(گزشتہ سے پیوستہ)
لاہور ایک ایسا شہر ہے جس کی ہر گلی،محلہ، احاطہ، حویلی، کوچہ، کٹڑی، بازار اور ہر قدیم عمارت و باغ ایک تاریخ رکھتا ہے۔ اس لاہور کے بارے میں جوں جوں آپ ریسرچ کرتے چلے جائیں آپ کو ہر مرتبہ کوئی نیا پہلو سامنے آئے گا۔اور ایک عجیب مزہ اور سرور ملےگا۔ کم از کم ہمارے ساتھ تو ایسا ہی ہے ۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ 60/70کی دہائی تک لاہور کا قدیم تاریخی حسن بہت حد تک نہ صرف برقرار تھا بلکہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا مگر چونکہ ہمارے لوگوں کو لکھنے پڑھنے اور ریسرچ کا کوئی شوق نہیں۔چنانچہ سرکاری محکموں میں ایسے افراد آ گئے جنہیں لاہور کی تاریخی اور قدیمی اہمیت کا ذرہ برابر احساس نہیں تھا۔ان لوگوں نے ہر تاریخی عمارت کو توڑنے کے عمل کو جاری رکھا یہ توڑنے کا عمل اب تک کئی خاندانوں کو کروڑ پتی کر چکا ہے بہرحال والڈسٹی کا کام بھی کوئی اتنا قابل ستائش نہیں اور اس ادارے کے کئی لوگوں کو لاہور کے بارے میں علم بالکل نہیں اور اس ادارے میں وہ لوگ نہیں جنہوں نے لاہور کا مشاہدہ کیا ہرکتابی نالج اور مشاہدہ کے ذریعے جو علم حاصل کیا جاتا ہے اس میں بہت فرق ہوتا ہے بعض روایات اور معلومات صرف سینہ گزٹ کے ذریعے ہم تک آتی ہیں مگر کتابیں تحریر کرنے والے انہیں بعض اوقات نظر انداز کر جاتے ہیں۔ چلئے اپنے پچھلے کالم کے حوالے سےبات کرتے ہیں ہم نے اپنے کالموں میں اس دور کی تاریخ وحالات کا بھی احاطہ کیا جو ہم نے خود دیکھے ہیں یہ اللّٰہ پاک کی رحمت ہے کہ ہم نے وہ لاہور دیکھا ہے جو کبھی اصل لاہور تھا پچھلے ہفتے ہم نے بڑی مدت بعد بھاٹی دروازہ کے باہر لاہور میں پرانے وقتوں کا چلنے والا پیلے رنگ والا تانگہ اس میں سواریوں کو دیکھا ۔پرانا وقت بھی کوئی زیادہ دور نہیں اب سے صرف چالیس برس پہلے تک لاہور میں تانگہ ایک اہم سواری کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے ۔اس شہر کے لوگ بڑے محنتی اور ہنرمند بھی رہے ہیں تنگ اور چھوٹی گلیوں اور بازاروں میں ایسے ہنرمند افراد ہوتے تھے جو بڑی کمال کی چیزیں بنایا کرتے تھے اگر ہم ان کا ذکر کریں تو ایک کتاب بن جائے تانگہ بنانا بھی ایک فن ہے اس کا ذکر بھی کبھی کریں گے ۔بات کہاں سے کہاں چلی گی تانگہ کو کبھی شاہی سواری بھی کہا جاتا تھا ہم نے جو تانگہ بھاٹی دروازے کے باہر دیکھا تو اس کی حالت بالکل نئے تانگے جیسی تھی اور اس میں سواریاں بھی تھیں خیر ہم سے نہ رہا گیا اور اپنی موٹر کار تانگے سے آگے لے جا کر کھڑ ی کی اور اس کو ہاتھ دیکر روکا اور پوچھا کہ بھئی ابھی تانگہ شروع کیا ہے یا پرانا تانگہ چلا رہے ہو تو اس نے بتایا کہ تانگہ تو بیس پچیس برس سے چلا رہا ہوں درمیان میں میاں نواز شریف کی جب حکومت آئی تو تانگہ چلانے والوں کی بہت حوصلہ شکنی کی گئی بلکہ کئی سڑکوں پرتانگہ لے جانا ممنوع قرار دے دیا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ اندرون شہر کی طرف تھوڑا بہت تانگہ چلاتا رہا۔اب جب سے پٹرول مہنگا ہوا ہے امید ہے کہ لوگ پھر تانگہ سواری کی طرف آ جائیں گے ۔خیر اس سے بات چیت کے بعد اپنی موٹر کار میں آکر بیٹھ گئے ہمیں یاد ہے کہ مال روڈ پر کبھی تانگہ چلا کرتے تھے۔