• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کے ملزم نے اپنے تحفظ کے لیے جو حکمت عملی وضع کی ہے، اپنے ’’ادارے‘‘ کو اس میں ملوث کرنا بھی اس کا اہم حصہ ہے۔ اسے کروڑوں روپے فیس والے ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ وکلا کی خدمات بھی حاصل ہیں۔ جن کی قیادت جناب شریف الدین پیرزادہ کررہے ہیں جو ماضی میں ڈکٹیٹروں کی قانونی معاونت کی خاص شہرت رکھتے ہیں۔ میڈیا میں اس کی ترجمانی کے فرائض احمد رضا قصوری ادا کرتے ہیں جن کی باڈی لنگوئج، لب و لہجے اور زبان و بیان سے روزافزوں ہذیانی کیفیت عیاں ہے۔ ججوں پر الزام تراشی کے علاوہ، نوبت اخبار نویسوں کو سبق سکھانے کی کھلی دھمکیوں تک جا پہنچی ہے۔ زباں بگڑی سو بگڑی تھی، خبر لیجئے دہن بگڑا۔ قانونی ماہرین کی اس بھاری بھر کم ٹیم کے باوجود ملزم کو عدالت کا سامنا کرنے سے گریزہے جو میڈیا سے گفتگو میں بھی قانونی و آئینی نکات کا سہارا لینے کی بجائے ’’فوج کے ردعمل‘‘ سے ڈراتے ہیں۔ ریٹائرڈ فوجی حضرات کے اجلاس بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخلے سے قبل اس نے اسلام آباد میں ریٹائرڈ حضرات کے ایسے ہی ایک اجلاس سے ویڈیو لنک خطاب بھی کیا تھا۔ گزشتہ دنوں اسی طرح کے ایک اجلاس کا اہتمام لاہور میں کیا گیا۔ اے ا یف آئی سی میں زیر علاج ملزم کے خطاب کی ویڈیو ریکارڈنگ کی تیاریاں کر لی گئی تھیں، لیکن اے ایف آئی سی کی انتظامیہ نے سختی سے منع کردیا ، ملزم 4 سال کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد گزشتہ سال مارچ میں وطن واپس آیا تھا۔ جنرل کیانی اس کے بعد 9 ماہ تک آرمی چیف رہے۔ کہا جاتا ہے ملزم اپنے ملاقاتیوں سے گلہ کرتا کہ کیانی اس کی مدد نہیں کررہے۔ حالانکہ جنرل کیانی نے اسے ایک سے زائد پیغامات بھیجوائے تھے کہ وہ وطن واپس آکر خود کو اور اپنے خیر خواہوں کو آزمائش میں نہ ڈالے۔ اس کے بین الاقوامی دوستوں کا بھی یہی مشورہ تھا لیکن اپنی فیس بک پاپولریٹی کے سحر میں اس نے کسی کی نہ سنی۔ اور آتے یہ مختلف مقدمات میں دھر لیا گیا۔ گزشتہ دنوں اس نے حاضر سروس آرمی چیف کو یہ کہہ کر مشکل میں ڈالنے کی کوشش کی کہ دیکھنا ہے وہ اس کی مدد کے لیے کہاں تک جاتے ہیں۔ ملزم کے فیض یافتہ بعض ریٹائرڈ حضرات کی سرگرمیوں پر ہمیں 2007,2006یاد آیا۔ لیکن اس سے پہلے میں 17 ویں ترمیم کی منظوری، جس کے لئے اس نے ایم ایم اے سے وردی اتارنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن وہ وردی اتارنے کے وعدے سے منحرف ہوگیا ۔ جناب ایس ایم ظفر اس ڈیل کے مصنف تھے۔ انہوں نے اس کی تفصیل اپنی کتاب میں لکھ دی ہے۔ منتخب قانون ساز اداروں کی ترقی اور شفافیت کے علمبردار، احمد بلال محبوب کے ’’پلڈاٹ‘‘ نے 8 جولائی 2006 کو جنرل پرویز مشرف کے نام ایک خط میڈیا کو جاری کیا۔ جس میں اس سے صدر یا آرمی چیف میں سے کوئی ایک عہدہ رکھنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہ خط اس لحاظ سے دھماکہ خیز تھا کہ اس پر خود پرویز مشرف کے ادارے کے 8 سینئر ریٹائرڈ حضرات کے دستخط بھی تھے۔ جنرل حمید گل، جنرل عبدالقادر بلوچ، جنرل معین الدین حیدر، جنرل جمشید گلزار کیانی (مرحوم) جنرل تنویر حسین نقوی، جنرل اسد درانی، جنرل طلعت محمود اور بریگیڈیئر شوکت قادر۔ سویلین حضرات میں قاف لیگ کے سنیٹر ایس ایم ظفر، سرتاج عزیز، مجیب الرحمن شامی، جاوید جبار، شفقت محمود، ڈاکٹر پرویز حسن، ڈاکٹر خالدہ غوث، ڈاکٹرحسن عسکری رضوی اور احمد بلال محبوب شامل تھے۔ ریٹائرڈ حضرات میں وہ بھی تھے جو مشرف کے دست بازو رہے تھے۔ جنرل عبدالقادر بلوچ بلوچستان کے گورنر رہے۔ معین الدین حیدر سابق وزیر داخلہ تھے، جنرل نقوی مشرف کے بلدیاتی نظام کے خالق تھے،، اسد درانی (سابق آئی ایس آئی چیف) مشرف دور میں سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر رہے تھے۔ نوازشریف کی جلاوطنی کے ساتھ اس نے سعودی عرب میں مقیم سرگرم پاکستانیوں کی زندگی اجیرن بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ سیاسی سرگرمیوں کے الزام میں اس نے درجنوں پاکستانیوں کو سعودی عرب سے پاکستان ڈی پورٹ کروا دیا تھا۔ ان میں کئی اعلیٰ ملازمتوں پر فائز تھے، بعض لاکھوں ریال کا کاروبار کررہے تھے اور سعودی عرب سے اچانک اخراج نے یہ سب کچھ برباد کردیا تھا۔ جنرل جمشید گلزار کیانی 12 اکتوبر 1999ء کو آئی ایس آئی کے ڈپٹی چیف تھے، پھر راولپنڈی کے کور کمانڈر بنے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد فیڈرل پبلک سروس کمشن کے چیئرمین مقرر ہوئے۔ فوجی ڈسپلن سے آزاد ہونے کے بعد اب وہ ڈکٹیٹر کی مزید اطاعت کے لیے تیار نہیں تھے۔ اہم تقرریوں یا ملازمت میں توسیع کے لیے میرٹ پر ان کا اصرار ناقابل برداشت ہوتا چلا گیا۔ یہ TENURE پوسٹ تھی۔ جنرل کیانی سے نجات کے لیے ایک آرڈی ننس کے ذریعے اس کی مدت میں کمی کردی گئی۔ جنرل کیانی سر تسلیم خم کرنے کی بجائے سپریم کورٹ جا پہنچے۔ یہ جمشید گلزار کیانی ہی تھے جنہوں نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ آپریشن میں فاسفورس بموں کے استعمال کا انکشاف کیا تھا۔بات کسی اور طرف نکل گئی۔ ہم اس خط کا ذکر کررہے تھے جس میں خود ڈکٹیٹر کے سابق رفقا نے اس سے وردی اتارنے کا مطالبہ کردیا تھا۔ وہ پھٹ پڑا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ سب ناکام، نکمےاور ناکارہ لوگ ہیں۔ GOOD FOR NOTHING
2007ء کی قومی تحریک میں ’’ایکس سروس مین ایسوسی ایشن‘‘ بھی شامل تھی۔ مٹھی بھر مفاد پرستوں کے سوا، قوم کے تمام طبقات اس تحریک میں سرگرم تھے۔ عدلیہ کی بحالی کے علاوہ وہ وردی اتارنے کا مطالبہ کررہے تھے ۔ جسے ڈکٹیٹر اپنی دوسری کھال (سیکنڈ اسکن) کہتا تھا۔ اس مطالبے میں شامل ریٹائرڈ جرنیلوں کے لیے اس نے پھر نازیبا الفاظ استعمال کئے اور انتباہ کیا کہ انہیں احترام مطلوب ہے تو اپنی حدود میں رہیں۔ اس میں حمید گل بھی تھے جو ایک دور میں اس کے افسر رہے تھے، بعد میں ان کے درمیان فیملی تعلقات بھی رہے۔ حمید گل حیران تھے کہ ایک دور میں ان کا ماتحت، اب سینئرز کے احترام کی فوجی روایات کا لحاظ کرنے پر بھی تیار نہیں۔ جنرل اسلم بیگ کا کہنا تھا کہ اپنے ادارے کے سینئر لوگوں کا احترام نہ سہی۔ دہلی کے تہذیبی روایات ہی کا خیال کر لیا ہوتا۔
مشرف کی حمایت میں سرگرم ایک ریٹائرڈ افسر گزشتہ روز کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوا جارہا تھا۔ اس کے خیال میں یہ ’’خاکی وردی‘‘ کی تقدیس کا معاملہ ہے۔ حالانکہ احترام اور تقدس خود کو آئین اور قانون سے بالاتر قرار دینے میں نہیں، اس کی اطاعت اور اس کے سامنے سرنڈر کر دینے میں ہے۔ وہی بات جو پیغمبر آخر الزماں ﷺ نے ارشاد فرمائی تھی۔ ’’محمد الرسول اللہ ؐ کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو خدا کی قسم! میں اس کا ہاتھ بھی کاٹا دیتا۔‘‘ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید فرمایا کہ ’’تم سے پہلی قومیں اس لیے برباد ہوئیں کہ ان کے بڑے جرم کرتے تو چھوڑ دیئے جاتے ان کے چھوٹے جرم کرتے تو سزا پاتے۔‘‘
گزشتہ شب سلیم صحافی کے ’’جرگہ‘‘ میں جنرل معین الدین حیدر کا کہنا تھا کہ حکومت، عدلیہ، فوج اور خود مشرف کا مفاد اوراحترام اسی میں ہے کہ مقدمہ چلے اور عدالت فیصلہ دے۔ معانی تلافی بعد کی بات ہے۔ فیصلےکے بعد صدر آئین کے تحت معافی یا سزا میں کمی کا اختیار رکھتا ہے۔
(کوئی بیرونی دوست بھی اس کے بعد ہی مدد کو آسکتا ہے)
حرف آخر: کالم مکمل ہو چکا تھا کہ ’’جیو‘‘ پر خبر آئی۔ مشرف کے وکیل جناب انور منصور کراچی میں ریٹائرڈ فوجیوں کے اجتماع میں اس کیس کے حوالے سے آئینی و قانونی نکات پیش کررہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ وہ ریٹائرڈ فوجیوں اور ان کے اہل خانہ کے سامنے یہ دلائل پیش کرنے کی بجائے خصوصی عدالت پر انحصار اور اعتبار کیوں نہیں کرتے کہ وہی اس کے لیے پراپر فورم ہے؟
تازہ ترین