ہو سکتا ہے کہ بہت کچھ ہو چکا ہو، لیکن سانحات کا مہیب تسلسل اب بھی جاری ہے۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس وقت قدم کس منزل کی طرف اٹھ رہے ہیں، اس سفر کا کیا نتیجہ نکلے گا اور ملک کو مزید کتنی تکلیف اٹھانا پڑے گی۔ غیر یقینی پن کی صورت حال سے ماحول پہلے ہی بوجھل ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس ستم زدہ قوم کے ساتھ ابھی کیا کچھ ہونا باقی ہے جب کہ اس وقت بھی یہ ایسے مسائل میں گھری ہوئی ہے جو اس کی سلامتی کیلئے خطرناک ہیں۔
یہ بات قابل فہم ہے کہ ہم ایک نگراں حکومت رکھتے ہیں جس کا آئین میں درج کام 90 روز میں انتخابات کرانا اور اقتدار مینڈیٹ حاصل کرنے والی حکومت کے حوالے کرنا ہے۔ تاہم موجودہ نگراں حکومت اس ضمن میں کچھ بھی کرتی دکھائی نہیں دے رہی۔ اس کی بجائے یہ ایسے کام کر رہی ہے جیسے یہ غیر معینہ مدت تک حکومت میں رہے گی، جب کہ انتخابات کے انعقاد کا کوئی شائبہ تک دکھائی نہیں دیتا۔ یہ دو صوبائی حکومتوں، پنجاب اور خیبر پختونخوا، کے نقش قدم پر چلتے دکھائی دے رہی ہے جو آئین کے تقاضے کے برعکس اپنی طے شدہ مدت سے کہیں زیادہ تجاوز کر چکی ہیں۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ تین ماہ کی تاخیر سے آیا۔ اس فیصلے میں ایسا کرنے والوں کو آئین کی پامالی کا مرتکب ٹھہرایا گیا، لیکن اُنھیں سزا نہیں سنائی۔ اسلئے عدالت عالیہ کی طرف سے غیر آئینی قرار دیے جانے کے باوجود وہ غیر قانونی طاقت اور اختیار دھڑلے سے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عدلیہ کو مکمل طور پر غیر متعلق کیا جا چکا۔ کئی ایک مثالیں ہیں کہ جب ملزمان کو ایک عدالت نے ضمانت دی تو سکیورٹی اہل کاروں نے کسی اور کیس میں فوراً گرفتار کر لیا۔ حتیٰ کہ ان کیسز میں بھی جن میں عدالتوں نے حکم دیا تھا کہ ان افراد کو گرفتار کرنے سے پہلے اس کی ہدایت درکار ہے، لیکن حکم نامے کو بھی کوئی خاطر میں نہیں لا رہا۔ زمینی حالات یہ ہیں کہ عدلیہ اپنی ساکھ یا اہمیت سے محروم ہو چکی ہے ۔
اس کے علاوہ دیگر ادارے بھی اپنے آئینی فرائض ادا کرنے سے معذور نظر آتے ہیں۔ وہ صاحبان اقتدار کی تابع داری کر رہے ہیں۔ دستور کی کتاب کے برعکس جو حکم اُنہیں ملتا ہے، وہ بجا لاتے ہیں۔ یہ اور کچھ دیگر عوامل انسان کو باور کرانےکیلئے کافی ہیں کہ پس پردہ قوتوں کے ذہن میں کیا ہے اور اس طرزعمل سے وہ دراصل کیا حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ رفتہ رفتہ، لیکن یقینی طور پر ہم آئینی راستے اور اس میں ملک اور اداروں کی فعالیت کیلئے درج رہنمائی سے دور ہٹ رہے ہیں۔ ہم نے جو راہ اپنائی ہے، وہ ہمیں ایسے بیابان میں لے جائے گی جو ان افراد کو راس آتا ہے جو خود کو قانون کے دائرے سے باہر سمجھتے ہیں۔ خطرناک بات یہ ہے کہ آمریت کے کلچر کی پیروی کرنے والا دھڑا تیزی سے پھیل رہا ہے اور پوری تندہی سےاس راہ پر گامزن ہے۔
اندھا پن عارضی بھی ہوسکتا ہے اور مستقل بھی۔ عارضی اندھا پن ذہن کی اُس حالت کی عکاسی کرتا ہے جہاں عقل اور منطق کا ہر گز کوئی اطلاق نہیں ہوتا، جب کہ مستقل اندھا پن جسمانی نقص ہے جو پیدائشی بھی ہو سکتا ہے اور کسی حادثے کی وجہ سے بھی۔ اول الذکر کی راہ تو انسان خود اپناتا ہے جب کہ موخر الذکر انسان کی جسمانی زندگی میں آنے والا ایک خلل ہو سکتا ہے۔ دونوں قسم کا نابینا پن دیگر امراض کا موجب بنتا ہے جو انسانی زندگی کے علاوہ اس کے بیرونی دنیا کے ساتھ روابط پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ہم ان میں کسی قسم کے مہلک عارضے میں مبتلا ہیں۔ کئی پیچ و خم رکھنے والی اندھی گلی میں بند ہیں، جب کہ بڑھتی ہوئی تاریکی یہاں سے بچ نکلنے کا ہر راستہ مسدود کرتی جا رہی ہے۔ اس حالت کا تصور کریں جس میں آئین کی توہین کی جا رہی ہو، قانون کی عملداری کو مذاق بنا دیا گیا ہو، ریاستی ادارے نادیدہ طاقتوں کی بلاچون و چرا اطاعت پر آمادہ ہوں جب کہ غربت زدہ عوام کو سفاکی اور بے رحمی سے زندگی کے مرکزی دھارے سے باہر دھکیلا جا رہا ہے۔
لیکن وہ وقت آ رہا ہے جب لاچاری کا دھکا انقلاب کا پہیہ متحرک کر دیتا ہے۔ فاقہ کشوں، مظلوم اور پسے ہوئے طبقات کے دل میں تبدیلی کی پھوٹنے والی چنگاری انقلاب کا شعلہ جوالہ بن کر اُن کے دست و باز و توانائی سے بھر دیتی ہے۔ پھر وہ جبر کی طاقتوں کے خلاف مل کر پوری استقامت اور حوصلے سے کھڑے ہوتے ہیں۔ عشروں کے مصائب کے ردعمل میں پیدا ہونے والا ارتعاش گہرے عزم کی منہ زور لہر بن جاتا ہے جس کے سامنے تباہی، تاریکی اور جبر کے بند خس و خاشاک ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ایک نیا دن طلوع ہوتا ہے، نئی زندگی گنگناتی ہے، نئی امید بانگ درا بن کر منزل کا پیغام دیتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ پاکستان تبدیلی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ عوام کو اشرافیہ کے حامی نظام کے ہاتھوں کئی طرح کے چرکے لگے ہیں۔ اُنھیں غلاموں کی طرح زندہ رہنے کا حق صرف اسی صورت حاصل ہے جب وہ چپ چاپ احکامات بجا لاتے رہیں۔ ایسا اُنھوں نے نسل در نسل کیا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات کے پھیلائو اور اپنی حالت کا گرد و پیش اور باقی دنیا کے ساتھ موازنہ کرنے سے نوجوان نسل میں بغاوت کے جراثیم پروان چڑھ رہے ہیں۔ اب وہ منصفانہ اور مساوی حقوق پر مبنی نظام کے قیام کے لئےجدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کی خوابیدہ توانائی اب انگڑائی لے کر بیدار ہو رہی ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا نوجوان ہو جو ان حالات سے متاثر نہ ہوا ہو۔ وہ اس تبدیلی کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئےکمر بستہ ہیں جو ان کی زندگی کیلئے امید اور امکانات کا پیغام لئے ہوئے ہے۔ تمام تر نامساعد حالات اور مشکلات کے باوجود وہ نعرہ مستانہ لگانے کیلئے پر عزم ہیں۔ ضروری ہے کہ عوام تاریک گڑھوں سے باہر نکلیں اور اُنھیں اپنی موجودگی کا احساس دلائیں جنھوں نے انھیں زمین کا کوڑا کرکٹ سمجھ رکھا تھا جسے کسی خوف اور خدشے کے بغیر کہیں بھی ٹھکانے لگایا جا سکتا تھا۔ تبدیلی کے یہی عناصر ہوتے ہیں ۔ ہم اپنی آنکھوں سے ان لمحات کے گواہ بننے جا رہے ہیں۔