• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے معاشی سیاسی اور معاشرتی حالات تاریخ کی بدترین سطح تک پہنچ چکے ہیں ۔شدید ترین مہنگائی نے ہر شخص کو معاشی اور ذہنی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔ عام آدمی تو دورکی بات کہ وہ بے روزگاری، بجلی، پٹرول اور یوٹیلیٹی بلز کے چکر میں پھنس کے رہ چکا ہے، ایلیٹ کلاس تک کو پہلی بار تلملاتے ہوئے دیکھا جا رہاہے۔ سیاسی انفرادی اور معاشی مستقبل بے یقینی کے اندھیروں میں گھِرا ہے۔ مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کیلئے روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔جب مستقبل غیر یقینی کا شکار ہواور امید کی کوئی کرن نظر نہ آتی ہو تو کنفیوژن جنم لیتی ہے جو ڈپریشن کا باعث بنتی ہے اور ڈپریشن مایوسی کا۔ان حالات میں جب میں امید یا بہتری کی کوئی بات کرتا ہوں تو پڑھنے سننے والے حیرانی سے مجھے دیکھتے ہیں۔ اصل میں ہر چیز کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہوتے ہیں۔ منفی پہلو کتنے ہی ہولناک، تباہ کن یا پریشان کن کیوں نہ ہوں مثبت پہلو نظر اندازنہیں کئے جا سکتے، میں عموماً مثبت پہلوئوں پرزیادہ غور وخوض کرتا ہوںجب نگیٹویٹی ہو تو وہ اتنی تیزی سے پھیلتی ہے کہ پازیٹویٹی نظر ہی نہیں آتی عام آدمی پازیٹویٹی پر یقین تب تک نہیں کرتا جب تک اسے وہ واضح طور پر نظر نہ آجائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی حالات کے بگاڑ نے معاشی بحران کوبد سے بد ترین حالات تک پہنچا دیا۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط ، ڈالر کی اونچی اُڑان اور پٹرول کی قیمتوں میں ہوئے ہوش رُبا اضافے کے باعث ہونے والی شدیدمہنگائی نے ہر کسی کو بلبلانے پر مجبور کر دیا ہے۔ خطئ کے تمام ممالک میں پاکستان کی پوزیشن سب سے ابتر ہے یہاں تک کہ بنگلہ دیش اور افغانستان تک میں ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی اور معیشت مستحکم ہے۔آزادی کے بعد سے ہندوستان کے ساتھ ہماری دشمنی اورمعاشی مسابقت چلی آ رہی ہے۔ ایسے میں افغانستان کے مستحکم ہوتے حالات اور ہندوستان کی تیزی سے فروغ پاتی معیشت نے اس مجموعی قومی مایوسی اور ڈپریشن میںمزید اضافہ کیا ہے۔ بھارتی وزیرِ اعظم مودی کے دورہ امریکہ میں امریکی حکام نے بھارت کو اہم ترین اسٹرٹیجک پارٹنر کے طور پرغیر معمولی اہمیت دی جسے دنیا بھر نے نوٹس کیا۔ جبکہ انڈین زرِ مبادلہ کے کثیر ذخائر کے مقابلے میں پاکستان کی معاشی ابتری کا موازنہ کرتے ہوئے پاکستانی احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں جو ایسا بے جا بھی نہیں۔امریکہ گزشتہ چند سال سے ڈائون فال کا شکار ہے ،جو کسی نہ کسی طور چین کا راستہ روکنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، وہ سفارتی معاشی اورسیاسی سطح پر ہر وہ اقدام اٹھا رہا ہے جس سے چین کیلئے رکاوٹیں پیدا کی جا سکیں لیکن یوکرین روس جنگ نے اس کی ان کوششوں پرپانی پھیر دیا ۔ امریکہ نے خود اور نیٹو کے ذریعے یوکرین کی بھرپور مالی اور حربی مدد کی جبکہ روس کی امدادکیلئے چین بھی سامنے آ گیا ۔ دوسری جانب چین، سعودی عرب، پاکستان ،ایران، روس ، افغانستان پر مشتمل نیا بلاک اور برِکس کا بڑھتا اثرو رسوخ بھی امریکہ کیلئے دردِ سر بنا ہواہے۔ اس کے باوجود کہ پاکستان کی نسبت امریکہ انڈیا کا اسٹرٹیجک پارٹنر بن چکا ہے جس کی وجہ سے پاکستان پس منظر میں چلا گیا ہے لیکن موجودہ عالمی سیاسی صورتحال اور پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کے باعث امریکہ پاکستان کو بھی گنوانا نہیں چاہتا یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان سے بھی بہتر تعلقات رکھنے کا خواہاںہے۔ پاکستان میں امریکن ایمبیسیزکی طرف سے کئے گئے مختلف کاموں کی سوشل میڈیا پر پرموشن کر کے پاکستانی عوام کے دلوں میں امریکہ کے حوالے سے نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوششوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ آج تک پاکستان اپنی جغرافیائی پوزیشن کے باعث ہی عالمی سیاست میں استعمال ہوتا آیا ہے اب یہی جغرافیائی اہمیت پاکستان کے بہتر مستقبل کی نوید ہے۔اسی جغرافیائی اہمیت کے باعث ابھرتی ہوئی معاشی عالمی سپر پاور چین پاکستان سے جڑے اپنے دیرینہ مفادات کے باعث کسی طرح بھی پاکستان کو امریکہ اور بھارت جیسے حریفوں کے ہوتے ہوئے اکیلا نہیں چھوڑ سکتی ،اس کی ایک واضح مثال چین کا چاہ بہار پورٹ کے حوالے سے ایران سے تعلقات کو مستحکم کرنا اور ایران سعودی عرب مفاہمت میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔پاکستان میںآنے والے دنوں میں بالآخر سیاسی عمل کو دوبارہ شروع ہونا ہے، جب سیاسی سرگرمیاں بحال ہوں گی عوام کی منتخب حکومت اقتدار حاصل کر لے گی تو سیاسی استحکام معاشی ترقی کا باعث بنے گا۔ اگرچہ مایوسی کا دورانیہ بہت طویل ہوچکا ہے جو کورونا کے بعد سے جاری ہے اب حالات جس بُری سطح پر پہنچ چکے ہیںشاید اس سے بھی بدتر ہو جائیںلیکن بدترین حالات کے بعد بہتری ہی ہونا ہوتی ہے ۔جب طویل ترین مایوسی اور بُرے حالات کے بعد بہتری کا کوئی موقع آتا ہے تو شدید مایوسی کے بعد ملنے والے مواقع سے ہر کوئی بھرپور فائدہ اٹھا تا ہے میں اس لئے پرُ امید ہوں کہ حالات کی اس شدید خرابی کے بعد بھی رائزنگ سپر پاور چین کے پاکستان سے بنیادی مفادات وابستہ ہیں جس کی وجہ سے وہ پاکستان کو نظر انداز نہیں کرے گا، پاکستان کی جغرافیائی لوکیشن کے باعث اسے ترقی کے کئی مواقع میسر آئیں گے چین کے وسعت پسند نظریے میں پاکستان کی بنیادی اہمیت کی اور نادیدہ بیرونی عوامل کی بدولت بہت سے بہتر مواقع میسر آئیں گے جو پاکستان کی محرومیوں اور مایوسیوں میں گھرے عوام کیلئے بالکل غیر متوقع اور غیر یقینی ہوں گے۔ غار کی دوسری طرف امید کی روشنی اب بھی موجود ہے جو ہمیں شدید مایوسی کے باعث نظر نہیں آ رہی اس لئے ہم یقین کرنے کو تیار نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان بُرے حالات کے باوجود میں یہ نہیں سمجھتا کہ پاکستان کو چھوڑ کر جانے میں عافیت ہے۔ پاکستان اپنے بے پناہ ٹیلنٹ، قدرتی وسائل اور جغرافیائی اہمیت کی بدولت آج بھی بہترین مواقع کا حامل ملک ہے۔ ابھرتی معاشی عالمی قوت چین کے ساتھ دیرینہ تعلقات ،پاکستان اور چین کے ایک دوسرے سے وابستہ مفادات اور نئے بننے والے اتحادی بلاک میں پاکستان کے اہم کردار کے باعث مجھے آنے والے دن اس مایوس کن صورتحال سے یکسر مختلف نظر آتے ہیں۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین