• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگلے روز قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے سنڈیکیٹ کے اجلاس کا اہم اور خوش آئند فیصلہ سامنے آیا ، جس میں اسٹوڈنٹس یونین کو بحال کرنے کا اعلان کیا گیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس فائز عیسی نے بھی سنڈیکیٹ ممبر کی حیثیت سے اس اجلاس میں شرکت کی اور انہوں نے بھی اس فیصلے کی حمایت کی لیکن اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس سے منسوب ایک بیان بھی میڈیا میں رپورٹ ہوا ، جس کے مطابق چیف جسٹس نے رائے دی کہ اسٹوڈنٹس یونینز غیر جماعتی ہوں ۔ یہ بیان اگر درست ہے تواس پر کچھ لوگ حیران ہیں ۔


فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے آج سے تقریبا ًنصف صدی قبل 1984ء میں طلباء یونین پر پابندی عائد کردی تھی اور اس کا جواز یہ بتایا تھا کہ طلباء تنظیمیں بنیادی طور پر سیاسی جماعتوں کی ذیلی تنظیمیں ہوتی ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ان طلباء تنظیموں کے ذریعے طلباء کو سیاست میں ملوث کرکے نہ صرف انہیں تعلیم سے دور کر دیتی ہیں بلکہ انہیں خراب کر دیتی ہیں ۔ ضیاء الحق اور ان کے فکری حامیوں کا یہ مفروضہ پاکستان کے آئین کی بنیادی روح کے منافی تھا کیونکہ آئین اظہار رائے اور تنظیم سازی کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے ۔ اس مفروضے کی جڑیں سیاست اور جمہوریت دشمن قوتوں کی اس منصوبہ بندی میں پیوست تھیں ، جس کے تحت سیاسی اور جمہوری قوتوں کو کچلا گیا ۔ جنرل ضیاء الحق نے 1984میں نہ صرف طلباء یونین پر پابندی عائد کی بلکہ سیاسی جماعتوں کو 1985ء کے انتخابات میں حصہ بھی نہ لینے دیا ۔ ان انتخابات کا غیر جماعتی بنیادوں پر انعقاد کرایا ۔ اس کا دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ انہوں نے سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی ۔ 1984 ء میں طلباء یونین پر پابندی کے فیصلے کو 1985 ء کے غیر جماعتی انتخابات سے جوڑ کر دیکھنا چاہئے ۔ اس سے ایک آمر نے پیغام دیا کہ سیاست صرف طلباء کے لئے نہیں بلکہ پورے معاشرے کے لئےخراب ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ طلباء یونین کے غیر سیاسی ہونے کی جو بات کر رہے ہیں ، انہیں سمجھنا چاہئے کہ ان کی اس دلیل کو غیر سیاسی قوتیں پورے سماج کے لئے درست قرار دے سکتی ہیں ۔


کوئی بھی گروہی یا تنظیمی سرگرمی غیر سیاسی نہیں ہوتی۔ اگر طلباء تنظیمیں یونین کے انتخابات کے لئے اپنے نام پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن ، مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن ، انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن ، اسلامی جمعیت طلباء ، پختون ، بلوچ ، سندھی ، سرائیکی یا پنجابی اسٹوڈنٹس فیڈریشنز وغیرہ کی بجائے ٹائیگرز ، لاینز (Lions ) ، کنگز ، اسٹارز یا پلے بوائز گروپس وغیرہ رکھ لیتی ہیں تو بھی وہ غیر سیاسی نہیں ہوں گی اور کسی نہ کسی سیاسی جماعت یا گروہ سے منسلک ہوں گی ۔ صرف نام غیر سیاسی رکھنے سے کسی بھی گروہی یا تنظیمی سرگرمی کو غیر سیاسی نہیں بنایا جا سکتا ۔


طلباء تنظیمیں اور طلباء یونینز نہ صرف سیاست کی نرسریز ہیں بلکہ ان سے طلباء میں مثبت رحجانات پیدا ہوتے ہیں ۔ یہ جمہوری رویوں اور برداشت کو پروان چڑھاتی ہیں۔ ان سے نوجوانوں میں قیادت کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ۔ جب سے طلباء یونین پر پابندی عائد کی گئی ہے ، تب سے نوجوانوں میں انتہا پسندی کے رحجانات بڑھے ہیں ۔ اگر طلباء تنظیموں کو سیاست سے بچانا ضروری ہوتا تو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح 1947 ء میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی تشکیل نہ ہونے دیتے یا ذوالفقار علی بھٹو 1972 ء میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن نہ بناتے ۔


پاکستان میں طلباء سیاست کو اگرچہ بعض قوتوں نے تصادم کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی لیکن طلباء سیاست کی تاریخ بہت قابل فخر رہی ہے ۔ طلباء کا جمہوری جدوجہد میں بہت اہم کردار رہا ہے ۔ طلباء نے تعلیمی اداروں میں ہر سال انتخابات کراکے نہ صرف جمہوری عمل کو پروان چڑھایا بلکہ طلباء کی صلاحیتوں کو بھی اجاگر کیا ۔ ایوبی آمریت کے خلاف تحریک میں طلباء نے جس طرح ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ، اس پر ہی آمریت پسند قوتیں طلباء سیاست کے خلاف ہو گئیں ۔ اس تحریک میں ترقی پسند طلباء کی تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن ( این ایس ایف ) کا کردار سب سے نمایاں تھا ، اس سے قبل ڈیمو کریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن ( ڈی ایس ایف ) اور لبرل اسٹوڈنٹس فیڈریشن ( ایل ایس ایف ) کے ناموں سے دیگر دھڑے بھی پیدا ہوئے۔ DSF پر پابندی کے بعد NSFبنائی گئی۔ ایوبی آمریت کے خلاف تحریک میں ترقی پسند طلباء کے کردار کو دیکھتے ہوئے پہلے آمریت نواز قوتوں نے رجعتی سیاسی جماعتوں کی طلباء تنظیموں کو اسلحہ اور وسائل دے کر مضبوط کیا ۔ یہی آمرانہ قوتیں طلباء سیاست میں تشدد کو لے آئیں ۔ اس کے باوجود طلباء میں سیاسی رواداری اور برداشت پروان چڑھتی رہی ۔ 1960 ء کے عشرے کی طلباء سیاست نے ہی پاکستان کو اب تک کی بہترین سیاسی قیادت فراہم کی ۔ چاہئے وہ بائیں بازو کی ہو یا دائیں بازو کی ۔ طلباء سیاست میں تشدد کو ضیاء الحق کے دور میں رواج دیا گیا اور پھر اسے جواز بنا کر طلباء یونین پر پابندی لگا دی گئی ۔


جناب چیف جسٹس آف پاکستان نے جو رائے دی ہے ، اس کا احترام کرتے ہوئے میں اختلاف کروں گا ۔ طلباء یونین غیر سیاسی صرف نام کی ہو سکتی ہے ۔ اپنے جوہر میں غیر سیاسی نہیں ۔ سیاست کسی خرابی کا سبب نہیں بنتی بلکہ انتہا پسندانہ رویوں سمیت بہت سی خرابیوں کو دور کرتی ہے ۔ 1950، 1960 اور 1970 ء کے عشروں کی طلباء سیاست مثالی تھی ۔ نوجوان غیر سیاسی ہوں گے تو گمراہی کا شکار ہوں گے اور عملی زندگی میں ان کی واضح اور درست سوچ نہیں ہو گی ۔ جس طرح ضیاء الحق نے پہلے طلباء یونینز پر پابندی لگا کے پھر سیاسی جماعتوں کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کی تھی ، بالکل اسی طرح نوجوانوں کے غیر سیاسی ہونے سے ملک میں سیاسی جماعتیں نہیں پنپ سکتی ہیں ۔ صرف فسطائی سوچ پروان چڑھے گی ۔ طلباء یونینز نہ صرف بحال ہونی چاہئیں بلکہ وہ سیاسی بھی ہوں ۔ تعلیم سیاسی اور ثقافتی سرگرمیوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ۔

تازہ ترین