رخصت ہونے والے چیف جسٹس جناب عطا بندیال نے اپنے ریٹائرمنٹ عشایئے میں آہ بھرے لہجے میں شرکا سے مخاطب ہوتے کہا ’’میں تو اب غروب ہوتا سورج ہوں، اب مستقبل تو آپ لوگوں کا ہے‘‘۔حکومتوں اور سیاسی خانوادوں کی پسند اور مراعات سے مکمل آزاد حقیقی سیاسی مزاحمتی شاعر حبیب جالب کا مشہور شعر ہے۔ ؎
مجھے فکر امن عالم، تجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہو رہا ہوں، تو غروب ہونے والا
سابق ہوئے چیف جسٹس کو طلوع ہونے والے چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ نے تو نہیں کہا کہ ’’تو غروب ہونے والا ‘‘ جیسا کہ جالب نے وقت کے آمر کو کہا تھا۔ شدت کے اس احساس کم آئیگی کا اظہار تو خود جسٹس بندیال صاحب نے جاتے جاتے لمحہ اختتام پر خود ہی کیا، حالانکہ سوشل میڈیا ان کے عدل کے اعلیٰ ترین منصب سے رخصت ہوتے ہوئے اس آخری فیصلے پر بڑے زور دار اور پرجوش تبصرے کر رہا ہے۔ کچھ نے وی لاگز میں ایسی سرخیاں لگائیں کہ نظام عدل و انصاف پر اظہار خیال میں اس سے گریز ہی بہتر ہے۔ اگرچہ ایسی سرخیاں قانون کی پکڑ میں تو نہیں آتیں لیکن البتہ یہ زبان پیشہ ورانہ اعتبار سے تو مناسب نہیں۔ لیکن سوشل میڈیا کونسا کسی پیشہ ورانہ طرز کی پریکٹس کا پابند ہے۔ اس وقت ملک کی زبوں حالی کا یہ عالم ہے کہ خود سپریم کورٹ کی اپنی پریکٹس اینڈ پروسیجرل مینجمنٹ خود جج صاحبان میں اتنی متنازعہ ہوگئی، کہ فوری توجہ کی طالب اور ملک و عوام کے وسیع تر مفادات کی فیصلہ سازی میں بغیر کسی مداخلت کے بڑی رکاوٹیں کھڑی ہوگئیں۔ تشکیل بنچ کے عددی پہلوئوں پر تو وہ اودھم مچا کہ پہلے تو وزیر قانون نے ججز کا اختلاف ہوتے ہی ملکی اعلیٰ ترین عدلیہ کے بنچز کی تشکیل کی قانونی تشریح اتنی اور اس طرح کی کہ حکمران اتحادی ٹولے نے سیاسی ابلاغ میں باقی جملہ اور اہم موضوعات کو جھٹک کر رات دن وزیر قانون اور اختلافی ججوں کے اعتراض و تشریح کا کام مکمل اپنے ہاتھ میں لے لیا۔پیمرا کے اسیر میڈیا سے اتنی زور دار مہم چلائی گئی کہ کان پڑی آواز نہ سنی جاتی تھی۔ یوں ایسا ماحول پیدا کر دیا کہ اولیگارکی (مافیا راج) جمہوریت کے علمبرداروں نے اس بحث کو سخت متنازعہ حتیٰ کہ اپنے ہی معترض ساتھیوں کو بھی نظر انداز کرکے ’’سپریم کورٹ کو کیسے اپنا فریضہ انجام دینا چاہئے؟ اس کا طریق کار اور جملہ انتظامی ضروریات پر مشتمل ’’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل مینجمنٹ ایکٹ‘‘ بنا کر اپنے تئیں اور عدالت عظمیٰ کو اپنے ہی مطلب کی رہنمائی کرکے، قانون سازی سپریم کورٹ کے سرمنڈھ دی۔ ہمارا پارلیمانی رویہ جتنا سیاسی ہوتا ہے خصوصاً اب جبکہ ہر ادارہ ماور آئین قانون اور عوامی مفادات کی بجائے اس سیاست کےتابع کیا جارہا ہے جو خودبھی کوئی سیاسی جماعتوں اور حکومتوں تک ہی محدود نہیں بلکہ شہر کا ہر راستہ لائل پور کےگھنٹے کی طرف جاتا ہے، جہاں اتنا ہجوم کے شہر کے اس مانومنٹ کی شان و وقار بھی متاثر ہوتا ہے۔
