• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال ریٹائر ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اس منصب جلیلہ پر فائز ہوتے ہی ان سے قوم نےبہت سی توقعات وابستہ کر لی ہیں کیونکہ ان کی شہرت ایک ایسے جج کی ہے جو نہ صرف آئین کی پاسداری کرتے ہیں بلکہ آئین کی بنیادی روح کو بھی سمجھتے ہیں اور ان پر کوئی اثر انداز بھی نہیں ہو سکتا ۔

بحیثیت قوم ہمارا عظیم المیہ یہ رہا کہ ہماری عدلیہ کی تاریخ قابل فخر نہیں رہی ، جس کی وجہ سے ہم عظیم بحرانوں کا شکار ہیں ۔ چیف جسٹس (ر) عمر عطا بندیال کا دور ختم ہو گیا ہے ۔ بدقسمتی سے ان کے دور میں بھی ہماری عدلیہ کے ناقابل فخر کردار کا عمومی تاثر نہ صرف یہ کہ ختم یا کم نہیں ہوا بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے فیصلوں سے جتنا اختلاف ان کے ساتھ بینچز میں شامل جج صاحبان نے کیا ، شاید اتنا اختلاف کسی اور چیف جسٹس کے فیصلوں پرنہیں ہوا ۔ ان کی سربراہی میں قائم کردہ ایک بینچ کے اکثریتی فیصلے پر تو ایک جج صاحب نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ تک لکھ دیا کہ’’ اس فیصلے سے آئین کو ازسر نو تحریر کیا گیا ہے ۔ ‘‘اختلافی نوٹ کا یہ جملہ عدلیہ کی آئینی حدود سے تجاوز کرنے کی ایک تاریخی چارج شیٹ ہے ۔ چیف جسٹس (ر) عمر عطا بندیال نے جاتے جاتے اپنی سربراہی میں قائم کردہ تین رکنی بینچ کا دو ایک کی اکثریت سے جو آخری فیصلہ سنایا ہے، جس میں قومی احتساب آرڈی ننس یعنی نیب آرڈی ننس میں پارلیمنٹ کی طرف سے کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دیا گیا ہے ، اس فیصلے سے نہ صرف بینچ کے ایک رکن جسٹس منصور علی شاہ نے اختلاف کیا بلکہ اپنا ایک ایسا اختلافی نوٹ لکھا ہے ، جس میں عدلیہ کے کردار کے حوالے سے بنیادی مسئلے کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا کہ ’’ اس کیس میں بنیادی سوال نیب آرڈی ننس میں ترامیم کا نہیں بلکہ پارلیمان کی بالادستی کاہے ۔ ‘‘ اس اختلافی نوٹ میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے پارلیمان کے اختیارات استعمال کئے ہیں۔

ہماری عدلیہ کا یہی بنیادی مسئلہ ہے ۔ اس نے نہ صرف مقننہ ( پارلیمنٹ ) اور انتظامیہ (ایگزیکٹو) کے اختیارات میں مداخلت کی اور جوڈیشل ایکٹیوزم سے اس مداخلت میں اضافہ کیابلکہ اسٹیبلشمنٹ خصوصاً فوجی آمروں کی آئین شکنی کو بھی درست قرار دیا ۔ عدلیہ پر نہ صرف یہ الزام ہے کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق پولیٹیکل انجینئرنگ کیلئےراستہ ہموار کیا بلکہ بعض جج صاحبان نے خود بھی پولیٹیکل انجینئرنگ بھی کی ۔ عمر عطا بندیال ، ثاقب نثار ، آصف سعید کھوسہ ، گلزار احمد اور افتخار چوہدری پر یہ الزامات بہت زیادہ ہیں ۔

