’’پرویز مشرف صاحب کے ساتھ یہ نشست دوپہر دو بجے شروع ہوئی اور شام سات بجے تک جاری رہی۔ ملاقات میں ان کا کل سیاسی اثاثہ یعنی بیرسٹر محمد علی سیف‘ چوہدری فواد‘ بریگیڈیئر(ر) ضامن‘ ڈاکٹر امجد اور خرم شہزاد اور جم چوہدری صاحب بھی موجود تھے۔ میری پچھلی ملاقات کے برعکس اب کے بار جنرل صاحب ڈیپریس نہیں بلکہ تروتازہ تھے۔ وہ سیاست کرنے اور 23 مارچ 2012ء کو پاکستان آنے پر مصر تھے جبکہ ہم ان کو سیاست سے باز آنے اور پاکستان واپسی کی غلطی نہ کرنے کا کہہ رہے تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں خلاء ہے‘ پاکستانی عوام اسٹیٹس کو کی قوتوں (زرداری اور نوازشریف) سے بیزار ہیں اور تیسری قوت (یعنی پرویز مشرف) کی راہ تک رہے ہیں۔ وہ میڈیا کے رویّے سے اس بنا پر خفا تھے کہ وہ ان کے بقول اسٹیٹس کو کی علمبردار قوتوں کو سپورٹ اور ان جیسے ’’انقلابی‘‘ کا راستہ روک رہا ہے۔ وہ مطالبہ کررہے تھے کہ میڈیا کو ان کے ’’انقلاب‘‘ کی راہ میں رکاوٹ بننے کے بجائے تعاون کرنا چاہئے۔ باری آئی تو میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ جنرل صاحب!... اگر ہم آنکھیں بند کرکے تھوڑی دیر کے لئے آپ کو اسٹیٹس کو توڑنے والا مان لیں تو بھی آپ کے لئے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں۔ وہ بتارہے تھے کہ جب وہ امریکہ‘ یورپ اور عرب دنیا سے اپنے ہزاروں پرستاروں کے ساتھ پاکستان آئیں گے اور وہاں پر لاکھوں لوگ ان کا استقبال کریں گے تو جگہ خود بخود بن جائے گی۔ جس کے جواب میں‘ میں نے عرض کیا کہ پرستار تو نہیں البتہ ان کے قتل کے درپے لوگ ہزاروں کی تعداد میں بے تابی سے استقبال کرنا چاہیں گے۔ القاعدہ اور طالبان کا ہر گروپ یہ کوشش کرے گا کہ پہل وہ کرے اور یہ سعادت اسے نصیب ہو جائے۔ وہ کہنے لگے کہ میں اپنی سیکورٹی کا اپنا بھی بندوبست کروں گا اور مجھے امید ہے کہ حکومت بھی مجھے سیکورٹی فراہم کرے گی۔ میں نے عرض کیا کہ جنرل صاحب! ماضی میں آپ فوج کی سیکورٹی کی وجہ سے بچے رہے۔ اس وقت کے عسکریت پسندوں نے جو طریقے ایجاد کئے ہیں‘ ان سے آپ کو رحمٰن ملک کی سیکورٹی نہیں بچاسکتی۔ مزید عرض کیا کہ جنرل صاحب دایاں بازو آپ کا دشمن ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ آپ نے امریکہ کے کہنے پر سب کچھ دائو پر لگادیا اور بایاں بازو آپ پر برہم ہے کہ آپ نے ڈبل گیم سے کام لے کر ملک میں مذہبی انتہاپسندی کو رواج دیا پھر ان پانچ بندوں کے سوا پاکستان میں آپ کے ساتھ کون ہے اور آپ کس لئے آرہے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ میری زندگی پاکستان کے لئے وقف ہے‘ پاکستان مجھے بلارہا ہے اور پاکستان کو میری ضرورت ہے‘ اس لئے میں ضرور آئوں گا۔یوں بھی مجھے پنگا لینے میں مزا آتا ہے۔ عرض کیا کہ جنرل صاحب یہ کونسا پاکستان ہے جو آپ کو بلا رہا ہے‘ ہمیں تو پاکستان میں ان پانچ بندوں کے سوا آپ کا کوئی حامی نظر نہیں آرہا؟ چوہدری برادران تو کیا‘ وہ ریٹائرڈ جرنیل بھی آج آپ کے مخالف ہیں جن کو آپ نے اپنے دور میں خوب نوازا۔ انہوں نے اخبار میں چھپنے والی دبئی کی ایک عیدملن پارٹی کی تصویر دکھائی اور کہا کہ یہ دیکھو سلیم! کتنے لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں پھر بیرسٹر محمد علی سیف کو حکم دیا کہ وہ تنظیم سازی کا رجسٹر لے آئیں ۔ اس رجسٹر سے انہوں نے مختلف شہروں اور وہاں پر اپنے عہدیداروں کے نام بتانے شروع کردیئے۔ میں نے گستاخی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ جنرل صاحب کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بیرسٹر سیف آپ کو دھوکہ دے رہا ہو۔ ہوسکتا ہے ناموں کی یہ فہرست انہوں نے اسلام آباد میں بیٹھ کر تیار کی ہو۔ اس پر انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ نہیں سلیم! ایسی بات نہیں، میں خود ان لوگوں کو فون کرتا اور کنفرم کرتا ہوں کہ واقعی وہ میرے ساتھ ہیں یا نہیں۔ جنرل صاحب موجودہ حکومت کی ناکامیوں کی تفصیل بیان اور حالات کی ابتری کا تذکرہ کر کے اپنی کامیابی اور وطن واپسی کا بار بار جواز پیش کرنے لگے تو میں نے بصدادب و احترام عرض کیا کہ جی جنرل صاحب آپ نے یہ ایک کام بڑی ہوشیاری والا کیا کہ اپنے بعد آصف علی زرداری کو لے آئے۔ آپ نے سوچا تھا کہ میں ایسے بندے کو لے آئوں کہ اس کے ’’کارناموں‘‘ کو دیکھ کر لوگ آپ کو بخش دیں۔ یہ چال آپ کی کامیاب رہی لیکن مشہور ہونا الگ بات ہے اور سیاست میں کامیاب ہونا دوسری الگ۔ یوں تو ہم سے بھی لوگ آٹو گراف لے لیتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ ہمیں ووٹ دیں گے یا پھر ہمیں سیاسی لیڈر مان جائیں گے...ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) سے ان کا انتخابی اتحاد نہیں ہوسکتا لیکن ایم کیوایم اور تحریک انصاف سے اتحاد کا امکان ہے۔ تحریک انصاف کے تذکرے سے مجھے شرارت سوجھی اور ان سے پوچھا کہ کیا واقعی آپ نے عمران خان صاحب کو کتے کا تحفہ دیا ہوا ہے تو جنرل صاحب نے کہا کہ ہاں، ان کے پاس میراہی کتا ہے اور میں نے ہی دیا ہوا ہے ... پھر انہوں نے ساتھ بیٹھے ہوئے جم چوہدری صاحب کو اشارہ کیا کہ سلیم !یہ عمران خان کے بڑے دوست ہیں ان سے پوچھ لیں کہ کتا میں نے دیا ہے یا نہیں ؟ جم صاحب نے اثبات میں سرہلایا تومشرف صاحب کہنے لگے کہ وہ بہت اچھا کتا ہے اور عمران خان نے اس کا نام بھی بڑا اچھا رکھا ہے لیکن میں بھول گیا ہوں۔ اس پر جم صاحب نے انہیں یاد دلایا کہ جی سر،اس کا نام عمران خان نے شیرو رکھا ہے۔ اس پر پرویز مشرف صاحب نے کہا کہ اب تو ماشاء اللہ شیرو کافی بڑا ہوگیا ہے ۔پانچ گھنٹے کی اس طویل مگر دلچسپ نشست سے فارغ ہوکر ہم رخصت ہوئے تو ان کے فلیٹ سے متصل برج خلیفہ کے بلند وبالا ٹاور کو دیکھتے ہوئے میں اپنے آپ سے کہہ رہا تھا کہ شیرو بھی بڑا ہو گیا لیکن افسوس کہ شیرو دینے والا اور شیرو لینے والا سیاسی سوچ کے حوالے سے اب بھی بڑے نہیں ہوسکے۔ نہ جانے وہ کب بڑے ہوں گے؟‘‘ یہ اقتباس میرے اس کالم کا ہے جو اکتوبر 2011ء میں دبئی میں پرویز مشرف صاحب کے ساتھ ہم چند اینکرز کی ملاقات کے بعد اس طالب علم نے لکھا تھا اور جو 5اکتوبر 2001ء کو ’’شیرو بڑا ہوگیا مگر...‘‘ کے زیرعنوان شائع ہوا تھا۔ صرف مجھ جیسے طالب علموں نے نہیں بلکہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی سمیت سیکڑوں بہی خواہوں نے انہیں پاکستان نہ آنے کا مشورہ دیا لیکن وہ پھر بھی چلے آئے۔ نتیجتاً آج خود بھی مصیبت میں پھنسے ہیں‘ فوج کو بھی پھنسا دیا ہے‘ حکومت کو بھی اور پوری قوم کو بھی۔ اسی لئے تو میرا اصرار ہے کہ اصل بیماری دل کی نہیں‘ دماغ کی ہے اور اے ایف آئی سی میں داخل کرانے کے بجائے انہیں ماہر نفسیات کے پاس لے جانا چاہئے۔ المیہ یہ ہے کہ انہوں نے وکیل بھی احمد رضاقصوری جیسا رکھا ہے جن کی دماغ کا خلل گزشتہ روز صحافیوں کے ساتھ رویّے سے ایک بار پھر واضح ہوگیا۔ پرویز مشرف صاحب کے سرپرست اور بہی خواہ اگر انہیں اور ان کے وکیلِ اعظم (قصوری صاحب ) کے دماغی خلل کی فکر کرلیں تو شاید مسئلہ حل ہوجائے۔