(گزشتہ سے پیوستہ)
گورنمنٹ ہائوس (جسے اب گورنر ہائوس ) کہا جاتا ہے ایک تاریخی ورثہ ہے اور یہ مال روڈ کی خوبصورت ترین عمارت ہے ۔اس کے فن تعمیر میں آدھی عمارت گوروں کی اور آدھی سکھوں کی تعمیر کردہ ہے سکھوں کی عمارت میں پانی کے پرنالوں پر شیر بنے ہوئے ہیں اور گوروں کے پرنالے لوہے کے خوبصورت انداز کے ہیں یہ لاہورکی ایسی عمارت ہے جو سکھوں اور انگریزوں دونوں کی تعمیر کا حسیں امتزاج ہے۔اس عمارت کو کبھی کشتی والا گنبد کہا جاتا تھا ۔قصہ کچھ یوں ہے کہ اس عمارت میں محمد قاسم خاں جو کہ اکبر بادشاہ کا ماموں زاد بھائی تھا اس کا مقبرہ تھاجو آج بھی موجود ہے ۔محمد قاسم خاں کو کشتیاں کرانے کا بہت شوق تھا وہ لاہور کے پہلوانوں کی بہت سرپرستی بھی کیا کرتا تھا۔محمد قاسم خاں، شاہ جہاں کے عہد تک زندہ رہا اور بڑے زور وشور سے کشتیاں کراتا رہا۔چنانچہ یہ جگہ کشتی والا گنبد کے نام سے مشہور ہو گئی ۔جب گوروں نے یہ عمارت خوشحال سنگھ سے حاصل کرلی تو کرنل ہائیڈنے اس تاریخی عمارت کو مسجد وزیر خاں کی طرز پر خوبصورت بنانے کا منصوبہ بنایا ۔گورنر ہائوس کے اندر دیواروں اور بعض چھتوں پر مسجد وزیر خاں کی طرح کی نقش نگاری کی گئی ہے، گورنر ہائوس کی قدیم خوبصورتی کا سہرا کرنل ہائیڈ کے سر جاتا ہے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک گورا مسجد وزیر خاں کے اندر جو خوبصورت نقش ونگاری ہے اس سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے گورنر ہائوس (گورنمنٹ ہائوس) کے اندر بھی اس طرز پر یہ کام کرادیا ۔گورنر ہائوس کے ڈرائنگ روم کے ساتھ جو کھانے کا کمرہ ہے اس کے اندر ویسے بہت خوبصورت رنگوں کے نقش ونگار ،بیل بوٹے اور فریسکو کا کام ہوا ہے لیکن ایک بات کا افسوس ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جو بعض گورنر آئے انہوں نے اس گورنر ہائوس کے بعض کمروں کی تاریخی اور خوبصورت چھتوں کو تبدیل کرکے فال سیلنگ کرا دی ہے ۔
امیدہے کہ موجودہ گورنر پنجاب انجینئر محمد بلیغ الرحمن اس تاریخی ورثہ کو نا صرف محفوظ کریں گے بلکہ اس کے اصل تعمیراتی حسن کے ساتھ بحال کریں گےاور وہ جس طرح لاہور شہر کے لوگوں کو گورنر ہائوس عوام کو دکھانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں اس میں اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا جائےگا کہ اس تاریخی ورثہ کو کوئی نقصان نہ پہنچ پائے ۔پی ٹی ا ٓئی کی حکومت نے گورنر ہائوس کو جس طرح بغیر کسی ضابطے اور طریقہ کار کے عوام کے لئے کھول کر اس تاریخی ورثہ کو نقصان پہنچایا وہ بھی ہمیشہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا گورنر ہائوس کے اندر دربار کا لکڑی کا فرش اور اس ہال کے اندر لکڑی کا کام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی لکڑی بالکونی کیا خوبصورت وڈ ورک ہے کبھی گورنر ہائوس کا اپنا بینڈہوا کرتا تھا گورنر کی آمد پر بگل آج بھی بجایا جاتا ہے ۔