سے پہلے یہ حقیقت دنیا کے سامنے آئی کہ یہ تیرتے ہوئے برف سیل مضبوط، لامحدود اور لوہے کی طرح سخت برفانی چٹان ہوتی ہے، جس سے بحری حادثہ جنم لیتاہے، چناں چہ متفقہ طور پر سائنسی حلقوں نے بحری علوم کی مناسبت سے اس تیرتے ہوئے برف کی چٹان کو ’’آئس برگ‘‘ کا نام تجویز کیا۔ یعنی تیرتا ہوا برفانی چٹان۔’’آئس برگ‘‘ کاجنم اور استخراح(Derivative)دونوں ہی قدیم خطہ گلیشئر سے وابسطہ ہوتا ہے۔ گویا ’’آئس برگ‘‘ اور گلیشئر دونوں کی طرز تخلیق ایک ہی ہوتی ہے۔

بعض کائنات کا ’’آبی چکر‘‘ اس وجہ سےپگھلنے پر میٹھا پانی مہیا کرتے ہیں، پھر یہ کہ دونوں ہی نیلے رنگ کے نظر آتے ہیں، جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ’’گلیشئر‘‘ کے جسم سے جنم لینے والا ’’آئس برگ‘‘ سفید روشنی کی کچھ سرخ حصوں کی طولی موجویں (LongWave Length)برف میں جذب ہو جاتی ہیں اور نیلی روشنی کی مختصر موجیں (Shortwave Length) کی ترسیل اور منتشر ہی ہو جاتی ہے۔ برف میں جتنی دور تک روشنی کا سفر جاری رہتا ہے، برف اتنا ہی زیادہ نیلا نظر آتی ہے۔ 

ہاں! دونوں میں یہ فرق ضرور ہے کہ ’’گلیشئر‘‘ اپنے پیدائش مقام (براعظم ) سے ہمیشہ منسلک رہتا ہے، جس سے مراد ’’جہاں کاوہیں پوزیشن‘‘ (Situ position) جب کہ’’آئس برگ‘‘ گلیشئر کے جسم سے جنم لے کراپنے پیدائشی مقام سے جدا ہو کر دور سمندری ماحول (بحراعظم) میں قیام پذیر ہو جاتا ہے۔ لیکن خطہ گلیشئر کے حدود میں کھلے سمندر میں تیرتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ’’آئس برگ‘‘ کو جنم دینے والا گلیشئر اکثر سرد خطوں میں پایا جاتا ہے۔ جہاں کا درجہ ٔ حرارت نقطہ ٔ انجماد (93.3)ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ 

انٹارکٹیکا اور گرین لینڈ، شمالی نصف کرہ ٔمیں زیادہ تر آئس برگ گرین لینڈ سے ٹوٹ کر وجود میں آتے ہیں جو ڈنمارک کا خودمختار علاقہ ہے۔ بعض اوقات یہ لہروں کی مدد سے بہہ کر ’’شمالی اٹلانٹیک‘‘ میں پہنچ گئے۔ جنوبی نصف کرۂ میں تمام آئس برگ نے براعظم انٹارکٹیکا سے جنم لیا ہے۔ پیدائشی مقام پر گلیشئر کے دو حصے ہوتے ہیں زیریں اور بالائی۔ اس کے زیریں حصوں میں وادی ہوتی ہے جہاں خاصی گرمی (نقطہ پگھلائو) ہوتی ہے۔ 

اسی وجہ سے گلیشئر کا یہ حصہ پگھلتا رہتا ہے اور مختلف دریائوں کو جنم دیتا ہے۔ لیکن اس کے بالائی حصوں میں سارا سال برف کے انبار رہتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ حصہ ’’کالونگ‘‘ (Calving)زون میں چلا جاتا ہے، اس کے باعث برف کے اندرونی سالماتی ساخت کے گرد ’’ایٹمز‘‘ کے درمیان بندشی قوت کمزور ہونے لگتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ اس کے جسم میں دراڑ کی نیس (Network of Fico)ہرطرف پھیل جاتی ہیں اور بالائی دبائو اور قوت کشش کے زیرِ اثر برف کے بڑے بڑے ٹکڑے اور بلاکس قلابازیاں کھاتے ہوئے نیچے موجود ساحلی زون میں داخل ہو جاتے ہیں۔ 