اس وقت پاکستان دہشت گردی ، کرپشن اور معاشی بحران کا شکار ہے ۔ دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف جنگ اور معاشی بحران پر قابو پانے کی کوششیں قابل تعریف ہیں لیکن اس جنگ اور ان کی کوششوں میں ہر ادارے کی اپنی آئینی حدود ہیں ، جو خطرناک حد تک پار کر لی گئی ہیں ۔ یہ صورت حال حقیقی جمہوریت ، قانون، آئین کی عمل داری اور معاشی استحکام کیلئے خطرناک ہے ۔ اگر ادارے اپنی آئینی حدود میں کام نہیں کریں گے تو حالات مزید بگڑ تے جائیں گے ۔ ملک میں نہ جمہوریت جڑ پکڑ سکے گی ، نہ امن قائم ہو سکے گا ، نہ معیشت ٹھیک ہو گی اور نہ احتساب کا مضبوط نظام قائم ہوپائے گا ۔ اس صورت حال میں پاکستان کی عدلیہ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خود سمیت دیگر اداروں کو آئینی حدود سے باہر نہ نکلنے دے ۔ مقننہ اور سویلین انتظامیہ کے اختیارات میں تجاوز کرکے انہیں مفلوج کر دیا گیا ہے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے لوگ اس صورت حال سے نکلنے کیلئے ’’ ہیرو‘‘ یا ’’ نجات دہندہ ‘‘ کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں ۔ اس ناجائز خواہش پر مبنی کردار کی تمنا ہی ازخود آئینی اور ریاستی ڈھانچے کو منہدم کر رہی ہے ۔ ریاست پاکستان میں طاقت کا ایک مرکز نہیں رہا ، جس کی مضبوط بنیاد عوام کے آزادانہ جمہوری فیصلے ہوتے ہیں بلکہ طاقت کے کئی مراکز بن گئے ہیں ، جو انتشار کا باعث ہیں ۔ احتساب کا نظام صرف پولیٹیکل انجینئرنگ کا ہتھیار بن کر رہ گیا ہے اور بعض طاقتور حلقے احتساب سے بالاتر ہیں ۔

اب پاکستان کو کسی ’’ ہیرو ‘‘ یا ’’ نجات دہندہ ‘‘ کی ضرورت نہیں ۔ مہذب اور جمہوری معاشروں کی طرح ایسے لوگوں کی ضرورت ہے ، جو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کے قائل ہوں ۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ذمہ داروں کو مقننہ اور انتظامیہ کی حدود میں مداخلت سے روکنا ہی آج کی عدلیہ اور خصوصاً نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے اس چیلنج سے کیسے بنرد آزما ہوتے ہیں ۔ سب سے پہلے انہیں اپنے ’’ ہاوس کو آرڈر میں لانا ہو گا ‘‘ یعنی اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا تاکہ جج صاحبان میں گروہ بندی کا وہ تاثر ختم ہو ، جو عمر عطا بندیال کے دور میں پیدا ہوا ۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کے مطابق یا خود عدلیہ کی سوچ کے مطابق سب مسائل کو حل کرنے کا زعم اگر کسی میں ہے تو اسے ختم کرنا ہو گا ۔ پاکستان میں مقننہ اور سول انتظامیہ کو مضبوط بنانا ہو گا۔ احتساب کا سیاسی انتقام یا پولیٹیکل انجینئرنگ والا نظام ختم کرکے جمہوری اداروں کے ذریعے احتساب کا مضبوط نظام قائم کرنا ہو گا ۔ اس کیلئے نیب آرڈی ننس کو درست کرنے کی پارلیمان کی دانش سے اتفاق کرنا ہو گا کیونکہ یہ آرڈی ننس نہ صرف پروڈا ، ایبڈو اور پوڈا جیسے سیاہ قوانین کا چربہ اور تسلسل ہے بلکہ انہی سیاہ قوانین کے پس پردہ مذموم مقاصد اور بدنیتی کا ورثہ ہے ۔ اگر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں ادارے اپنی آئینی حدود میں واپس آجاتے ہیں تو یہ نہ صرف ان کی بڑی کامیابی ہو گی بلکہ عدلیہ کی ساکھ اور اس کا اعتبار بحال کرنے میں مددگاربھی ملے گی ۔ قوم کو نئے چیف جسٹس سے یہی توقعات ہیں ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین