اس وقت پورے ملک میں لوگ مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں کیونکہ اس مہنگائی کے ساتھ جینا لوگوں کے لئے انتہائی مشکل ہو گیا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ احتجاج اس وقت ہو رہا ہے ، جب ملک میں نگراںحکومتیں ہیں ، جو عوام کو ریلیف دینے کے لئے کوئی بھی بڑا فیصلہ نہیں کر سکتیں کیونکہ ان کے پاس کوئی سیاسی مینڈیٹ نہیں ہے ۔ نگراں حکمراں نہ صرف اس احتجاج سے نمٹنے کے لئے کوئی سیاسی حکمت عملی اپنانے کی صلاحیت سے محروم ہیں بلکہ مہنگائی میں اضافے کو روکنا بھی ان کے بس میں نہیں ہے ۔ انہیں اس بات کی پروا بھی نہیں ہے کہ لوگوں کا غم و غصہ بڑھ رہا ہے کیونکہ ان کو الیکشن نہیں لڑنا ہے اور نہ ہی اپنی سیاست یا ساکھ متاثر ہونے کا خطرہ ہے ۔ مجھے خدشہ محسوس ہو رہا ہے کہ عوام کی بڑھتی ہوئی سیاسی بے چینی کو کچھ قوتیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر سکتی ہیں اور اس سے جمہوری عمل متاثر ہو سکتا ہے ۔ خاص طور پر عام انتخابات کے نتائج غیر متوقع ہو سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے ۔
مہنگائی کے خلاف اس طرح کے مظاہروں اور احتجاج کا میں نے جنرل ایوب خان کے دور میں مشاہدہ کیا تھا ۔ اس وقت احتجاج کی ایک سیاسی سمت تھی اور عوامی تحریک میں سیاسی قوتیں کود پڑی تھیں اس تحریک کے نتیجے میں جنرل ایوب خان کی آمرانہ حکومت کی گرفت کمزور ہوئی ۔ انہیں ہٹاکر جنرل یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔ لیکن وہ بھی اپنے قدم نہ جما سکے ۔ بالآخر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان میں پہلی دفعہ بالغ رائے دہندگی کی بنیاد پر عام انتخابات کرانا پڑے لیکن اس وقت حالات قطعی برعکس ہیں ۔ اس وقت عوامی احتجاج کی ( جو تحریک کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے ) کوئی سیاسی سمت نہیں ہے ۔ اس ابھرتی ہوئی تحریک کی قیادت سیاسی قوتیں نہیں کر رہیں ۔ جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتیں اس میں ضرور شامل ہو رہی ہیں لیکن ابھرتی ہوئی تحریک کی قیادت فی الحال ان کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ آگے چل کر وہ اس تحریک کی قیادت حاصل کر لیں ۔ ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کی قیادت بیانات کی حد تک عوام کے احتجاج کی حمایت کر رہی ہیں لیکن وہ اس میں شریک نہیں ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت ان تینوں جماعتوں کو اس مہنگائی کا ذمہ دار قرار دیتی ہے ۔ جہاں تک عوام کے احتجاج کا تعلق ہے ۔ میرے خیال میں یہ نامیاتی ( Organic ) ہے ۔ یعنی حالات کا منطقی نتیجہ ہے کیونکہ لوگوں کے لئے مہنگائی ناقابل برداشت ہو چکی ہے ۔ پٹرولیم مصنوعات ، بجلی ، گیس ، دوائیں ، اشیائے خورو نوش سب اکثریتی آبادی کی پہنچ سے نکل چکی ہیں ۔ روپے کی تیزی سے گھٹتی ہوئی قدر مزید تباہی کا باعث بن رہی ہے لیکن یہ احتجاج آگے چل کر غیر نامیاتی ( Non Organic ) بھی ہو سکتا ہے ۔ ہر احتجاجی تحریک ایک خاص شدت کے ساتھ ایک خاص مدت تک چل سکتی ہے ۔ اس کے بعد اس کی شدت میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے ۔ دنیا کے کچھ ملکوں اور علاقوں میں تحریکیںبرسوں چلتی ہیں لیکن برصغیر پاک و ہند میں لمبی تحریکیں چلنے کی کوئی روایت نہیں ہے ۔ اگر پاکستان میں مہنگائی کے خلاف یہ احتجاجی تحریک ایک دو ماہ سے زیادہ چلتی ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس میں غیر نامیاتی عناصر شامل ہو گئے ہیں ۔
بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اس احتجاج کو بنیاد بنا کر پاکستان حکمراں اسٹیبلشمنٹ عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) سے کہہ سکتی ہے کہ وہ اپنی شرائط میں نرمی کرے تاکہ لوگوں کو بجلی کے بلوں میں کسی حد تک ریلیف دیا جا سکے ۔ اگر یہ شرائط نرم نہ ہوئیں تو ملک میں انتشار پیدا ہو سکتا ہے ، جس سے نہ صرف معیشت کی ’’ بحالی ‘‘ کا عمل متاثر ہو گا بلکہ معیشت کو اور زیادہ نقصان بھی ہو گا ۔ ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے زیادہ مطالبات منوانے کے لئے اس احتجاجی تحریک کو مزید طول بھی دیا جا سکتا ہے لیکن پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ( جو بظاہر نگران حکومتوں کو آگے کرے گی ) کے پاس کوئی ایسا متبادل پلان نہیں ہے ، جو آئی ایم ایف کو قائل کر سکے کہ عوام کو ریلیف دینے کی صورت میں بجٹ خسارہ اور ٹیکسوں کے اہداف کیسے پورے ہوں گے ۔ تحریک کو طول دینے کا مطلب یہ ہو گا کہ تحریک میں غیر نامیاتی عناصر شامل ہو چکے ہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف کسی متبادل پلان کے بغیر نگراں حکومت کی بات نہیں مانے گا کہ لوگوں کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دیا جائے ۔ اگر اس نے یہ بات مان بھی لی تو عوام پر کسی دوسرے طریقے سے بوجھ ڈال دیا جائے گا ۔ لیکن اس کا کریڈٹ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور احتجاج میں مذہبی جماعتیں لیں گی ۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ڈس کریڈٹ ہوں گی ۔ اگر آئی ایم ایف نے یہ بات تسلیم نہ کی تو احتجاج میں شامل مذہبی جماعتیں اسے اپنی انتخابی مہم میں تبدیل کر دیں گی ۔ اس صورت میں بھی انہیں سیاسی فائدہ ہو گا ، جو انتخابی نتائج کی صورت میں نظر آئے گا ۔ اس سے انتخابات کے بعد مستقبل کی سیاسی اسکیم کے اشارے مل رہے ہیں ۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس صورت حال کو جواز بنا کر ملک میں اکنامک ایمرجنسی نافذ کر دی جائے اور ایمرجنسی اس وقت نافذ کی جائے ، جب انتخابات ہونے والے ہوں اور ایمرجنسی کی وجہ سے ان میں مزید تاخیر کر دی جائے ۔ بہرحال مہنگائی کے خلاف اس احتجاجی تحریک کو وہ قوتیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر سکتی ہیں ، جنہوں نے مستقبل قریب کی اپنی سیاسی اسکیم بنا رکھی ہے ۔ بڑی سیاسی جماعتیں اس حوالے سے خسارے میں رہیں گی ۔