سمندری لہریں اور مدوجزر اسے کھلے سمندر تک پہنچا دیتے ہیں جہاں وہ کھلے سمندر میں تیرتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہی تیرتا ہوا برف کی چٹان ’’آئس برگ‘‘ کہلاتا ہے جو سمندری جہاز راں کے لئے خطرے کی علامت ہوتی ہے کیونکہ اس کا 10فیصد حصہ سطح سمندر پر آشکار ہوتا ہے جب کہ 90فی صد حصہ زیرِ آب عمیق گہرائی میں موجود ہوتا ہے، جس کی وجہ کثافت ہوتی ہے۔ برف کی کثافت 0.92گرام پر لیٹرہوتی ہے ،جب کہ پانی کی کثافت 1.00گرام پر لیٹر (1gram/Liter) جب کہ نمکین پانی کی کثافت 1.03گرام پرلیٹرہوتی ہے۔اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ’’آئس برگ‘‘ 90فی صد سمندری پانی کے نیچے ہوتا ہے۔

دوسری طرف ’’آئس برگ‘‘ ٹھوس ہوتاہے۔ لیکن پھربھی پانی میں نہیں ڈوبتا، جس کی وجہ سے اس کا پانی کے مقابلے میں کم کثیف (9فیصد) ہوتا۔ برف میں سالمات آپس میں اتنے کسے (Packed)ہوئے نہیں ہوتے جتنا کہ مائع پانی میں’’آئس برگ‘‘ میں یہ صورت حال درجۂ حرارت میں تبدیلی کی وجہ سے رونما ہوتی ہے، جس کی وجہ ’’قلمی نظام‘‘ میں ازسرنو تربیت ہوتی ہے۔ جب مائع پانی صفر ڈگری سینٹی گریڈ پر منجمد ہو کر برف یا ’’آئس برگ‘‘ میں تبدیل ہو جاتا ہے تو پانی کے سالمات کا مثبت پہلو پانی کے سالمات کے منفی پہلو سے منسلک ہو کر ایک خاص قسم کی بائونڈنگ تشکیل کرتا ہے۔ 

جسے ’’ہائیڈروجن بائونڈنگ‘‘ کہتے ہیں۔ اس بندش کے نتیجے میں ایک’’تین رخی‘‘ یعنی طول، عرض اور موٹائی طرز کی شش پہلو (Hexagonal Crystal) قلمیں ظہور پذیر ہوتی ہیں جو شہد کی مکھی کے چھتے سے مشابہت رکھتی ہیں۔ اگر کھلے شہد کی مکھی کے چھت کا برف (آئس برگ) کی قلمی ساخت سے موازنہ کیا جائے تو مائع پانی کے مقابلے میں ان کی سالماتی ساخت کم کسے بنڈل کی طرح ہوتی ہیں۔ 

یہی وجہ ہے کہ ’’آئس برگ‘‘ پانی کے مقابلے میں 9فیصد کم کثیف (Less Dense)ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ’’آئس برگ‘‘ سمندر پر تیرتا ہوا نظرآتاہے ۔ یہ ٹھوس مائع حالت کے درمیان غیر معمولی تعلق کو ظاہر ہوتا ہے ورنہ زیادہ تر مادّوں میں ٹھوس حالت زیادہ کثیف (More Dense) ہوتے ہیں اور پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔

سمندر میں ’’آئس برگ‘‘ کی شاخت کے حوالے سے اس کی جسامت اور اشکال کو بڑی فوقیت حاصل ہوتی ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ سمندر، سمندر کی سطح پر آئس برگ کی بلندی 16فٹ اور دبازت98-164 فٹ ہواور ساتھ ہی 5382 فٹ کا علاقہ ’’آئس برگ‘‘ کے محیط میں ہو۔ جسامت کے ضمن میں اس کے دو پہلوئوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ 

پہلا پہلو سمندری برفانی تودے (Bergy Bits)کے حوالے سے بحری سطح پر سامنے آتاہے جو کئی ٹن کے آئس برگ کی شکست و ریخت کے بعد حاصل ہونے والے درمیانہ دیوہیکل برف کے ٹکڑوں پر مشتمل ہوتے ہیں جو سطح سمندر سے 3فٹ (لیکن 16فٹ سے کم) اور اس کا محیط علاقہ عام طور پر 1,076-3229اسکوائر فٹ ہوتا ہے۔ جب کہ اس کے دوسرے پہلو کو خطرے کو اطلاع دینے والی آواز،آواز کی طرح کا آئس برگ ہوتا ہے۔ جسے’’گرولرز‘‘(Growlers)کہتے ہیں۔ 

یہ آئس برگ کے ذیلی ٹکڑے ہوتے ہیں۔ جس کی جسامت ایک ٹرک (Truck)یا ’’پیانو‘‘ کے مساوی ہوتا ہے۔ کچھ آئس برگ جو انٹارکٹیکا میں پائے جاتے ہیں وہ ’’سیسلی‘‘ میں ’’ایٹالین‘‘ جزیرے سے بھی بڑے ہوتے ہیں۔ جب کہ یہ شکل کے حوالے سے جدولی (Tabular)یا غیر جدولی (Non-Tabular)طرز کا پایا جاتا ہے۔ جدولی آئس برگ تیز دھار کناروں اور بالائی حصہ سپاٹ نوعیت کا ہوتا ہے اور تمام آئس برگ میں تصادم کے حوالے سے بہت ہی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ 