اوہو! بات تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے طلوع اور ریٹائرڈ جناب عمر عطا بندیال کے غروب ہونے (بقول ان کے اپنے) کے تناظر میں ہو رہی تھی، لیکن جتنی ہوئی، عدلیہ کے کردار، موجود حیثیت اور اس میں زیر بحث متنازعہ بل پر ہی ہوئی۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے جسٹس بندیال کا لمحہ غروب کا فیصلہ موجود دو قانونی نظام کو ختم کرکے آئینی بالادستی کا سورج طلوع کرے گا؟اب اس میں کیا چھپا رہ گیا؟ کہ پاکستان میں موجود مکمل واضح اور تشویشناک دو قانونی نظام، اولیگارکی (مافیا راج) کے لئے مراعات سے اَٹا اور عوام کے لئے اَن چیکڈ پکڑ دھکڑ اور کڑے احتساب کی صلاحیت کا حامل۔ ملکی نظام عدل کی اس صورت بد سے اسلامی جمہوریہ کا پورا نظام بدل و انصاف چیلنج ہوگیا ہے۔ جو جتنا کمزور اور نحیف، اس پر اس (نظام بد) کی پکڑاتنی ہی جلد اور سخت اور جوجتنا طاقتور، اپنی سیاست، دولت، انتظامی اور ماورائے آئین طاقت سے، وہ اتنا ہی بڑا بینی فشری اور غالب۔ مغلوب مقہور عوام ہی ہیں نظام انصاف میں ہی نہیں، مافیاراج کے مقابل ہر شعبے، حق اور شعبے میں پاکستان کے ٹیلر میڈ الیکشن میں ووٹ ڈالنے والوں کی عزت نفس لمحہ لمحہ کچلی جا رہی ہے۔
محترم جناب قاضی عیسیٰ کی ججی کا جو سورج طلوع ہوا ہے اس کا آغاز تو اہم عدالتی کارروائی ٹی وی پر براہ راست نشر ہونے کے حوالے سے خصوصاً 16 ماہی سخت متنازعہ حکومت کے اس پس منظر میں کہ مہنگائی اور بنیادی حقوق کے حوالے سے عوام پر عذاب بنی اس اولیگارکی کی حکومت کے پرآشوب دور میں پارلیمان اور عدلیہ کا اعتبار اور وقار بلند درجے پر مجروح ہوا۔ توشہ خانہ کیس میں دفاع اور گواہی کا حق دیئے بغیر ٹرائل کورٹ کے جج نے پروفیشن ہی نہیں پورے ملکی نظام عدل اور عوام کے عدلیہ پر اعتبار کو بٹہ لگایا ہے اس کی بازگشت پوری دنیا کے میڈیا میں سنی اور تادم دیکھی جار ہی ہے۔ 16 ماہی 87رکنی ٹیپکل اولیگارکی پارلیمان نے عوام دشمنی اور ماورا جو جو فیصلے کئے اس پر کچھ باضمیر اراکین اسمبلی بھی کان پکڑنے لگے۔ بارہ بارہ، پندرہ پندرہ اراکین اسمبلی کے اجلاس میں کورم کی نشاندہی کئے بغیر جو جو جیسی جیسی اور معدود چند اپوزیشن کے چند اراکین کی نشاندہی اور حیرت کے ساتھ متنازعہ ہوگئے قوانین اگر اولیگارکی ٹولے کے مفادات کے لئے نافذ العمل ہوئے تو ملک مکمل طور پر دو قانونی نظام کا شکار ہو جائے گا۔ ہے تو پہلے بھی لیکن جسٹس بندیال نے لمحہ غروب میں پاکستانی خزانے، ٹیکس اور عوامی مال متے پر چوری ڈاکے کے انتہائی اور کتنے مقدمات کو ختم کرنے کی قانون سازی کی تنسیخ کی ہے، وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے لئے نیا اوربڑا چیلنج ہے کہ ملک بھر کی جیلوں میں ہزار ہا تعداد میں جو قیدی سزا بھگت رہے ہیں، ووٹرز کے ووٹ سے وجود میں آنے والے منتخب ان کی بریت اور اولیگارکی کے مقابل کم سنجیدہ مقدمات اور جرائم کی سزائوں سے بیل آئوٹ اور آزاد کیوں نہیں ہوسکتے؟ ایک نہیں دو نہیں کتنے ہی این آر اوز قرضے معافی، سنگین مقدمات داخل دفتر اور ریکارڈ کی آتش زدگی، بڑے بڑوں کے لئے سزا و جرم و مقدمات سے آزادی کی شکل نہیں تو کیا ہے۔ ارب ہا کی منی لانڈرنگ کی کوئی گنجائش کیوں نہیں؟ سب سے اہم یہ کہ منی لانڈرنگ اور قومی خزانے سے غبن اور بلاجواز بھاری اثاثوں کے جو 1600اوپن اینڈ شٹ کیسز یقین کی حد تک سزائوں کے قریب تر پہنچے مقدمات کا پارلیمان میں خاتمہ، آئین سے کتنا متصادم ہے؟اب دیکھنا یہ ہے کہ بندیال کا غروب لمحے کا فیصلہ یک قانونی نظام کا سورج بنے گا یا دو قانون کا گرین سورج بھی آفت و بلا ہی کا باعث بنا رہے گا۔