• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لندن میں جوں جوں سردی کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے،سیاسی حدت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ایجوئر روڈ پاکستان سے آئے مسلم لیگی رہنماؤں سے بھرا پڑا ہے۔ہر دن سابق وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کرنے والوں کا رش بڑھتا جارہا ہے۔نوازشریف کی 21اکتوبر کو واپسی حتمی ہے۔لیکن شہباز شریف اور مریم نواز کے اچانک لندن پہنچنے کی وجہ سے مختلف قیاس آرائیوں نے جنم لیا۔سوشل میڈیا اور بعض چینلز نے شہباز شریف کی لندن سے پاکستان آنے کے دو دن بعد دوبارہ لندن واپسی کو کسی اہم پیغام سے جوڑنا شروع کردیا۔یہاں تک کہا گیا کہ شہباز شریف اور مریم نواز مل کر نواز شریف کو قائل کریں گے۔سابق آرمی چیف جنرل باجوہ اور فیض حمید کا آئندہ نام نہ لینے کا مشورہ دیا جائے گا۔اسٹیبلشمنٹ کا ایک دھڑا نوازشریف سے شدید نالاں ہوگیا ہے۔پھر اسی دوران تحریک انصاف سے مذاکرات کی بھی خبریں اڑائی گئیں۔لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔


اسٹیبلشمنٹ میں اس وقت صرف ایک دھڑا ہے اور وہ آرمی چیف ہے۔اسٹیبلشمنٹ کی آئندہ سیاسی منظر نامے کے حوالے سے منصوبہ بندی واضح او رحتمی ہے۔شہباز شریف کسی قسم کا کوئی پیغام لے کر لندن نہیں گئے بلکہ مریم نواز صاحبہ کو نوازشریف سے مشاورت اور 21اکتوبر کی منصوبہ بندی کے حوالے سے لندن جانا تھا تو شہباز شریف کو بھی واپس لندن آنے کا کہا گیا ۔تاکہ تمام مشاورت اور اہم فیصلے ان کی موجودگی میں کیے جاسکیں۔باقی نوازشریف کی کسی بھی تقریر پر کہیں سے بھی کوئی ردعمل نہیں آیا۔اگر سابق وزیراعظم نوازشریف کی گزشتہ چھ ماہ کی میڈیا ٹاک اور پارٹی میٹنگز کی گفتگو اٹھا کر دیکھ لیں تو بات سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ وہ ان سب کرداروں کے نام اپنی ہر گفتگو میں لیتے ہیں۔اس لئے پارٹی ٹکٹ ہولڈرز کی میٹنگ میں یہ نام لینا کوئی نیا نہیں تھا۔نوازشریف اس وقت پاکستانی سیاست کا محور ہیں اور آئندہ عام انتخابات میں اپنی جماعت کو لیڈ کرنے جارہے ہیں۔اکتوبر میں ان کی وطن واپسی کے بعد پاکستان کی سیاسی ہوائیں بدلنا شروع ہوجائیں گی۔ایک ،ایک حلقے سے کئی امیدوار ٹکٹ لینے کے حصول کے لئے قطار میں کھڑے ہونگے مگر ٹکٹ ملنا مشکل ہوگا۔جن کیسز میں نواز شریف کو سزائیں سنائی گئی ہیں،ان کا گراؤنڈ اتنا کمزور ہے کہ ہائیکورٹ پہلی ہی سماعت پر سزائیں معطل کردے گی۔اس لئے وطن واپسی پر نوازشریف کے خلاف تیارکئےگئے تمام کیسز کا ختم ہونا یقینی ہے۔


آئندہ عام انتخابات میں نوازشریف ہی مسلم لیگ ن کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے واحد امیدوار ہونگے۔ظاہری طور پر ان کے وزیراعظم بننے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آرہی۔اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے انہیں کسی قسم کے پیغام رساں کی ضرورت نہیں ہے۔دونوں فریقین میں اعتماد کا یہ عالم ہے کہ ہر طرح کی بات براہ راست کرلیتے ہیں۔اسٹیبلشمنٹ بطور ادارہ یہ طے کرچکی ہے کہ نوازشریف کے معاملے میں 2017سے زیادتیوں کا جو سلسلہ شروع کیا گیا،اس کا مداوا کیا جائے گا۔نوازشریف کی چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کی خواہش ہے یا نہیںلیکن سب کی یہ ہر ممکن کوشش ہے کہ نوازشریف کو وزیراعظم بنایا جائے۔آج کل لندن میں نوازشریف انتہائی مصروف ہیں۔ان کے دن کا آغاز صبح فجر کے بعد اور اختتام رات گیارہ بجے ہوتا ہے۔پاکستان واپسی کے حوالے سے شہباز شریف ،مریم نواز اور اسحاق ڈارسے تفصیلی مشاورت جاری ہے۔ان کی باعزت واپسی میں حائل قانونی پیچیدگیوں کے حوالے سے اصل مشاورت کی گئی ہے۔لیکن اس میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ ان کی کسی تقریر کی وجہ سے کوئی ردعمل سامنے آیا ہے۔2016سے2022تک جو کچھ ادارے میں ہوتا رہا ہے،اسٹیبلشمنٹ صدق دل سے ان کرداروں کے خلاف زبردست قسم کی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔لیکن صحیح وقت کا انتظار کیا جارہا ہے۔جبکہ سپریم کورٹ کے جس حاضر سروس جج کا نام لیا گیا،ان کے خلاف تو خود سپریم کورٹ کی عمارت سے آوازیں باہر آرہی ہیں کہ اختیارات سے تجاوز اور غیر آئینی اقدامات پر ان کے خلاف ایکشن نوشتہ دیوار ہے۔باقی نوازشریف کی اسرائیلی یا کسی بھی ملک کے اہم عہدیدار سے خفیہ ملاقات کی جھوٹی و من گھڑت خبریں وہی چند سوشل میڈیا اکاؤنٹس پھیلارہے ہیں ،جنہوں نے ماضی میں عمران خان کو مسیحا بنا کر پیش کیا اور کہا کہ یہ پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں دلائے گا۔مگر اس کی نااہلی نے ہنستا بستا پاکستان اجاڑ کررکھ دیا۔یہی تحریک انصاف کے چند پروپیگنڈا اکاؤنٹس ماضی میں نوازشریف کے بھارت اور پتہ نہیں کس کس ملک سے خفیہ مراسم جوڑتے رہے۔مگر یہ حقائق ہیں کہ نوازشریف کے ساتھ ہونے والے بدترین سلوک کے باوجود کوئی ملک اس حد تک نہیں گیا ،جو آج عمران کےلئے جارہے ہیں۔سعودی عرب،چین،ترکی اور لبنان جیسے ممالک نے نوازشریف کے پلڑے میں اپنا وزن ضرور ڈالا مگر جو کچھ ہوا سب کے سامنے تھا۔جنرل(ر) مشرف، نوازشریف کا بدترین مخالف تھا،لیکن ان کے انٹرویوز آج بھی آن ریکارڈ ہیں کہ نوازشریف ایک محب وطن سیاستدان ہے۔باقی ادارے بہتر جانتے ہیں کہ عمران خان کی معافی اور رہائی کے حوالے سے اسرائیل ودیگر مغربی ممالک کس حد تک جانے کو تیار ہیں۔کسی نے تحریک انصاف کے بارے میں درست کہا ہے کہ لمحہ موجود میں جو جرم یہ خود کررہے ہوتے ہیں،بعینہ اس کا الزام دوسروں پر لگارہے ہوتے ہیں۔

تازہ ترین