مگر دربار ہال کا فرنیچر کسی طور بھی دربار ہال کے ساتھ میچ نہیں کرتا دربار ہال کی کرسیاں اور دیگر فرنیچر اس تاریخی ہال کی خوبصورتی میں بالکل اچھا تاثر اور امیج پیدا نہیں کرتا ماضی میں کبھی یہاں پر لکڑی کے بیدوالی انتہائی خوبصورت کرسیاں ہوا کرتی تھیں دربار ہال میں لگی کئی گورنروں کی تصاویر کو اب بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔گورنمنٹ ہائوس کے ارد گرد جو ایک تاریخی کوٹھی اور جگہ تھی وہاں 1848ء میں میجر میک گریگر نے بھی رہائش کبھی رکھی تھی یہ وہی میجر میک گریگر ہیں جو لاہور کے ڈائریکٹر آف پولیس تھے جس کے گھوڑے کی لگام ایک ذہنی مریضہ نے لاہور کی ایک سڑک پر کھینچی تھی جس کے نتیجے میں لاہور میں پاگل خانے یعنی ذہنی مریضوں کی پناہ گاہ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ہمیں یاد ہے جب ہم آج سے چالیس/پچاس سال قبل گورنر ہائوس جایا کرتے تھے تو گورنر ہائوس کی کسی بھی کھڑکی پر کوئی بلائنڈ پیپر یا بدنما قسم کے پردے نہیں تھے اب پتہ نہیں کس کے کہنے پر اور کیوں گورنر ہائوس کی کھڑکیوں پرسفید گڈی کاغذ چسپاں کر دیاگیا ہے۔حالانکہ اس کے سفید شیشے بہت خوبصورت لگتے تھے ہم جب گورنر ہائوس کے کنٹرولر کے کمرے میں گئے تو ہمارا خیال تھا یہ کمرہ کیونکہ کنٹرولر گورنر ہائوس کا ہے یہاں پر کچھ پرانی چیزیں اور دیگر اشیاء بڑی ترتیب کے ساتھ رکھی ہوں گی مگر بڑا افسوس ہوا کمرہ بڑا بے ترتیب تھا جہاں کوئی سلیقہ دکھائی نہیں دیا ۔گورنر ہائوس کا فرنٹ تو بہت صاف ستھرا اور دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جبکہ عقب میں جہاں قاسم خاں کا مقبرہ ہے وہاں کافی ٹوٹا ہوا فرنیچر اور خراب سامان پڑا ہوا ہے جس سے کوئی اچھا تاثر نہیں پڑتا۔گورنر ہائوس کی جو شکل سکھوں اور انگریزوں کے دور میںتھی آج اس میں کافی حد تک تبدیلی آ چکی ہے گورنمنٹ ہائوس کا نام 1892ء میں گورنر ہائوس کر دیا گیا۔اس کے اندر ایک خوبصورت پہاڑی ہے جو واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، یہ پہاڑی کوئی70/80 فٹ بلندہے یہاں بڑے خو بصو ر ت اور نایاب درخت ہیں حتیٰ کہ اخروٹ کا اکلوتا درخت ہے جہاں آج بھی اخروٹ لگتے ہیں لاہور میں کئی پھل کے درخت اب نایاب یا بالکل ختم ہو چکے ہیں اس پہاڑی کی جگہ پر کبھی اینٹوں کا بھٹہ تھا اب یہ نہیں معلوم کہ یہ بھٹہ وہی بھٹہ تھا جس کا ذکر مغلوں کی تاریخ میں ملتا ہے کہ بدھو کا آوا یا پھر کوئی بھٹہ تھا۔یہ لاہور کی سب سے بڑی پہاڑی ہے جو چار ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ گورنر ہائوس اپنے قیام سے 1903تک بجلی سے محروم رہا 1903میں برقی پنکھے لگائے گئے گورنر ہائوس کی پہاڑی پر ایک بہت بڑا واٹر ٹینک تھا جہاں سے گورنر ہائوس اور اس کی پہاڑی کو کبھی سراب کیا جاتا تھا اب یہ واٹر ٹینک جو زمین سے کم از کم 70/80فٹ بلندی پر تھا خراب ہو چکا ہے ہمیں آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ ہمارے ہاں جب بھی کوئی پرانی ، تاریخی یا قدیم چیز خراب ہو جاتی ہے ہم اس کو ٹھیک کرانے کی زحمت کیوں نہیں کرتے آج بھی گورنر ہائوس میں کئی ایسی اشیاء ہیں جن کو مرمت کرکے استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔گورنر ہائوس کے اندر ایک بڑی اور دو چھوٹی توپیں بھی ہیں ایک توپ تو مہاراجہ پٹیالہ نے دی ہے مہاراجہ پٹیالہ نے لاہور کو کئی چیزیں عطیہ کی ہیں حتیٰ کہ انہوں نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی ) کا پٹیالہ بلاک تک تعمیر کیا اس کے بارے میں بھی کبھی بتائیں گے۔
آج گورنر ہائوس میں ہر کمرے میں اے سی ہے لیکن 1903ء تک جبکہ گورے یہاں رہتے تھے کوئی اے سی نہیں تھا پھر جب بجلی آئی تو صرف پنکھوں سے کام چلایا جاتا رہا۔ سوال یہ ہے کہ آخر آج کیا ہم اس گورنر ہائوس کو بغیر اےسی کے استعمال کرسکتے ہیں ؟(جاری ہے)