موجودہ حالات میں جبکہ پاکستان سخت ترین معاشی و معاشرتی بحران سے دوچار ہے،ایسی خبروں کا سامنے آنا کہ گلگت بلتستان کی حکومت نے خطے میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کیلئے فوج بلانے کا فیصلہ کرلیاہے،یقیناً کوئی نیک شگون نہیں۔آخر ہم تحمل و برداشت کو کیوں طاق نسیاں پر رکھ کر خود کو بلا سوچے سمجھے حالات کے حوالے کر دیتے ہیں،کوئی شک نہیں کہ مذہبی معاملات بہت حساس ہوتے ہیں لیکن انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس حوالے سے عدالت کے دروازے پر دستک دی جائے،قوانین موجود ہیں اور ان پر عمل بھی ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان میں پچھلے دنوںمختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے دو علمائے کرام کی جانب سے غیر محتاط تبصروں کے بعد متعلقہ کمیونٹیز کے جذبات مجروح ہوئے جس کے بعد حالات کشیدہ ہوتے گئے تو وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان کی صدارت میں پارلیمانی امن کمیٹی کا اجلاس ہوا ۔اس میں متعدد وزرا، چیف سیکریٹری گلگت بلتستان، ہوم سیکریٹری، پولیس چیف اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ارکان نے شرکت کی،اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے عقائد اور مقدس ہستیوں کی توہین کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی اور خطے کی مجموعی صورتحال کی بہتری اور قیام امن کیلئے فوج بلائی جائے گی۔بعد ازاں نگراں وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہاکہ گلگت بلتستان کے محکمہ داخلہ نے وضاحت کی ہے کہ علاقے میں صورتحال ’مکمل طور پر پرامن‘ ہے۔گزشتہ روز گلگت بلتستان کی حکومت نے فوج کی تعیناتی کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا، اور کہا تھا کہ پاکستان آرمی اور مسلح افواج کی خدمات صرف اگلے ہفتے چہلم امام حسین رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے موقع پرامن و امان برقرار رکھنے کیلئے طلب کی گئی ہیں۔اب جبکہ مبینہ طور پر حساس معاملات پر بات کرنے والے دونوں علماء کیخلاف مقدمات کا اندراج ہو چکا ہے،بہتر ہے کہ پرامن رہ کر قانونی فیصلے کا انتظار کیا جائے۔