• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرانی بات ہے حاضرین تھے مگر خاموشی تھی کہ واصف علی واصف بولے’’سوچنے والوں کی دنیا، دنیا والوں کی سوچ سے مختلف ہوتی ہے‘‘۔ اس کے چند برس بعد واصف علی واصف جہان فانی سے کوچ کر گئے۔وقت گزرتا گیا، کئی برس بیت گئے مگر دنیائے ہست و بود میں ہماری روش نہیں بدلی۔ کتنے ماہ و سال کے بعد وقت ہمیں اس مقام پر لے آیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں زندگیاں پالنا مشکل ہو گیا ہے۔ ہر طرف لا قانونیت بکھری پڑی ہے، اندھے ظلم کے سامنے مظلوم بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ زندگی کاہش جاں بنی ہوئی ہے۔ مشکلات کے بھنور میں غربت و افلاس کے ہچکولوں کے سوا کچھ نہیں۔ پورے سماج میں خوف و ہراس ہے۔ میرے کچھ ہم وطن تیزی سے دوسرے ملکوں کو جا رہے ہیں مگر میرے ہم وطنوں کی اکثریت دھرتی پہ بھوک کے تھپیڑوں کا سامنا کر رہی ہے۔ وطن میں بے یقینی دیکھ کر دکھ ہوتا ہے، دکھ کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وطن سے محبت ایمان کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ جن لوگوں نے وطن کو لوٹا اور پھر لوٹ مار کا پیسہ بیرون ملک لے گئے، وہ ایمان کی اس نشانی پر پورا نہیں اترتے۔ میرے نزدیک لوٹ مار کر کے وطن سے پیسہ لے جانا ملک دشمنی کے سوا اور کچھ نہیں۔ ہم نے بحیثیت قوم ایسے ایسے جرائم کئے ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہم نے سرکاری و غیر سرکاری طور پر کرپشن کے ایندھن سے گھر چلانے کی کوشش کی۔ ہم حلال حرام کی تمیز بھول گئے۔ ہمارا کوئی ادارہ ایسا نہیں جس میں کرپشن کا زہر نہ ہو، ہمارے رہنماؤں کا تو رہنما اصول ہی کرپشن ہے۔ ہمارے صنعتکار، ہماری اشرافیہ ٹیکس چور ہیں، بجلی اور گیس چور ہیں۔ ہمارا تاجر سارا سال بد دیانتی کرتا ہے، کچھ جرائم ایسے بھی ہیں جو یہاں لکھے نہیں جا سکتے۔ کیا میں لوگوں کو سینکڑوں بچوں کا قاتل جاوید اقبال یاد کرواؤں یا قصور میں بچوں پر ظلم یاد کرواؤں؟ سانحہ ماڈل ٹاؤن یاد کرواؤں یا سانحہ بلدیہ ٹاؤن؟ ہمارے انتظامی ڈھانچے میں کرپشن معمول کی کارروائی ہے، یہاں ہر طرف مافیا کا راج ہے۔ لوگ یہ بھول گئے کہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے قاتل چار تھے مگر عذاب پوری قوم کو بھگتنا پڑا۔ میں اپنی قوم کو دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ میں کسی قوم کو کسی ایک جرم پر عذاب سہنا پڑا تو کسی دوسری قوم کو کسی دوسرے جرم میں عذاب میں مبتلا ہونا پڑا۔ وہ تمام جرائم ہماری قوم میں موجود ہیں۔ ہمارے معاشرے میں جھوٹ عام ہے، ملاوٹ اتنی ہے کہ دوائیاں بھی خالص نہیں ملتیں، ہر طرف پیسے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ میرا ملک ایک ایک ارب ڈالر کو ترس رہا ہے اور میرے ملک کو لوٹنے والے سیاستدانوں، سرکاری افسروں اور کاروباری افراد کے اربوں ڈالر بیرونی دنیا میں پڑے ہوئے ہیں۔ اگر ان کو وطن سے محبت تھی تو یہ لوٹ کر کیوں لے گئے اور اگر ان کو وطن سے محبت ہے تو یہ لوٹی ہوئی دولت واپس کیوں نہیں لے آتے؟ شاید یہ ہمارے اجتماعی گناہوں کا نتیجہ ہے کہ ہم پر برسوں سے ایسے حکمران مسلط ہیں جنہیں ذاتی مفاد سے فرصت ہی نہیں۔ میں وقت کے آئینے میں دیکھتا ہوں تو حضرت علی ؓکا فرمان بہت یاد آتا ہے کہ’’آخری زمانے کے لوگ بھیڑیے ہوں گے اور حکمران درندے۔ درمیانی طبقہ کھا پی کر مست رہنے والوں میں شامل ہو گا اور غریب بالکل نادار اور مفلس ہوں گے۔ سچائی دب جائے گی، جھوٹ ابھر آئے گا۔ محبت صرف زبانوں تک محدود رہ جائے گی۔ لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے کشیدگی ہو گی۔ عفت و پاکدامنی نرالی سمجھی جائے گی اور اسلام کا لبادہ پوستین کی طرح الٹا اوڑھا جائے گا۔‘‘ ہمارے ملک میں کون سی کمی ہے، یہاں پہاڑ ہیں، دریا، وادیاں، چشمے اور ندی نالے ہیں، لہلہاتے کھیت، میدان اور ریگستان ہیں، ساڑھے گیارہ سو کلومیٹر سے زائد ساحلی پٹی ہے۔ قدرتی طور پر دنیا کی گہری بندرگاہ گوادر کے روپ میں ہے۔ پورے پاکستان میں قدرت نے زیر زمین بے شمار خزانے رکھے ہیں۔ ہمارے پھل، ہماری فصلیں شاندار ہیں پھر یہاں مسائل کیوں ہیں؟ حیرت ہے گنے کی پیداوار میں جس ملک کا پانچواں نمبر ہے وہاں لوگ سستی چینی کو ترس رہے ہیں۔ گندم کی کاشت میں جس ملک کا آٹھواں نمبر ہے وہاں لوگ سستی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ جو ملک چاول کی پیداوار میں دسویں نمبر پر ہے وہاں چاول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ جو ملک کپاس کی پیداوار میں چوتھے نمبر پر ہے وہاں بہت سی بستیوں میں لوگوں کے لئے تن ڈھانپنا مشکل ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس پیارے وطن کے گرد کوئی اژدھا لپٹا ہو، یہ اژدھا دراصل مافیا اور اشرافیہ ہے۔ اللہ کرے اس اژدھا سے ہماری جان چھوٹ جائے۔ ہمیں بحیثیت قوم اللہ تعالیٰ سے اپنی اجتماعی کوتاہیوں کی معافی مانگنی چاہئے۔ آئیے! خدائے لم یزل کے ہاں گڑ گڑا کر معافی مانگیں۔ جس دن خالق کائنات نے معاف کر دیا ہمارے راستے سیدھے ہو جائیں گے، ہماری منزلیں آسان ہو جائیں گی۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہم ایک دوسرے سے یہی پوچھتے رہیں گے کہ مرشد کسے بتائیں کہ دھوکہ کہاں ہوا مرشد سوال کس سے کریں یہ سوال ہے مرشد ہر اک سو لوٹ مار کا میلہ سا سج گیا مرشد وطن کی کیسی تری دیکھ بھال ہے۔

تازہ ترین