اعلیٰ تعلیمی کمیشن ایک بار پھرحملے کی زد میں ہے اور اس بار حکومت سندھ کی جانب سے۔ پچھلی حکومت کی جانب سے تعلیم کے لئے بیرونِ ملک بھیجے گئے ہزاروں طلبہ کے وظائف روک لئے گئے تھے حتیٰ کہ تعلیم جاری رکھنے کے لئے انہیں بیرونِ ممالک کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑا اور مجبوراً مسجدوں کے باہر چندہ جمع کرنا پڑا کیونکہ ان میں سے بیشتر طلبہ غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ میں نے بحیثیت چیئرمین اعلیٰ تعلیمی کمیشن پیپلزپارٹی کے عہدیداروں سے درخواست کی لیکن ساری کوششیں ناکام رہیں،احتجاجاً میں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد پروجیکٹوں کی منظوری کے لئے DDWP میں کی جانے والی میٹنگوں کے اختیارات چھین لئے گئے حتیٰ کہ ایگزیکیٹو ڈائریکٹر کے وفاقی سیکریٹری کی حیثیت ختم کر دی گئی اور یہ اختیارات بھی چھین لئے گئے ۔پھر ایچ ای سی کے بجٹ میں کٹوتی کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کو صوبے میں تحلیل کرنے کی سازش رچائی گئی۔ کسی بھی ادارے کو تباہ کرنے کا اس بہتر کون ساطریقہ ہوگا کہ اسے ٹکڑوں میں بانٹ دیا جائے؟ گزشتہ پانچ سالوں میں، میں اس کی غیر قانونی تحلیل اور پھر اسے وزارتِ تعلیم کا ماتحت ادارہ بنائے جانے کی سازشوں کے خلاف دو مرتبہ عدالت عظمیٰ میں پٹیشن دائر کر چکا ہوں۔ خوش قسمتی سے میں دونوں مرتبہ کامیاب ہوا اور قوم عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کی شکر گزار ہے تاہم پاکستان کے دشمن اب بھی اس اہم ادارے کو برباد کرنے کے لئے ڈٹے ہوئے ہیں۔ PML(N)نے ہر مرتبہ ایچ ای سی کا ساتھ دیا ہے جس کی وجہ سے قوم PML(N) کی مشکور ہے۔
اعلیٰ عدالتی فیصلے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے حکومت سندھ نے ابھی اسی سال ایک قانون جاری کیا ہے جس کے تحت اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے اختیارات کے مساوی ’سندھ ایچ ای سی ‘قائم کیا گیاہے جوکہ وفاقی اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے تمام اختیارات سنبھالتے ہوئے اپنے فرائض انجام دے گا۔ یہ نوٹس حال ہی میں جاری ہوا ہے۔ یہ بالکل غیر قانونی ہے کیونکہ وفاقی قانون کی موجودگی میں (آئین کی شق 143کے تحت) صوبائی قانون لاگو نہیں ہو سکتا۔12اپریل 2011ء میں عدالت عظمیٰ پہلے ہی احکامات جاری کر چکی ہے کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن ایک وفاقی ادارہ ہے جو کہ آئین کی اٹھارویں ترمیم کے تحت مکمل طور پر محفوظ ہے۔اس کے رتبے کو ہر گز تبدیل نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ وفاقی پارلیمنٹ کوئی نیا قانون نہ جاری کرے اور اس کے آئین میں ترمیم کرنی ہوگی۔اٹھارویں آئینی ترمیم کے سلسلے میں قائم کی جانے والی آئینی اصلاحاتی کمیٹی کے فیصلے کے مطابق ابتدائی تعلیمی و دیگر تعلیمی امور صوبائی سطح پر کئے جائیں گے لیکن اعلیٰ تعلیمی امور چونکہ قومی ہم آہنگی اور قومی ترقی سے وابستہ ہیں اس لئے انہیں وفاقی سطح ہی پر رکھا جائے گا۔ اسی لئے اعلیٰ تعلیم و تحقیق دنیا بھر میں وفاق ہی کا حصہ ہیں جس میں بھارت ، کوریا، ترکی ، چین، انگلستان اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کی ترتیب نمبر4 (آرٹیکل نمبر 70(4) ) ( وفاقی قانون ساز فہرست حصہ ۔اوّل و حصہ ۔ دوم ) میں موجودہ ایچ ای سی افعال و اختیارات کی رو سے قانونی طور پر محفوظ ہے اور منشور میں اعلیٰ تعلیم اور تحقیق وفاق کا حصہ ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی ضابطہ کمیٹی میں تمام صوبائی وزراء کے سیکریٹری یا ان کے نامزدکردہ نمائندے بھی شامل ہوتے ہیں تاکہ ان کی رائے اور مشورہ بھی پروجیکٹ کی منظوری کے لئے شامل کیا جاسکے اور صوبائی مشوروں کی تائید کرسکے۔ اس طرح تمام صوبے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے تحت پالیسیوں اور پروجیکٹ کی انجام دہی اور تکمیل میں بھرپور حصّہ لے سکتے ہیں۔
اکتوبر 2002ء میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا ایک خود مختار ادارے کی حیثیت سے قیام نے (جس کا 16 رکنی بورڈ براہ راست وزیراعظم کو جوابدہ تھا) تاریخ پاکستان میں ایک تابندہ باب کو رقم کیا ہے۔ ایچ ای سی کے چئیرمین کا رتبہ قانون کی رو سے وفاقی وزیر کے برابر ہے اور ایگزیکیٹو ڈائریکٹر کا رتبہ وفاقی سیکریٹری کے برابر تھا۔ پچھلے10 سال میں ہماری جامعات میں رونما ہوئی اس ڈرامائی تبدیلی کی منظر کشی عالمی بینک، برٹش کونسل، USAIDِِ، رائل سوسائٹی (لندن)، اقوامِ متحدہ کمیشن برائے فروغِ سائنس و ٹیکنالوجی نے بڑے مفصّل اور زخیم مسودوں کی صورت میں پیش کی ہے۔ ہماری جامعات میں سے 6جامعات کا شمار دنیا کی چوٹی کی 600 جامعات میں آگیا تھا اور 2کا شمار چوٹی کی 300جامعات میں تھاجبکہ 2003ء تک کسی بھی پاکستانی جامعہ کا نام اس فہرست میں نہیں تھا۔طلبہ کا اندراج2003ء میں 270,000 سے بڑھ کر آج دس لاکھ تک پہنچ گیا ہے۔ جامعات کی تعداد 59سے بڑھ کر آج 157تک پہنچ گئی ہے۔ 2000ء میں پاکستان میں صرف700تحقیقی مقالات شائع ہوئے تھے یہ تعداد بڑھ کر 2012ء میں9000تحقیقی اشاعت تک پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ 10 سالوں میں 5000 سے زائد Ph.D. کی ڈگریاں جاری کی گئیں جبکہ 2003ء سے پہلے 55سال میں صرف 3500 Ph.D. کی ڈگریاں جاری کی گئیں تھیں۔ پروفیسر مائیکل روڈے چیئرمین اقوامِ متحدہ کمیشن برائے فروغِ سائنس و ٹیکنالوجی جو کئی مواقع پر پاکستان بھی آ چکے ہیں پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی نظام کے بارے میں انہوں نے ایک تجزیہ پیش کیا ہے جو کہ ایک اخبار میں 2008ء میں شائع ہوا جو نذرقارئین ہے۔’ اگر دنیا بھر کے مختلف ممالک میں اعلیٰ تعلیمی معیار کا ذکر کریں تو بنا خلاف رائے یہ کہا جاسکتاہے کہ ترقی پذیر ممالک کی صف میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے اعلیٰ تعلیمی میدان میں حالیہ برسوں میں مایہ ناز ترقی کا مظاہرہ کیا ہے۔ دنیا کے کسی ملک نے اس قدر شاندار ترقی کی منازل نہیں طے کیں جو کہ پاکستان نے ان چھ سالوں میں حاصل کیں‘۔ 2003ء تا 2008ء میں ہماری جامعات میں رونما ہوئی تابناک ترقی نے بھارت میں اعلیٰ ترین سطح پر خطرے کی گھنٹیاں بجادیں ، بھارتی وزیراعظم کو میری قیادت میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی جانب سے رونما ہوئی شاندار ترقی کی ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی جسے نیہا مہتا نے 23 جولائی 2006ء میں ’ہندوستان ٹائمز میں اپنے مقالے ’بھارتی سائنس کو پاکستان سے خطرہ‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ بھارت کو اس کے لئے قطعی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ پاکستان کو اصل خطرہ تو اپنے ہی ملک کے بدعنوان سیاستدانوں سے تھا جو اس ملک کو بری طرح تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ہمارا معیار تو اس قدر گر گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وفاقی وزیر برائے تعلیم ’وقاص اکرم‘ ہی جعلی ڈگریوں کے حامل پائے گئے۔
اب امید کی کرن پاکستان مسلم لیگ (ن) ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنے منشور میں اعلان کر دیاہے کہ وہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی خود مختاری کو محفوظ رکھے گی۔ بلاشبہ سینیٹر رزینہ عالم خان، ماروی میمن اور دیگر اراکین مسلم لیگ (ن) ماضی میں ایچ ای سی کی تحلیل کے خلاف ہمارے ساتھ تھے۔اب جامعات کے اساتذہ کی سلامتی بھی حکومت سندھ کی مداخلت کی وجہ سے خطرے میں ہے جو اب جامعات کے وائس چانسلروں اور دیگر اعلیٰ افسروں کی تقرری کا فیصلہ اپنے ہاتھوں میں لے کر ان کی خود مختاری چھیننا چاہتی ہے۔ سندھ حکومت کے ہاتھوں میں جس خستہ حال میں اسکولوں کا نظام ہے اب جامعات کا بھی وہی حال ہو گا اگر فوری طور پر اس کو نہ روکا گیا۔اس وقت اشد ضرورت ہے کہ عدالت عظمیٰ پاکستان، حکومت سندھ کے غیر قانونی اور اعلیٰ عدالتی فیصلے کی توہین کے خلاف ازخود نوٹس لے اور اعلان کرے کہ سندھ اسمبلی میں 21 فروری2013 ء کو جاری کیا گیا قانون اور 26نومبر 2013ء کو جاری کیا گیا نوٹس غیر قانونی ہے اور جو لوگ بھی توہین عدالت کے مرتکب پائے جائیں انہیں سزائیں سنائی جائیں۔ حکومت سندھ کے اس غیر قانونی فیصلے کے خلاف میری دائرکردہ پٹیشن (ماروی میمن جس کی ساتھی پٹیشنر ہیں) سندھ ہائی کورٹ میں چھ مہینوں سے زیرسماعت ہے۔ جلد از جلد ضرورت ہے کہ اس مقدمے کی شنوائی کی جائے تاکہ مزید نقصان سے بچا جا سکے۔ عدالت عظمیٰ کو چاہئے کہ وزیر قانون سندھ کو اعلیٰ عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے اور ان سے توہین عدالت کا جواب طلب کرے۔