قومی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر حارث رؤف نے اپنی زندگی کے مشکل دور کی داستان سنا دی۔
کرکٹ سے متعلق مشہور ویب سائٹ ای ایس پی این کرک انفو نے حارث رؤف کی کرکٹر بننے سے قبل مشکلات سے بھری زندگی پر ایک دستاویزی فلم بنائی ہے۔
حارث رؤف پاکستان کے شہر راولپنڈی کے رہائشی ایک ویلڈر کے گھر پیدا ہوئے اور وہ اپنے 7 بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔
دستاویزی فلم میں حارث رؤف نے کرکٹر بننے سے قبل اپنی زندگی کے مشکل حالات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ کرکٹ کھیلنے کے لیے میں نے اپنے ابو سے بہت مار کھائی ہے، کرکٹ کھیلنے پر میں نے ابو سے تین تین بار بھی مار کھائی ہے لیکن پھر بھی میں کرکٹ کھیلتا تھا۔
فاسٹ بولر نے بتایا کہ میں چار یا پانچ سال کی عمر سے کرکٹ کھیل رہا ہوں، میں اپنے محلے میں لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتا تھا، ہمیں ایک گلی میں کرکٹ کھیلنے سے منع کیا جاتا تو دوسری گلی میں چلے جاتے تھے اور وہاں سے منع کیا جاتا تھا تو تیسری گلی میں چلے جاتے تھے۔
اُنہوں نے بتایا کہ پاکستان میں سب کے لیے خراب معاشی صورتِ حال ہی ایک اہم مسئلہ ہے تو میرے والد اور چچا سب ایک ہی چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے اس لیے جب چچاؤں کی شادیوں کے بعد ان کو کمرے دینے پڑے تو ایسے حالات آ گئے کہ ہمیں کچن میں بھی سونا پڑا۔
حارث رؤف نے بتایا کہ پھر ایسی صورتِ حال میں ہم لوگ دوسرے گھر میں شفٹ ہو گئے وہاں پاس میں کرکٹ گراؤنڈ تھا جہاں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی جاتی تھی اور اُدھر مشہور کرکٹرز بھی آتے تھے میں اُنہیں دیکھا کرتا تھا لیکن ظاہر سی بات ہے کہ جب میرے پاس گھر سے کرکٹ کھیلنے کے لیے سپورٹ نہیں تھی تو میں کلب میں جا کر کرکٹ نہیں کھیل سکتا تھا صرف ٹیپ بال کرکٹ کھیلتا تھا۔
فاسف بولر نے بتایا کہ میں ٹیپ بال کرکٹ بہت شاندار کھیلتا تھا اس لیے ٹیپ بال کرکٹ پروفشنل لیول پر کھیلنا شروع کر دی، یہ میں صرف اپنی یونیورسٹی کی فیس پوری کرنے کے لیے کھیلتا تھا اور اتوار کے روز بازار میں نمکو بھی بیچا کرتا تھا۔
اُنہوں نے بتایا کہ ٹیپ بال کرکٹ کھیل کر مہینے کے 2 سے ڈھائی لاکھ روپے بچائے جا سکتے ہیں تو میرے پاس اتنے پیسے ہو جاتے تھے، ان میں سے کچھ پیسے میں امی کو دے دیتا تھا اور باقی ضرورت کے وقت کے لیے سنبھال کر رکھتا تھا لیکن میرے ابو کو نہیں معلوم تھا کہ میں اتنے پیسے کما لیتا ہوں۔
حارث رؤف نے بتایا کہ میری امی کا خواب تھا کہ ہمارا گھر اپنا ہو تو میں پیسے یہ سوچ کر بچاتا تھا کسی اچھی جگہ سرمایہ کاری کر سکوں تاکہ ہم اپنا گھر بنا سکیں۔
اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ آج میرے پاس گھر ہے، گاڑی بھی ہے، میں نے جب گاڑی خریدی تو ابو کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اُنہوں نے کہا کہ میری کبھی اس میں بیٹھنے کی بھی حیثیت نہیں تھی، اگر میری فیملی خوش ہے تو میں خوش ہوں اور یہ میرے لیے فخر کی بات ہے۔