پاکستان میں نئے چیف جسٹس نے اتوار کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا، اس وقت یہ تبصرہ نہیں کروں گا کہ کون سا چیف جسٹس کیسا رہا مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ انصاف سے وابستہ امیدیں ہنوز پوری نہیں ہوئیں۔ دنیا میں ترقی پانے والی قوموں نے عدل و انصاف سے کام لیا کیونکہ عدل و انصاف کے بغیر نظام بربادیاں جنم دیتا ہے اور بربادی تباہی کی علامت ہے۔ہمسایہ ملک چین میں ہونے والی ایک عدالتی تقریب سے چیف جسٹس سپریم پیپلز کورٹ آف چائنہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرے عزیز ساتھیو! کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار عدل و انصاف پر منحصر ہے۔ میرے اور آپ کے کندھوں پر دو ارب انسانوں کو انصاف فراہم کرنے کی ذمہ داری ہے۔ میری نظر میں کرپشن، قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے کیونکہ قاتل صرف ایک فرد یا چند افراد کو قتل کرتا ہے جبکہ ایک کرپٹ شخص پورے ملک کے معاشی نظام کو کھوکھلا کر دیتا ہے اور یہ عمل پورے ملک کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ کسی بھی اعلیٰ عہدے پر فائز کرپٹ شخص کو سرعام عبرت ناک سزا دینے کا عمل ہزاروں لوگوں کو کرپشن سے باز رکھتا ہے۔ یہ عمل ملک کی ترقی اور بقا کے لئے بہت ضروری ہے‘‘چینی چیف جسٹس کی باتوں نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اس دوران ایک اور ویڈیو سامنے آگئی، اس میں سابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن ایک بڑا اٹیچی کیس اٹھائے ہوئے ٹرین سے اتر کر چل پڑتے ہیں۔ بورس جانسن کی یہ حالت دیکھ کر مجھے اپنے حکمرانوں کے ناز نخرے یاد آگئے پھر اینجلا مرکل کی یاد آئی ، یہ خاتون 16سال جرمنی کی سربراہ رہی، آج بھی 2 کمروں کے ایک اپارٹمنٹ میں رہتی ہے۔ میں نے سوچا کہ دنیا کے طاقتور ترین ملک امریکہ کے سابق صدور کی زندگیاں دیکھوں تو پتہ چلا کہ دو مرتبہ امریکہ کے صدر رہنے والے جارج بش سینئر مرتے وقت صرف ایک پنسل کے مالک تھے۔ امریکہ کے سابق صدر جارج بش جونیئر 2016 ماڈل کی گاڑی چلاتے ہیں۔ بل کلنٹن بھی دو بار امریکہ کے صدر رہے، ان کے معاشی حالات خاصے خراب رہے، وہ بطور موٹیویشنل اسپیکر امریکہ کے مختلف اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتے ہیں۔ 8 سال تک امریکہ کے صدر رہنے والے باراک اوباما نوکری کرتے ہیں، وہ اکیلے نوکری نہیں کرتے، ان کی بیوی بھی نوکری کرتی ہیں بلکہ ان کی بیٹی بھی بطور کیشئر کام کرتی ہے۔ اپنے حکمرانوں کو دیکھ کر غیر ملکی حکمرانوں پر ترس آتا ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں نہ بورس جانسن نے کسی دوسرے ملک میں جائیداد بنائی نہ اینجلا مرکل نے دولت کے ڈھیر لگائے اور امریکہ کے سابق صدور تو زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لئے نوکریاں کر رہے ہیں۔ صاحبو! یہ مثالیں صرف مغرب میں نہیں، مشرق میں بھی ہیں۔ بھارت کے سابق وزیراعظم لال بہادر شاستری نے گاڑی خریدنا چاہی تو ان کے اکاؤنٹ میں صرف سات ہزار روپیہ تھا۔ انہیں بینک سے پانچ ہزار قرض لینا پڑا۔ شاستری فوت ہوا تو یہ قرضہ اس کی اہلیہ نے چکایا۔ ہندوستان کے شہریوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ بھارت کے دو مرتبہ وزیراعظم رہنے والے گلزاری لال نندا کو مالک مکان نے محض اس لئے نکال دیا تھا کہ بھارت کے سابق وزیراعظم کے پاس مکان کا کرایہ دینے کے لئے پیسے نہیں تھے۔ گاندھی کے پاس کچھ نہیں تھا، چلو وزرائے اعظم کا حساب کر لیتے ہیں۔ نہرو سے لے کر مودی تک کسی بھارتی وزیراعظم کی بیرونی دنیا میں کوئی جائیداد نہیں، اپنے ملک سے باہر ایک مرلہ بھی نہیں، یہی حال بھارتی ججوں اور جرنیلوں کا ہے۔ آئی سی ایس کرنے والے بھی جائیدادوں اور دولت کے ڈھیروں سے محروم ہیں۔ آپ کو یہ تو پتہ ہو گا کہ بھارت میں دہری شہریت پر پابندی ہے۔ آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ چند سال پہلے بڑے نوٹوں پر پابندی لگا کر مودی نے کس طرح پیسہ نکلوایا تھا مگر ہم مختلف ہیں، ہم دوسروں سے سبق نہیں سیکھتے۔ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ چین کا چیف جسٹس کرپشن کو قتل سے زیادہ سنگین جرم کیوں قرار دے رہا ہے۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ اینجلا مرکل، بورس جانسن، سینئر و جونیئر دونوں بش، کلنٹن اور اوباما کی جائیدادیں بیرونی دنیا میں کیوں نہیں۔ ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ بھارت کے وزرائے اعظم، سول و ملٹری بیوروکریسی اور ججز بیرونی دنیا میں جائیدادیں کیوں نہیں بناتے۔ وہاں کے افسران دہری شہریت کو خود پر لازم کیوں نہیں کرتے۔ یہ سب کچھ ہم اس لئے نہیں سوچتے کیونکہ ہم نے کسی سے سبق نہ لینے کی ٹھان رکھی ہے۔ ہماری روش تو بقول غالب یہی ہے کہ
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)