ٹائی ٹینک جہاز کو جدولی آئس برگ نے دائیں طرف سے زیر ِ آب بورڈ پر کاری ضرب لگائی، جس سے جہاز کے فرش میں شگاف پیدا ہو گیا اور وہ دولخت ہو کر ڈوب گیا۔ جب کہ دوسرا خطرناک ’’آئس برگ‘‘ غیر جدولی شکل کا ہوتا ہے۔ مثلاً گنبد نما (Dome)اوربلند جانب ٹاور کے اوپر کونک (Conic)سلنڈر کی کلس (Spires) نما ۔ان تمام صورت پر قابو پانے کے لیےامریکا کی بین الاقوامی تنظیم (امریکا نیشنل آئس سینٹر) پولر علاقوں میں موجود اس انٹارٹک آئس برگ پرپوری طرح نظر رکھتی ہے جو 1600میٹر (5,400اسکوائر فٹ)کے محیط میں ہو، تاکہ سطح سمندر پر یا زیرِ آب اس کی وسعت اورہیئت کا اندازہ لگایا جاسکے۔ 

اس مقصد کے حصول کے لئے سائنسدان سیٹ لائٹ جہاز اور سائٹ پر پیمائش آلات کااستعمال عمل میں لائے، تاکہ اس کے سمندر میں آئس برگ کی پوزیشن، نوعیت اور پگھلائو کی مدت کا اندازہ لگایا جاسکے اور بحری حادثوں پر قابو پایا جاسکے۔ اس سلسلے میں 1999ء میں ایک کامیابی اس وقت حاصل ہوئی جب ’’نیشنل آئس سینٹر‘‘ نے امریکا اسٹیٹ کے ’’رہوڈو‘‘ (Rohodo)جزیرہ سے بھی جسامت میں بڑا آئس برگ اپنے راستے سے کسی اور طرف بھٹک گیاتھا لیکن ’’گلوبل پوزیشننگ سسٹم‘‘ کی مدد سے اندازہ لگا لیا گیا کہ وہ ارجنٹینیا کے ایک اہم بحری راستہ ڈریک (Drake)پر تیر رہا ہے، جس کی دریافت 2007ء میں عمل میں آئی۔ 

ان اقدام سے بحری حادثوں پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ،جس کی وجہ سے دوسراحادثہ 100سال بعد یعنی 13جنوری 2012ء کو ’’کوسٹا کون کروڈیا‘‘ کے ساتھ پیش آیا۔جب ’’آئس برگ‘‘ گرم پانی میں داخل ہوتاہے تو آخرکار وہ پگھل جاتاہے ،جس کے بارے میں یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ گلیشئر کا پہلی برف باری سے پگھلائو کا عرصہ تقریباً 3000سال تک کا ہوتا ہے۔

’’آئس برگ‘‘ جہاں بحری جہازوں کے لئے خطرناک ہوتے ہیں وہیں انسانی اور حیوانی زندگی کے لیے سود مند ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً ’’انٹارکٹیکا‘‘ کے اطراف بعض بودوباش اختیارکرنے والے بحری حیات (پولر ریچھ، پن گوئن، مچھلیاں اور پرندوں) کے لئے دوسرے سمندروں کے شکاری جانوروں سے تحفظ کے حوالے سے بہترین پناہ گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ 

یہاں موجود بحری حیات آئس برگ کے نیچے موجود الجی کو خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور نہ صرف زندہ رہتے ہیں بلکہ پیداواریت میں بھی اضافہ کرتے ہیں یہ آئس برگ بحری زندگی کے لئے اطراف میں موجود پانی کے ذریعہ غذائیت مہیا کرتا ہے جو ان کی بقاء کے لئے مؤثر ثابت ہوتا ہے۔

مارچ 2000ء میں ناسا اینٹارٹک سے جنم لینے والے سب سے دیوہیکل آئس برگ کے بارے میں یہ انکشاف کیا کہ 300کلو میٹر طویل ،40کلو میٹر چوڑے اور 4,250اسکوائر میل کے علاقوں میں موجود پایا گیا جو پولر آئس برگ کے پگھلنے اور سطح سمندر کی بلندی اضافے اور کمی کے اعداد و شمار اور بحری حیات منامیوں کی بودوباش اور پیداواریت کے حوالے سے یہ صدیوں تک اپنا مثبت کردار ادا کرتارہے گا۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
ٹیکنالوجی سے مزید