برادر عزیز حسین احمد پراچہ کا اصرار نہ ہوتا تو میں وطن عزیز کی ایک خوبصورت دانش گاہ دیکھنے سے محروم رہ جاتا۔ اپنی طبیعت کی کم آمیزی، تقریبات سے گریز پائی مصروفیات کی بھرمار اور صحت کے مسائل کی وجہ سے میں کم ہی کہیں جا پاتا ہوں لیکن تڑپنے پھڑکنے کے باوجود پراچہ صاحب کے دام محبت سے نہ نکل پایا۔ اچھا ہوا ورنہ یونیورسٹی آف سرگودھا دیکھنے اور نوجوانوں کی پیشانیوں سے پھوٹتی روشنی سے امید و یقین کی سوغات سمیٹنے سے محروم رہ جاتا۔
یونیورسٹی آف سرگودھا کی عمر ابھی صرف بارہ برس ہے۔ اس کم عمری میں تو دانش گاہوں کی آنکھ بھی نہیں کھلتی لیکن یونیورسٹی کے جواں عزم وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری کی لگن اور ریاضت نے دیکھتے ہی دیکھتے اسے پاکستان کی صف اول کی دانش گاہوں میں لاکھڑا کیا ہے۔ تعلیمی، تحقیقی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں اس نے بڑی بڑی خرانٹ یونیورسٹیوں کو کوسوں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ابتدائی پانچ برس تک یہاں داخلہ لینے والے طلبا و طالبات کی تعداد صرف پانچ ہزار کے لگ بھگ تھی، لیکن گزشتہ چھ سالوں کے دوران یہ تعداد اٹھائیس ہزار تک جا پہنچی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بڑے شہروں سے ذرا ہٹ کر واقع اس مضافاتی یونیورسٹی میں زیر تعلیم طالبات کا تناسب 67 فی صد ہے۔ رئیس الجامعہ نے بریفنگ دیتے ہوئے لطیف انداز میں کہا کہ دراصل یہ خواتین کی یونیورسٹی ہے جہاں لڑکے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ وسیع و عریض آڈیٹوریم میں بھی کم و بیش یہی صنفی تناسب موجود تھا۔ اس وقت یونیورسٹی کی نو فیکلیٹیز میں 183 پروگرام پڑھائے جا رہے ہیں۔65پروگرام ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لئے مخصوص ہیں۔933اساتذہ میں سے 249 پی ایچ ڈی اور 208 ایم فل کی تعلیمی قابلیت کے حامل ہیں۔ ریسرچ پبلی کیشنز کی تعداد 500 تک پہنچ چکی ہے۔ یونیورسٹی آف سرگودھا کے ساتھ 421 تعلیمی اداروں کا الحاق ہے جب کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت لاہور، منڈی بہائو الدین، فیصل آباد (مرد و خواتین کیلئے الگ الگ) اور گوجرانوالہ میں سب کیمپس بھی کام کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی کے وسیع سائبانِ علم تلے، ایگری کلچر کالج، میڈیکل کالج، لا کالج اور انجینئرنگ کالج بھی علم و ہنر کی کاشت کر رہے ہیں۔
وائس چانسلر صاحب کے ساتھ ملاقات کے دوران میرے سامنے رکھی منرل واٹر کی بوتل پر ’’خوش آب‘‘ کا لیبل لگا تھا۔ میرے استفسار پر شیخ الجامعہ یونیورسٹی کی حدود میں قائم منرل واٹر پلانٹ لے گئے۔ پلانٹ کا پورا انتظام یونیورسٹی کے اساتذہ اور بچوں نے سنبھال رکھا ہے۔ اس وقت پلانٹ ایک لاکھ لیٹر پانی روزانہ تیار کر رہا ہے۔ پلانٹ کی استعداد اس سے خاصی زیادہ ہے۔ مارکیٹ کی نسبت کہیں کم قیمت پر دستیاب یہ منرل واٹر، پاکستان کوالٹی کنٹرول کا توثیق شدہ ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ اسی سال یہ پانی کویت اور ابوظبی برآمد کیا جانے لگے گا۔ رئیس الجامعہ نے بتایا کہ اس پلانٹ سے حاصل ہونے والا نفع یونیورسٹی کے مستحق طلبا و طالبات کی فیس معافی پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ 750 حفاظ قرآن کو بھی اسی مد سے ٹیوشن معافی کی رعایت دی جا رہی ہے۔ بین الاقوامی معیار کا خوبصورت طبی و تشخیصی سینٹر دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ ملک کی اعلیٰ طرح تشخیصی لیبارٹریز کے معیار کو چھونے والا یہ سینٹر یونیورسٹی کے ملازمین اور طلبا و طالبات کے علاوہ علاقے کے لوگوں کو بھی معیاری خدمات فراہم کر رہا ہے۔ ڈاکٹر شاہد اقبال، ڈاکٹر عامر علی اور ڈاکٹر شازیہ کی تحقیقی کاوشیں ایک پورے کالم کا تقاضا کرتی ہیں۔ خوشی ہوئی کہ یونیورسٹی میں قائم ریڈیو کی نشریات علاقے میں شوق سے سنی جاتی ہیں اور اسے ملنے والے اشتہارات 70 فی صد اخراجات کی کفالت کر رہے ہیں۔ تقریب کو ایک سیمینار کا عنوان دیا گیا تھا جس کا موضوع تھا ’’قائداعظم کا پاکستان اور نوجوان‘‘۔ جیسا کہ ہمارے ہاں دستور ہے، ہم میں سے کسی نے بھی اس موضوع کو لائق توجہ نہ سمجھا اور اپنی اپنی بھڑاس نکالتے رہے۔ میں نے نوجوانوں سے بس اس قدر کہا کہ اپنے آپ کو منفی سوچ اور یاسیت کے آسیب سے آزاد رکھیں۔ اپنی آنکھوں میں خواب سجائیں، اپنے دلوں میں چراغ آرزو روشن کریں اور اقبالؒ کی اس تلقین کو کبھی فراموش نہ کریں کہ
