• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہشت گردی کی تازہ لہر نے وزیراعظم کو ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں شرکت سے محروم رکھا ۔ 16 سال پہلے سنت نگر میں اسی طرح 13 بے گناہوں کے ذبح ہونے پر وزیراعظم نے جاپان کا دورہ منسوخ کیا تھا، دونوں موقعوں پر وطن ِ عزیز کاسیاسی، اخلاقی اور معاشی نقصان۔ وطنِ عزیز آتش فشاں پہاڑ کے دھانے پر، پھٹنے کو تیار۔ایک نکتے پر تمام سیاسی ،مذہبی مکتبہ ِفکر یکسوکہ ملکی سالمیت خطرات کی گرفت میں۔اگرچہ وجوہات ، توجیحات، تاویلات اپنی اپنی، جھوٹ، سچ، مکر فریب، اخلاص ، جہالت ، تدبر کے سارے بیوپاری متفق کہ آنے والا بحران انمٹ نقوش ہی چھوڑے گا۔بھارتی امریکی گٹھ جوڑ مملکتِ خداداد کو ترنوالہ بنانے پرتیار، قومی قیادت ادراک سے عاری ۔ستم ظریفی کہ پاکستان کا دوست، امریکہ کادشمن،جبکہ ہمارا غدار، امریکہ کا وفادار۔کیا حکمت یا ڈرمانع کہ آج تک غدارِ وطن شکیل آفریدی کو پھانسی پر نہیں لٹکایا جا سکا،جبکہ معصوم جانوں کاقاتل ریمنڈڈیوس امریکہ میںآزاد دندناتا پھرتا ہے؟جملہ معترضہ کہ امریکہ نے اپنے شہری ایڈروڈ سنوڈن کو اس پاداش میں غدار قرار دیا کہ اس نے فاش کیا کہ امریکہ اقوامِ عالم کی جاسوسی میں ملوث ہے۔قیادت، وژن اور استطاعت سے فارغ ہو تو قوموں کی پسپائی کا درج ہونا لازم ۔ سوئے اتفاق کہ ساری سیاسی جماعتوں کے سارے سربراہان استطاعت اور سمجھداری کی نچلی سطح پر ،اس پر مستزاد تمام جملہ قائدین کسی نہ کسی الزام میں قانون کو مطلوب۔ کرپشن اور ’’ جُزاخلاقی‘‘ جن پر آئین اور تعزیرات پاکستان گرفت کرتی ہے، کوٹ کوٹ کر موجود،قائدین کے عیوب قوم کی کمزوری بن چکے،دشمن کا کام آسان تر۔ایسے نازک اور فیصلہ کن موڑ پر قائداعظم ؒ جیسا دیدہ ور چاہیے تھا ، قحط الرجال۔پُرسانِ حال کون ہوگا، جائیں تو کدھر جائیں؟سازشیں ،افواجِ پاکستان کو گھیرنا ہی ہے۔ ادھر فوج کمزور اُدھرنیو کلیئر اثاثوں کی چھٹی ۔پہلاہدف مشرقی سرحدوں سے فوج کو ہٹا کر مغربی سرحدوں پرجھونکناکامیابی سے ہمکنارہواچاہتا ہے۔ بھارت سے دوستی کا راگ الاپنے والے جاہل یا ملک دشمن۔بھارت سے دوستی کا مطلب ،بڑی فوج اورنیوکلیئر اثاثے غیر ضروری۔ اصل گیم اور ایجنڈا بھارت کو افغانستان اور وسط ایشیا تک رسائی دیناجس کے لیے امریکہ بے چین کہ چین کو حصار میں لینا اور جنوب وسط میں نئی دیوارِ چین چننا امریکی مقصد۔ یہی نیو ورلڈ آرڈرہے اور یہی پروجیکٹ فار دی نیو امریکن سنچری ۔خطے کی 4بلین آبادی اوروطنِ عزیز کا جغرافیہ ہمارے لیے وبال جان بن چکا، کشمیر اور قبائلی علاقوں پر امریکہ کی للچائی نظریںاور بھارت کی رالیں ٹپکنا اچنبھے کی بات نہیں۔ ’’ نیوآپریشن ہونا چاہیے‘‘ اس پر دہشت گرد اور لادین بریگیڈ دونوں یکسو۔ کیا کوئی قوم کو سچ بتائے گا کہ پچھلا آپریشن جو10 سال سے جاری وساری ہے کیا نتائج دے چکا؟
