کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) نظام شمسی کی ساڑھے چار ارب برس پرانی باقیات کا نمونہ ناسا تک پہنچ گیا۔ نظام شمسی کی دوسری جانب سے سیارچے کا ایک ٹکڑا زمین پر پہنچ گیا ہے جو ناسا کے اوسائرس ریکس مشن کی بڑی کامیابی ہے۔ ناسا کے خلائی جہاز نے کئی سال تک سیارچے ’بینو‘ کی طرف پرواز کی اور اس کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے بعد اسے زمین پر بھیجا تاکہ محققین اس کا مطالعہ کرسکیں۔ سیارے کا نمونہ زمین پر پہنچنے کے بعد وہ مشن مکمل ہے جس میں سات سال لگ گئے۔ خلائی جہاز نے سیارے تک پہنچنے کے لیے چار ارب میل کا سفر کیا۔ اس خلائی مشن پر ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی لاگت آئی۔ سائنس دان اس مواد کا تجزیہ کرنے کے لیے کام شروع کریں گے، اس امید میں کہ پتہ لگایا جا سکے کہ سیارے کیسے بنتے ہیں اور اپنے ماضی بعید میں ہمارا نظام شمسی کیسا تھا۔ ناسا نے 2016 میں اپنا اوسائرس ریکس خلائی جہاز بینو پر بھیجا۔ وہ 2020میں دور افتادہ سیارچے پر اترا اور اس کا ایک ٹکڑا بطور نمونہ حاصل کیا۔ یہ امریکی خلائی ایجنسی کا کسی سیارچے سے نمونہ جمع کرنے کا پہلا مشن ہے۔ یہ زمین پر پہنچنے والا کسی سیارچے کا اب تک کا سب سے بڑا نمونہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق نمونے لانے والے کیپسول میں سیارچے کی سطح سے لی گئی تقریباً ڈھائی سو گرام چٹانیں اور دھول موجود ہے۔ ناسا 35 سے زیادہ عالمی اداروں کے دو سو سے زیادہ افراد کے ایک گروپ کو نمونے کا ایک چوتھائی حصہ فراہم کرے گا۔ ان لوگوں میں مانچسٹر یونیورسٹی اور نیچرل ہسٹری میوزیم کے سائنس دانوں کی ایک ٹیم بھی شامل ہے۔ سیارچہ بینو ہمارے ابتدائی نظام شمسی کی ساڑھے چار ارب سال پرانی باقیات ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ سیاروں کی تشکیل اور ارتقا پر روشنی ڈالنے میں مدد دے سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کاربن سے مالا مال اور زمین کے قریب موجود سیارچہ نظام شمسی کی ابتدائی ترین تاریخ کے لیے ٹائم کیپسول کا کام کرتا ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ یہ نمونہ اہم سراغ فراہم کرے گا جو ہمیں اس نامیاتی مادوں اور پانی کے اصل کو سمجھنے میں مدد دے سکتا جو ہو سکتا ہے کہ زمین پر زندگی کا سبب بنے ہوں۔ چوں کہ نمونہ براہ راست سیارچے سے لیا گیا ہے اس لیے اس میں تقریبا صفر آلودگی ہو گی۔ زمین پر گرنے والے شہاب ثاقب ہماری فضا میں داخل ہونے کے بعد ایک لمحے میں آلودہ ہوجاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بینو ہمیں ماضی کی صاف جھلک فراہم کر سکتا ہے۔ نیچرل ہسٹری میوزیم میں یو کے آر آئی کے فیوچر لیڈرز فیلو ایشلی کنگ کا کہنا ہے کہ اوسائرس ریکس نے دو سال سے زیادہ عرصے تک سیارچے بینو کا مطالعہ کیا اور پانی کی وجہ سے کیمیائی طور پر تبدیل ہونے والے نامیاتی مادوں اور معدنیات کے شواہد تلاش کیے۔ ’یہ زمین جیسے سیاروں کی تشکیل کو سمجھنے کے لیے اہم اجزا ہیں۔ اس لیے ہم بینو سے آنے والے نمونوں کا مطالعہ کرنے والے پہلے محققین میں شامل ہونے پر خوش ہیں۔ ’ہم سمجھتے ہیں کہ بینو کے نمونے حال ہی میں ونچ کم میں گرنے والے شہاب ثاقب سے ملتے جلتے ہوسکتے ہیں لیکن وہ زمینی ماحول کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی سے زیادہ تر پاک اور زیادہ قدیم ہوں گے۔