• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے انتہائی محترم اور ممتاز ترقی پسند رہنما غوث بخش بزنجو مرحوم کے صاحبزادے میر حاصل خان بزنجو جب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی کابینہ کی رکن کی حیثیت سے حلف اٹھا رہے تھے تو اسی وقت میرے ذہن میں کچھ سوالات پیدا ہو رہےتھے ۔ یہ سوالات یقیناً کچھ دیگر حلقوں میں بھی پیدا ہوئے ہوں گے ۔ اس وقت پاکستان کے بائیں بازو ( لیفٹ ) کی سیاست کہاں کھڑی ہے ؟ دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) کے ایک تاجر اور صنعت کار وزیر اعظم کا ساتھ دے کر پاکستان کا لیفٹ کیا آج بھی اسٹالن کے دو مرحلوں والے بورژوا جمہوری انقلاب کے فلسفے پر عمل پیرا ہیں ، جس پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور بعد ازاں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان ہمیشہ سے عمل پیرا رہیں ؟ کیا بورژوا جمہوری انقلاب کا راستہ ہموار ہو چکا ہے اور ایک بورژوا جمہوری لیڈر پاکستان کو عالمی سامراجی شکنجوں سے آزاد کرا رہا ہے یا پھر مرحوم غوث بخش بزنجو کی پیش گوئی درست ثابت ہو رہی ہے ؟اس وقت پاکستان میں جو بھی سیاسی جماعتیں ، گروہ اور افراد باقی بچ گئے ہیں ، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ بائیں بازو کی سیاست یا بائیں بازو کے نظریات کے پاسدار ہیں ، وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابلے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے زیادہ قریب ہیں ۔ ا ن میں بلوچستان ،سندھ اور خیبرپختونخوا کے ترقی پسند اور قوم پرست شامل ہیں ۔
میاں محمد نواز شریف گذشتہ 35 سالوں سے پاکستان کی حقیقی مقتدرہ کے منظور نظر رہے ہیں اور شروع سے ہی انہیں پیپلز پارٹی کے متبادل کے طورپر پیش کیا جا تا رہا ہے لیکن اب صورت حال تبدیل ہو رہی ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت مستقبل قریب میں شدید مشکلات کا شکار ہونے والی ہے ۔ ان بدلتے ہوئے حالات میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی سیاسی جماعت کسی نہ کسی طرح اپنی سیاسی بقاء کا راستہ تلاش کر لیں گے لیکن پاکستا ن کی بائیں بازو کی بچی کھچی سیاست کا کیا ہو گا ۔ اس بارے میں امید افزاء قیاس آرائیوں کی بھی گنجائش نہیں بن رہی ہے ۔سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنےکے بعد اگرچہ پوری دنیا میں بائیں بازو کی سیاسی قوتیں کمزور ہوئی ہیں لیکن وہ مکمل طورپر ختم نہیں ہوئی ہیں جبکہ پاکستان کی سیاست پر بائیں بازو کی اثر اندازی کے مکمل طورپر ختم ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے ۔ ویسے بھی پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کی دعویدار قوتیں پہلے ہی بہت حد تک غیر مؤثرہو چکی ہیں ۔ بورژوا جمہوری انقلاب تو نہیں آیا البتہ پاکستان میں دائیں بازو کی قوتیں فیصلہ کن حیثیت اختیار کر رہی ہیں ۔ اس کے اسباب ’’ عالمی ‘‘ سے زیادہ ’’ دیسی ‘‘ ہیں ۔ اس مختصر کالم میں ان اسباب کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی ۔ روسی انقلاب کے بعد برصغیر میں بھی ترقی پسند سوچ تیزی سےپھیلنے لگی تھی اور اس نے ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی تھی ۔1920میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا قائم ہوئی تھی ۔ برطانوی نوآبادی حکمرانوں نے برصغیر کو ایک بہت بڑا خطرہ قرار دیا اور ترقی پسند تحریک کو1920 ء کے عشرے میں ہی کچلنا شروع کر دیا ۔ پشاور سازش کیس اور کان بالشویک کیس قائم کرکے ترقی پسند کارکنوں اور رہنماؤں کو جیلوں میں ڈال دیا لیکن ترقی پسند سوچ اور انقلابی تحریکوں کو مکمل طورپر کچلا نہیں جا سکا لیکن ترقی پسند رہنما ؤں نے معروضی حالات کا درست تجزیہ نہیں کیا اور انہوں نے ہر معاملے میں صرف سوویت یونین کی طرف دیکھا ۔ متحدہ ہندوستان کی ترقی پسند سیاسی جماعتیں عوامی بغاوتوں اور تحریکوں سے دور رہیں ۔ یہیں سے وہ پٹڑی سے اتر گئیں اور وقت کے ساتھ ساتھ عوامی سیاست میں ان کا اثر کم ہوتا گیا۔20 ویں صدی کے آغاز میں پنجاب اور بنگال میں برطانوی راج کے خلاف کسانوں کی بغاوتیں ہوئیں ۔ اس وقت ترقی پسند سیاسی جماعتیں موجود نہیں تھیں لیکن کسانوں کی تحریک کے دوران ہی یہ جماعتیں وجود میں آئیں لیکن اس تحریک کا حصہ نہ بن سکیں۔انہوںنے سوویت رہنما جوزف اسٹالن کی تقلید کی۔ اسٹالن اتحادیوںسے معاہدہ کر چکےتھے۔ اس لیے دوسری جنگ عظیم میں انڈیا کی ترقی پسند قوتوں نے برطانیہ کے خلاف لڑنےسے انکار کر دیاکیونکہ وہ اسٹالن کا اتحادی تھا۔1940 اور1945 ء کے درمیان 10ہزار حریت پسند شہید ہوئے ۔ 1946 ء میں مکمل بغاوت ہوئی ۔ پورے ہندوستان میں ہڑتالیں ، مظاہرے اور احتجاج ہو رہےتھے ۔ نیوی سیلرز ، رائل ایئر فورس کے ورکرز کے ساتھ ساتھ جلا پور ، ڈیرہ دون اور گورکھا میں سپاہیوں نے بغاوت کر دی۔ بہار میں بھی پولیس نے بغاوت کر دی ۔ ریلوے اور ڈاکخانےکے مزدوروںنے کام بند کر دیا ۔ صنعتوں کارکنوں نے بھی ہڑتال میں حصہ لیا ۔ بمبئی اور مدراس کے ساتھ ساتھ ہمارے کراچی میں بھی ہڑتالیں ہو رہی تھیں لیکن ترقی پسند رہنما یہ ہڑتالیں ختم کرانے کی کوششیں کر رہے تھے ۔ اسٹالن نے ’’ ٹو اسٹیج بورژوا جمہوری انقلاب ‘‘ کی تھیوری دی تھی ، جس کے مطابق ہندوستان کے سرمایہ دار اپنے قومی مفاد میں عالمی سامراج سے ٹکرائیں گے اور وہ سوشلسٹ دنیا سے اپنے تعلق قائم کریں گے ۔ وہ بورژوا انقلاب نہ آیا ۔ ان تحریکوں کا فائدہ کانگریس اور مسلم لیگ کو ہوا ۔قیام پاکستان کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی یہی سیاسی وراثت یہاں بھی منتقل ہوئی اور پاکستان میں بدترین صورت اختیار کر گیا۔یہاں بورژوا جمہوری انقلاب کی تھیوری جاگیرداروں اور مقامی لوگوں کی سیاست کے خلاف جدوجہد کا استعارہ بن گئی ۔ مشرقی پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی نے لینگویج موومنٹ میں لوگوںکا ساتھ دیا لیکن مغربی پاکستان میں کسی بھی عوامی تحریک کا ساتھ نہیں دیا گیا ۔ عوام سے ہٹ کر سرمایہ داروں یا فوج کے ذریعہ انقلاب لانے کی منصوبہ بندی کی گئی ۔ ایک مرحلے پر یہ کہا جاتا تھا کہ پاکستان کے حبیب اللہ ، سہگل اور ولی کا خاندان عالمی ، سامراجی نظام اور انڈین بورژوازی سے ٹکرائیں گے ۔ پاکستان کو سوشلسٹ بلاک کی طرف لے جائیں گے ۔1965 میں ڈاکٹر محبوب الحق کی رپورٹ کے مطابق 22 خاندان پاکستان کی معیشت پر حاوی ہو گئےتھے ۔ دو تہائی صنعتی اثاثے ، 80 فیصد بینکنگ اور 79 فیصد انشورنس کے اثاثےان کے کنٹرول میں تھے ۔ پھر بھی بورژوا انقلاب نہ آیا۔ اس کے ساتھ ساتھ فوج کے ذریعہ انقلاب لانےکے بارے بھی سوچا گیا ۔اس کے لیے جنرل اکبر اور ان کی ساس بیگم شہنازنے ایک ڈرائنگ روم میں انقلاب لانے کے آئیڈیا پر بحث کی اور اس پر راولپنڈی سازش کیس بن گیا ۔ چین اور روس میں تصادم ہوا تو کچھ لوگ ماسکو نواز بن گئے اور کچھ لوگ چین نواز کہلانےلگے ۔ ایوب خان کے خلاف تحریک شروع ہوئی تو ترقی پسندوںکے دونوں گروہ الگ تھلگ رہے ۔ ایک بورژوا جمہوری انقلاب کی وجہ سے اور دوسرا گروہ چین کی طرف سے ایوب خان کی حمایت کے باعث تحریک سے لاتعلق رہا ۔ ترقی پسندوں کا سیاسی اثر ورسوخ مزید کم ہو گیا اور بڑے بڑے جغادری ترقی پسند رہنماؤں کی عوام میں اتنی بھی حیثیت نہیں تھی ، جتنی فیصل آباد کے مزدور رہنما مختار رانا کی تھی ، جن کی کال پر پورا فیصل آباد بند ہو جاتا تھا ۔ اس تحریک کا فائدہ پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ نے اٹھایا ۔ مغربی پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کے دعویدار پیپلز پارٹی کے مخالف ہو گئے ۔ اب تک ’’ ترقی پسندوں ‘‘ نے جس تحریک میں سب سے زیادہ اور بھرپور حصہ لیا ہے ، وہ پاکستان قومی اتحاد ( پی این اے ) کی تحریک تھی ، جس کی باگ ڈور دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں تھی ۔ ممتاز ترقی پسند دانشور جمعہ خان صوفی اپنی کتاب ’’ فریب ناتمام ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ میر غوث بخش بزنجو مرحوم نے پی این اے کا حصہ بننے کی مخالفت کی تھی ۔ اس پر انہیں زبردستی تنقید کا نشانہ بننا پڑا ۔ میر صاحب نے کہا تھا کہ پاکستان کے مقتدر حلقے بھٹو کو بھی مار دیںگے ۔ پیپلز پارٹی بھی بائیں بازو کی سیاست نہیں کرے گی اور ہم جو بائیں بازو کی سیاست کرنے والے ہیں ، ہمیں بھی کچل دیا جائے گا اور ہم دائیں بازو کے لوگوں کا سہارا لینے پر مجبور ہوںگے ۔ میر غوث بخش بزنجو کی پیشگوئی درست ثابت ہوئی ہے ۔پی این اے میں شمولیت کا فیصلہ تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ پاکستان میں نہ بورژوا جمہوری انقلاب آیا اور نہ ہی بائیں بازو کی قوتیں اپنی بقاء کا اہتمام کر سکیں ۔ اب جو دور آنے والا ہے ، اس میں حاصل بزنجو اور اسفندر یار ولی کی شاید سیاسی بارگننگ والی پوزیشن بھی نہ رہے ۔ عوامی نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کو اپنا وجود برقرار رکھنے کےلیے مزید سخت گیر دائیں بازو کے لوگوں سے سمجھوتہ کرنا ہو گا ۔ لیبرپارٹی،عوامی تحریک،عوامی ورکرز پارٹی جیسی چھوٹی سیاسی جماعتوں کو نہ کوئی پہلے پوچھتا تھا اور نہ کوئی آئندہ پوچھے گا۔
تازہ ترین