آپریشن تو 2003سے جاری، نصف قبائلی آبادی نقل مکانی کرکے کراچی، لاہور، راولپنڈی اور ملک کے دیگر حصوں میں مرحلہ وارمنتقل ہو چکی۔فوج پچھلے 10 سالوں سے دہشت گردوں کے خلاف برسرِپیکار۔F-16 جہاز اور گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال ہو چکے، ڈرون حملوں سے ’’ہزاروںا موات ‘‘ہماری مدد کے لیے ہی تو تھیں ۔کئی دفعہ اعلان بھی ہو اکہ دہشت گردوں کا قلع قمع کر دیاگیاجبکہ امریکہ کا ہمیشہ اخلاص اوراستطاعت پرشبہ چنانچہ ڈومور۔ ڈومور کا مطلب کہ اگرپچھلے 10 سال ایک ادھ کور موجود تھی تو اب ساری فوج جھونکنا ہوگی۔ امریکہ پاکستانی فوج کو ملک کے اندر اور قبائلی علاقہ جات میں مکمل طور ملوث ہونے پر مجبور کر رہا ہے ۔چنانچہ مذموم مقاصد حاصل کرکے ہی جان ( اگر بچ گئی) بخشی ہوگی۔ بفرضِ محال اوراللہ کرے کہ ایک ایک دہشت گردچُن چُن کر ماردیاجاتاہے توحالات ٹھیک ہونے کی گارنٹی پھر بھی رات کی بات ہی ٹھہرے گی،رات گئی بات گئی۔دہشت گردی کا عفریت وہیں موجودحالات کاابتررہناپاکستانی تقدیر کہ ’’کاتب ِ تقدیر‘‘امریکہ کایہی کچھ مطمح نظر۔
وطنِ عزیز کو دولخت ہوئے 42 سال ہو چکے۔بے حس، خودغرض اشرافیہ آج تک معاملے کی تہہ تک پہنچنے سے انکاری۔بلیم گیم ختم نہ ہونے والا سلسلہ ، وجوہات کا تعین ہوا نہ سبق سیکھا ۔میری نسل ایسی بدقسمت جو1970والی صورتِ حال سے دوسری دفعہ نبردآزما۔ پچھلی بار دشمن جیت گیا۔یا اللہ اس دفعہ توبچا لو۔
ہماری فوج بھارت سے لڑنے کے لیے بنی تھی نہ کہ اس کا دست وبازو بننے کے لیے۔میدانی علاقے کی فوج کواپنے علاقوں میں لے جانا جہاں سرحد اور دشمن کے محل وقوع کا تعین نہیں بربادی کا اعلامیہ ہی تو ہے ۔’’یک نکتہ میرایاداست ‘‘کہ طالبان، بنیاد پرست ، انتہاپسند ، دہشت گرد جیسے لاحقے قبائلی گروہوں آفریدی ، شنواری ، مہمند، محسود، بھٹنی، وزیری کی ماہیت تبدیل کریں گے نہ اجزائے ترکیبی۔فوج کیسے قابوپائے گی جہاں آفریدی محسودکے علاقے میں بے بس، گو وزیری ،بھٹنی تقریباََ ایک قبیلہ لیکن بھٹنی وزیریوں کے علاقے میں بے اثر۔اگر طالبان انتہا پسند جیسی اصلاحات کی بجائے قبائلی شناخت مدنظر رکھ کراصولِ آپریشن ہوتا تو محسود، محسود کے ذریعے اور وزیری،وزیری کے ذریعے قابو آجاتا۔جماعت اسلامی، عمران خان سمیت دیگر قبائلی عمائدین ایسے ہی آپریشن سے بازرہنے کی ترغیب دیتے رہے جبکہ مسخرے اور کرائے کے فنکارجہالت، عیاری اور مکاری سے ایسی باتوں کو توڑ موڑ کر ملک کو بربادی کی طرف دھکیلنے میںمصروف،ہماری زباں میں لکنت کیوںکہ دہشت گردی کا اصل موجدومآخذ امریکہ اور بھارت،ہمیشہ سے ہماری سا لمیت کے درپے۔
مائیکل ونرنے 1972میں CHATTO'S LANDنامی شہرہ آفاق فلم بنائی ۔لیجنڈاداکار چارلس برونسن(CHARLES BRONSON) نے چا ٹو کا مر کزی کردار ادا کیا۔امریکہ کے اصل مالک جنگجوریڈ انڈین قبائل تھے،عزت، غیرت پر مر مٹنے والے۔انگریز نے جب سر زمینِ امریکہ پر قدم رکھا تو ریڈ انڈین سے نبردآزمائی میں سب سے زیادہ دشواری پیش رہی۔قابض عسکری گروہ بندوق اور گولہ بارود سے لیس جبکہ مقا می قبائل پتھر کے زمانے سے ابھی باہر نہ آ پائے تھے۔امریکی سرزمین کابیشتر حصہ پہاڑی سلسلہ جات جبکہ تمام بڑے پہاڑی سلسلے مقامی قبائل کی آماجگاہ۔فلم کی کہانی کا لب لباب ،انگریز رجمنٹس مقا می قبائلی آبادی پر دھاوا بولتیں ، گھر چھوڑنے پر مجبور کرتیں، مردوں،بچوں، جوانوں کو قتل کرتیں ، جوان عورتوں کو ریپ،بچے کھچے قبائلیوںکو شہری آبادی کی طرف دھکیل دیاجاتا۔