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
میں بابائے قوم کی اس تقریر کے کچھ اقتباسات ساتھ لے گیا تھا جو انہوں نے اپنی وفات سے صرف پانچ ماہ قبل 12؍اپریل 1948ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں کی تھی۔ وقت کی قلت اور پراچہ صاحب کی شدید گرفت کے باعث میں یہ اقتباسات بچوں کو نہ سنا سکا۔ قائد نے نوجوانوں سے کہا تھا۔
’’اب جب کہ ہم نے اپنی منزل پا لی ہے، آپ مجھ سے اس مشورے کی توقع رکھیں گے کہ ہم کس طریقے سے اپنی نوزائیدہ مملکت کو اپنی خواہش کے عین مطابق دنیا کی ایک عظیم ترین مملکت میں بدلنے کے بے حد مشکل اور اہم کام کو سر انجام دے سکتے ہیں۔ آپ کے کرنے کا پہلا کام اس شعور کا حصول ہے کہ آج جو مسائل درپیش ہیں انہیں حل کرنے اور اپنی آزادی کے دوران جن مسائل کا ہمیں سامنا تھا، ان سے نمٹنے کے انداز میں کیا فرق ہونا چاہئے۔ آپ نے اپنا کردار شاندار طریقے سے ادا کر دیا ہے۔ اب آپ نے اپنی منزل حاصل کرنی ہے۔ اب آپ کی اپنی حکومت ہے اور آپ کا اپنا ملک جس میں آپ آزاد انسانوں کی طرح رہ سکتے ہیں۔ اب آپ کی ذمہ داریوں نیز سیاسی، معاشرتی اور معاشی مسائل سے نمٹنے کا اسلوب بھی بدل جانا چاہئے۔ اب آپ کے فرائض کا تقاضا یہ ہے کہ اپ کو نظم و ضبط کا پختہ شعور، کردار، آگے بڑھنے کا جذبہ اور ٹھوس تعلیمی بنیاد مہیا ہو جائے۔ چنانچہ آپ کو لگن اور پوری دلجمعی کے ساتھ خود کو مطالعے کے لئے وقف کر دینا چاہئے کیونکہ یہ آپ کی اولیں ذمہ داری ہے اور آپ کی ذات، آپ کے والدین اور آپ کی مملکت اس ذمہ داری کے عہدہ برا ہونے کی آپ سے توقع رکھتے ہیں۔ آپ اطاعت شعاری سیکھئے کیونکہ اسی صورت میں آپ حکم دینا سیکھ سکتے ہیں‘‘۔
’’میں آپ کو خبردار کرتا چلوں کہ آپ کے عمل اور سرگرمیوں کی اساس غیر مصدقہ اطلاعات اور نعرہ بازی پر استوار نہیں ہونی چاہئے۔ ایسی چیزوں کو اپنے دل میں مت پالیئے اور طوطے کی طرح ان کی رٹ نہ لگائیے۔ اس وقت کا فائدہ اٹھائیے کہ جب یہ ادارہ آپ کو تربیت اور آئندہ نسل کی قیادت سنبھالنے کے لئے تیار کر رہا ہے۔ طلباء میں عام طور پر ایک خامی ہوتی ہے جس کے بارے میں آپ کو متنبہ کر دینا چاہتا ہوں۔ طلباء اس زعم میں رہتے ہیں کہ کوئی بھی شخص انہیں ایسی بات نہیں بتا سکتا جس کا انہیں پہلے سے علم نہیں ہو۔ یہ ذہنیت بڑی نقصان دہ ہے اور بسا وقت بہت بڑے فتنے کا سبب بنتی ہے۔ اگر آپ اپنے بزرگوں کے تجربے سے استفادہ کرنے کے بجائے اپنے تجربوں ہی سے سیکھنا چاہیں گے تو مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ جیسے جیسے آپ بڑے ہوتے جائیں گے، آپ اپنے مہنگے تجربوں کے باعث زیادہ پچھتاوا محسوس کریں گے اور عرصۂ حیات میں آپ کو جو ٹھوکریں لگ چکی ہوں گی، وہ آپ کے لئے تلافی کی گنجائش کم ہی چھوڑیں گی‘‘۔
’’مملکت کی جانب سے عائد کردہ فرائض ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے ذاتی اور صوبائی مفادات کو مشترکہ فلاح کی خاطر مشترک مقصد میں ضم کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ ریاستی ذمہ داریوں کو اولیت حاصل ہے۔ اس کے بعد صوبے، اپنے ضلع، اپنے قصبے، اپنے گائوں اور اپنی ذات کے تقاضوں کی باری آتی ہے۔ یاد رکھئے ہم ایک ایسی مملکت تعمیر کر رہے ہیں جو پورے عالم اسلام کی تقدیر سازی میں بھرپور کردار ادا کرے گی۔ اس لئے ہمیں زیادہ وسیع الذہن ہونے کی ضرورت ہے۔ ایسی نظر پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو صوبوں، محدود قوم پرستی اور نسل پرستی کی سرحدوں کو عبور کر جائے۔ ہمیں حب الوطنی کا ایسا شعور پیدا کرنا ہو گا جو ہمیں ایک ناقابل تسخیر قوم بنا دے۔ یہ وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنی منزل حاصل کر سکتے ہیں‘‘۔