لارنس گارڈن کا مین گیٹ مال روڈ والا لاہور کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل جو کہ اسٹاف کالج کے سامنے ہے اور جی او آر ون تک تانگے آیا کرتے تھے۔ہم خود ڈاکٹر بلیغ الرحمن مرحوم جو کہ جی او آر ون میں رہتے تھے ان سے اپنی والدہ کا چیک اپ کرانے کیلئے تانگے پرہی آیا کرتے تھے ۔پھر مال روڈ پر تانگوں کا داخلہ بند کر دیا گیا البتہ انہیں مال روڈ بتی والا چوک ،چیئرنگ کراس اور کلب چوک تک کراس کی اجازت تھی ۔اور اب یہ اجازت بھی نہیں رہی اب تو مال روڈ پر ایک نمائشی بگھی کبھی کبھار چلائی جاتی ہے ۔میاں میر کینٹ میں صدر، آراے بازار اور مختلف سڑکوں پر تانگوں کو آمدورفت کی اجازت تھی بلکہ ملٹری ڈیری فارم کا دودھ، مکھن اور پنیر ،ملٹری ڈیری فارم کے تانگے پر سپلائی کیا جاتا تھا البتہ اس تانگے کے پہیے ربڑ والے چھوٹے ٹائروں والے تھے ہم نے اس تانگے پر شوقیہ طور پر سیر بھی کی ہے ۔نواز شریف نے لاہور میں تانگے بند کرکے بڑی زیادتی کی تھی۔چنگ چی رکشائوں، ویگنوں وغیرہ کی وجہ سے لاہور کا ماحول بہت زیادہ آلودہ ہو چکا ہے وہ لاہور جس کی صحت مند فضا میں مغل شہزادے اور شہزادیاں آکر اپنی صحت کو مزید بہتر کیا کرتے تھے آج یہ شہر بیماریوں کا گڑھ بن چکا ہے۔
تانگے کی سواری لاہور کی کبھی پہچان اور شان بھی تھی تانگوں کے علاوہ لاہور میں سامان کی نقل وحمل کے لئے ریڑھے استعمال کئے جاتے تھے۔ ریڑھے آج بھی لاہور میں چلتے ہیں تانگہ جو کہ امیر اور غریب سب کی کبھی سواری تھی امراء جنہیں آج کے دور میں اشرافیہ کہا جاتا ہے وہ اپنے بنگلوں، کوٹھیوں اور حویلیوں میں اپنے ذاتی تانگے اور گھوڑےرکھا کرتے تھے ۔ ہم نے خود بھاٹی اور لوہاری دروازے کے اندر کئی حویلیوں اور بڑے مکانات میں تانگے اور گھوڑے کھڑے دیکھے تھے چونکہ ہمارا لاہور کے چار دروازوں بھاٹی،لوہاری، موچی اور شیرانوالہ سے بہت ہی قریبی تعلق رہا ہے بلکہ بازار حکیماں میں وہ مکان جہاں سے علامہ اقبال ؒنے اپنی شاعری کا آغاز کیا تھا وہ آج بھی ہے اور یہیں پر ہماری اس مکان میں پیدائش بھی ہوئی تھی ۔
گوروں کے زمانے میں لاہور شہر میں بگھیاں اور ٹم ٹم بھی چلا کرتی تھیں بگھیاں آج کل بھی لاہور کی براتوں میں شوقیہ طور پر چلائی جاتی ہیں۔ٹم ٹم اور بگھیاں پرانی فلموں میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔ ایچی سن کالج (چیف کالج) میں آج بھی پرنسپل کالج کی بعض تقریبات میں خود یا مہمان خصوصی کے ساتھ بگھی میں بیٹھ کر آتاہے ۔چیف کالج کے ایک سابق پرنسپل شمیم خاں مرحوم تو اکثر کالج کی سیر بگھی میں کیا کرتے تھے یا پھر وہ سائیکل بہت چلایا کرتے تھے۔وہ غالباً واحد پرنسپل تھے جو کالج کے اندر اپنےگھر سے سائیکل پر دفتر آیا کرتے تھے اور کالج رائونڈ بھی اکثر سائیکل پر کیا کرتے تھےآج کل تو گورنمنٹ ایم اے او کالج کی خاتون پرنسپل ڈاکٹر عالیہ رحمان بھی سائیکل پر دفتر آتی جاتی ہیں ان کی سائیکل پر ڈینمو والی لائٹ بھی لگی ہوتی تھی بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ ایچیسن کالج میں ایک مندر گوردوارہ اور مسجد بھی ہے اس کے بارے میں پھر بتائیں گے۔پرنسپل عبدالرحمان قریشی مرحوم کے زمانے میں اس مندر سے مورتیاں بھی ملی تھیں۔ (جاری ہے)