ایسے ہی ایک قبیلے کا ایک جری نوجوان جس کا نام چاٹو تھا اپنے قبیلے پر ہونے والے ظلم وستم پر انتقام میں سوختہ، بدلہ لینے پر ٹھن گیا۔ نوجوان چاٹو اپنے علاقے سے نکلتا کنٹونمنٹ میںانگریز رجمنٹوں پر حملہ آ وررہتا ۔ایک واقعہ میں اس نے ایک سینئر پو لیس افسر کوبھی قتل کر دیا۔ مجبوراً انگریزفوج چاٹو کے خلاف آپریشن پر مجبور ہوگئی ، چاٹو بھی شاید یہی چاہتاتھا ۔ جوں ہی انگریز گھوڑا گا ڑیوں دیگر آتش اسلحہ اور سازوسامان کے ساتھ قبائلی علا قوں میں دا خل ہو ا چا ٹو ایک پہا ڑی کی چوٹی پر منتظر ایسا نظارہ دیکھ کرمسرور او رمطمئن۔ا نگریز فو ج کی دو دشواریاںعلا قہ وسیع و عریض اور پہاڑی، دوسرا مروجہ راستوں کا استعمال ضروری کہ گھوڑے اور سا زو سامان سے لدی گا ڑیوں کیلئے منا سب روڈپر سفر مجبوری تھی ۔چاٹو کی تلا ش داستانِ عبرت ہی رہی ۔چا ٹو کے پاس دو ہی ہتھیار، سینکڑوں ٹن وزنی پہاڑی پتھربمع لوہے کا لمباراڈ اور تیر کمان۔چاٹو لمحوں میں تعین کر لیتا تھا کہ انگریز کو دشوار گزار راستوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ کتنا وقت درکار جبکہ وہ خود دنوں کی مسافت مختصر راستوں سے گھنٹوں میں طے کرنے میں مستعد۔جب بھی فوجی قافلہ تنگ پہاڑی دروںکے کسی موڑ پرپہنچتا، چاٹو پہلے سے اکٹھے کئے ٹنوں وزنی پتھر یکے بعد دیگرے پہاڑی چوٹی سے قا فلہ پر لڑکھا دیتا، نشانہ اپنی مثال آپ ۔پہلا ہدف اشیاء خور دو نوش سے لدی گا ڑیاں،ہر حملے کے جواب میں فوج آنکھ اوجھل چاٹو پر سینکڑوں فائر داغتی جبکہ چاٹو پہاڑ اوجھل میلوں کی مسافت چند گھنٹے میں طے کرتااپنی اگلی مچان میں پھر سے منتظر۔ رجمنٹ مروجہ راستوں کے ذریعے کئی دنوں بعد جب اگلے مقام پر پہنچتی تو منتظرچاٹو تاک میں،پرانا طریقہ ، پرانا نتیجہ۔ چند دنوں ہی میںاس نے اشیاء خو ر دو نوش اور پانی کی سپلائی کوسبو تاژکردیا، بے شمار گھوڑوںبے لگام ہوئے۔ گو پلٹن نے درجنوں بندوقوں سے چاٹو پر ہزاروں فائرکیے نشانہ بے سود ہی رہتا۔ پہاڑوں کے چھلاوہ نے جب تک میجر کوینسی کی اسلحہ با رود سے لیس پلٹن کو مکمل طور پرپتھروں سے سنگسارکرکے اپنی سرزمین سے پاک نہ کردیا بے چین ہی رہا۔رجمنٹ کے کرنل جیمز کا تبصرہ حاصل ِآپریشن کہ ’’یوں لگتا ہے کہ شکار چاٹو نہیں ہماری رجمنٹ تھی‘‘۔ فلمی نقاد گریم کلارک نے اس فلم کو امریکاکی ویت نام میں شکست کے ساتھ نتھی کیا ۔ ملکی سالمیت جو نظریہ پاکستان میں مضمرکہ نظریہ ہی ہماری اساس، جاہل، مکار، عیار، لادین آج طالبان کی آڑ میں شریعتِ محمدی کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ اللہ کا قہر ایسے لوگوں پر جو قرآنی احکامات کی جان بوجھ کر نفی کرنے پر ڈٹے، شریعت کی تضحیک میں مصروف۔ سُن لو! مسلمان قوم نہ بنی تو قومیت، لسانیت اور مسلک میں بٹے درجنوں دست وگریباں گروہ ایک دوسرے کو مولی گاجر کی طرح کاٹتے رہیں گے۔ ہے کوئی جو بیچ منجدھار میں ہچکولے کھاتی نائو کو سلامتی سے ہم کنار کردے، مملکتِ خداداد کو ایک مسلم قوم دے سکے؟
تازہ ترین