(گزشتہ سے پیوستہ)
گزشتہ ہفتے ہم لاہور کے دو تاریخی ہالز منٹگمری اور لارنس ہال کا ذکر کر رہے تھے۔ ہمیں ان دونوں ہالز میں مختلف پارٹیاں اور ڈانس دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ ہمارے چچا برجیس ناگی مرحوم 1950ء سے جم خانہ کلب کے ممبر تھے۔ چنانچہ ہم اور ہماری کزن نیتا ناگی (امریکہ) اور ان کی والدہ زاہدہ اکثر جم خانہ کلب جایا کرتے تھے البتہ جس روز ڈانس ہوتا تھا اس روز بچوں کو کلب میں آنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ کلب میں کوئی بھی ممبر سوٹ بلکہ تھری پیس سوٹ سے کم پہن کر نہیں آسکتا تھا۔ کلب میں اردو بولناپسند نہیں کیا جاتا تھا اور پنجابی زبان تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ کوئی بول سکے۔ خیروہ زمانہ اور وہ لاہور تو اب کبھی نہیں آسکے گا، نہ وہ لوگ اب کبھی ملیں گے، وہ تہذیب و شائستگی، وہ پیار، وہ محبت، وہ خلوص تو کب کا ہوا ہو چکا۔ آج ہم آپ کو ان دونوں ہالز کی خوبصورتی کے علاوہ لاہور میں بجلی کب آئی اور کیسے آئی کے بارے میں کچھ دلچسپ باتیں بتائیں گے۔
لارنس گارڈن میں بعض درختوں کی عمریں دو اور تین سو سال سے بھی زیادہ ہیں اور لارنس گارڈن میں جو شہد ہوتا ہے اس کی کوالٹی انتہائی بہترین ہوتی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ بھی افسروں کی نذر ہو جاتا ہے۔لارنس ہال سرجان لارنس کی یاد میں 1861-62ء میں اسی جگہ پر تعمیر کیا گیا جو اس زمانے میں ایک کھلا میدان یا باغ تھا۔ اس ہال کی تعمیر کے لئے حکومت کی بجائے یورپی باشندوں نے چندہ جمع کیا تھا۔ اس انتہائی خوبصورت ہال کا ڈیزائن مسٹر جی اسٹون نے بنایا تھا جبکہ منٹگمری ہال 1866ء میں تعمیر ہوا تھا۔ اس کے لئے پیسے لاہور شہر کی اشرافیہ نے دیئے تھے۔ جس میں یقیناً زیادہ تر ہندو اور سکھ تھے اس تاریخی ہال کا ڈیزائن گورڈن نے تیار کیا تھا۔ یہ بڑی کلاسیکل عمارت ہے اگر کوئی اس عمارت میں کچھ دیر کھڑا رہے تو اس کے خوبصورت حسن میں کھو جاتا ہے بلکہ اس پر ایک ایسا سحر طاری ہو جاتا ہے جو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیںہے۔
آج کسی لاہوریئے کو پتہ نہیں کہ یہاں لاہور میاں میر انسٹی ٹیوٹ، اسٹیشن، لائبریری، ٹینس کلب بھی موجود ہے۔ ٹینس کلب تو یہاں ایک مدت تک رہا اور ہمیں یہاں ٹینس کھیلنے کا اتفاق بھی ہوا۔ 1876ء میں پرنس آف ویلز نے یہاں کا دور ہ کیا تھا تو اس ہال کی چھت اور فرش کو ساگوان کی لکڑی سے ازسرنو تعمیر کیا گیا۔ ساگوان کی لکڑی بڑی قیمتی اور دیرپا ہوتی ہے۔ اس لکڑی کا فرش رقص کے لئے انتہائی موزوں اور اعلیٰ ہے۔ لارنس ہال سرکاری تقریبات، عوامی اجتماعات، ڈراموں اور تھیٹر کی سرگرمیوں کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ ان دونوں ہالز کا انتظام اور آرائش و مرمت کا کام کبھی میونسپلٹی کمیٹی کرتی تھی۔ لارنس ہال کے باہر 1970ء تک ہر اتوار کو فوجی بینڈ مظاہرہ کیا کرتا تھا۔ ہم بھی اکثر اتوار کو یہ مظاہرہ دیکھنے جاتے تھے۔ بے شمار بچے اپنے والدین کے ساتھ فوجی بینڈ کی خوبصورت دھن سننے آیا کرتے تھے۔ دوسری طرف لارنس گارڈن کے گیٹ پر تانگوں کی ایک لمبی قطار کھڑی ہوتی تھی۔ پیلے اور کالے رنگ کی (دو رنگی) ٹیکسیاں برابر کھڑی ہوتی تھیں۔ گورنر ہائوس کے گیٹ پر دو/ تین سپاہی کھڑے ہوتے تھے۔ لارنس ہال کی چھت 33اور منٹگمری ہال کی چھت 28فٹ اونچی ہے۔ گوروں کے زمانے میں کسی بھی سرکاری میٹنگ کے لئے ہوٹل استعمال نہیں ہوتے تھے بلکہ سرکاری تقریبات اور میٹنگیں انہی ہالز میں ہوتی تھیں۔
لیں جناب آج آپ کو لاہور میں بجلی کے بارے میں کچھ بتاتے ہیں۔ آج کل بجلی کے بلوں نے لوگوں کی جان عذاب کی ہوئی ہے۔ کبھی اسی لاہور میں بجلی کا یونٹ چند پیسوں اور پھر مدتوں ایک روپیہ یونٹ رہا۔ لاہور میں فروری 1912ء میں بجلی آئی۔ یعنی لاہوریوں کو بجلی استعمال کرتے ہوئے پورے ایک سو گیارہ برس ہوچکے ہیں۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ بجلی آنے کے باوجود 1915ء تک لاہور میں بجلی استعمال کرنے والوں کی تعداد صرف 884 تھی جبکہ لاہور کی آبادی ایک لاکھ سے زیادہ ہو چکی تھی۔ لاہور میں بجلی کا آغاز ڈی سی بجلی سے ہوا یعنی ڈائریکٹ کرنٹ۔ ڈی سی میں ایک تار مثبت اور دوسرا منفی ہوتا ہے۔لاہور میں پہلا بجلی گھر میکلوڈ روڈ پر لگایا گیا تھا۔ جس کا آج کوئی نام و نشان نہیں۔ البتہ اس جگہ پہلے واپڈا کا اور اب لیسکو (بجلی کا محکمہ) کا دفتر ہے۔سب سے پہلے بجلی کی لائن میکلوڈ روڈ پاور ہائوس اور لارج منڈی سب اسٹیشن کے درمیان بچھائی گئی۔ لالہ لکشمن لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے پہلے چیئرمین مقرر ہوئے ، اس کمپنی نے صرف پچاس ہزار روپے سرمائے سے کام شروع کیا۔
جس روز لاہور میں بجلی کا افتتاح ہونا تھا گول باغ (کمپنی باغ اور اب ناصر باغ) کو بلبوں کے ذریعے روشن کیا گیا تھا۔ لاہور یئے بجلی کے قمقوں کو دیکھ کر حیرت میں مبتلا ہوگئے تھے۔ شہر کے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ کوئی شیطانی کھیل ہو رہا ہے۔ بجلی کا افتتاح لیفٹیننٹ گورنرہزآئز سر لوئس نے کیا۔ آپ یہ سوچیں کہ 1912ء سے پہلے شام اور رات کے وقت اس لاہور کے لوگوں کی زندگی کیسی ہوتی ہوگی؟شہر میں مٹی کے تیل ، سرسوں کے تیل کے دیّے، موم بتیاں اور مٹی کے دیّوں وغیرہ سے لوگ زندگی بسر کرتے تھے۔ کپڑے استری کرنے کے لئے کوئلے والی استریاں استعمال ہوتی تھیں۔ البتہ گورا اپنے ساتھ اسٹیم کی استریاں بھی لایا تھا۔ ہم نے وہ استریاں دیکھی ہیں۔ اس شہر لاہور کی زندگی بجلی کے بغیر بڑی عجیب تھی۔ بجلی پول انسانی قد کے برابر ہوا کرتے تھے۔ مٹی کے تیل کے لیمپ والے پول تھے۔ ان کے بارے میں آئندہ بتائیں گے۔ (جاری ہے)