• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب سے پاکستان بنا ہے ہردس پندرہ سال کے بعد صوبوں میں اضافے کا مطالبہ ہوتا رہا مگر ہر دور کے حکمران اس کو دباتے اور اس کو گالی سمجھتے رہے۔ سب سے پہلے کراچی سے دارالحکومت اسلام آباد منتقل کیا تو کراچی صوبے کا مطالبہ مرزا جواد بیگ، نواب مظفر حسین اور ایم ایم بشیر نے کیا،ان کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ بھٹودور میں جب سندھ کی سرکاری زبان سندھی قرار پائی تو مہاجروں یعنی اردو بولنے والوں کو احساس محرومی ہوا۔ اگر کراچی الگ صوبہ ہوتا تو کراچی کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان سرکاری ہوتی تو وہ اردو ہوتی۔ بےشک سندھ کے دیگرشہروں کی زبان سندھی ہو سکتی تھی جبکہ بلوچستان میں بلوچی اکثریت اور سرحد میں پختون اکثریت نے اردو ہی کو صوبائی، سرکاری زبان قرار دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پوری دنیا میں صوبوں کی تعداد کیوں بڑھائی جاتی ہے، اس کی وجہ سے عوام کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ایسا ضروری ہوتا ہے کیونکہ ہر 50میل کے بعد زبان اور ثقافت بدل جاتی ہے۔ مقامی لوگوں کی مشکلات صرف مقامی لوگ ہی سمجھتے ہیں۔ مرکز صرف چند اہم قومی شعبے اپنے پاس رکھ کر بقایا شعبے صوبوں کے حوالے کر دیتا ہے۔ دنیا کے لگ بھگ 220 ممالک میں ضرورت کے مطابق ہر ملک میں صوبوں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے اس سے مرکز کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہوتا ہے۔ کہیں اس صوبے کا نام ریاست یا کاؤنٹیز بھی ہوتا ہے ، ملک کا صرف ایک جھنڈا ہوتا ہے بقایا صوبوں اور ریاستوں کے جھنڈے الگ ہوتے ہیں ۔ ان کے قوانین بھی الگ ہوتے ہیں ، ہمارے ملک میں تمام شعبے مرکز کے قبضے میں ہیں۔ مرکز کو ہمیشہ پاکستان ٹوٹنے کا ڈر لگا رہتا ہے جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ اگر مرکز چند ضروری شعبے جس میں کرنسی، دفاع، امور خارجہ اور جو مناسب سمجھے اپنے پاس رکھ کر دیگر صوبوں کی تعداد بڑھا کر حوالے کر دے تو بقاء کے امکانات زیادہ ہیں۔ صوبوں کو آپ جتنی آزادی دیں گے وہ اتنے ہی پاکستان کے وفادار رہیں گے ۔ صوبوں کے اضافے کی سب سے اہم مثال ہمارا پڑوسی ملک بھارت ہے ، وہ جس وقت اس کے صرف 12صوبے تھے ، آج 28صوبے اور 7یونین، ٹیریٹریز بن چکی ہیں اور ہر سال وہ صوبوں کی تعداد بڑھا رہے ہیں۔ اگر اس کو نزدیک سے دیکھیں تو ان کی 35ریاستیں بن چکی ہیں۔سب سے بڑی ریاست جس کا نام یو پی ہے اس کی آبادی اور رقبہ پورے پاکستان سے زیادہ ہے۔ اس کی آبادی تقریباً17کروڑ اور رقبہ 2لاکھ 40ہزار مربع کلو میٹر ہے اور سب سے چھوٹا صوبہ سکھم ہے جس کی آبادی صرف 5لاکھ 40ہزار ہے اور رقبہ 7ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ اس سے بھی چھوٹا صوبہ جس کا نام یونین (UT-17) کہلاتی ہے وہ تقریباً 61ہزار افراد پر مشتمل ہے ۔ وہ صرف 35مربع کلو میٹر رقبہ پر مشتمل ہے۔ بھارت ہم سے زیادہ مضبوط جمہوری ملک ہے اس نے 12سے 35صوبے کیوں کئے؟
اب میں ایک بہت چھوٹے ملک تھائی لینڈ کی مثال دیتا ہوں جس کی کل آبادی 62ملین ہے۔ اس کے 76صوبے اور 877ڈسٹرکٹ ہیں۔برادر ملک ترکی کی آبادی صرف 71ملین ہے اس کے 81صوبے ہیں۔ انڈونیشیا کی آبادی 222ملین ہے ، اس کے 33صوبے ہیں ۔ یورپ کا ملک سوئٹزرلینڈ جس کی آبادی صرف 7ملین ہے، اس کی 23ریاستیں ہیں۔ اس کی سب سے بڑی ریاست زیورخ کی آبادی 11لاکھ اور سب سے چھوٹی ریاست Obwaldenکی آبادی صرف 31ہزار نفوس پر مشتمل ہے ۔ صرف ہمارے کراچی کی آبادی میں 2ملک سوئٹزر لینڈ بن سکتے ہیں۔ یہ ملک عقل، دولت، تجارت، صاف ستھری شہرت، صفائی اور حسین ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ کیا ہمارے سمجھنے کیلئے کافی نہیں ہے کہ جتنی ریاستیں (صوبے) زیادہ ہوں گی، ملک اسی حساب سے ترقی کرے گا۔ افغانستان جس کی آبادی 32ملین ہے ، اس کے بھی 34صوبے ہیں۔ دنیا میں سب سے بڑے رقبے والا ملک کینیڈا جس کے ایک شہر سے دوسرے شہر میں جانے کیلئے 8گھنٹے لگتے ہیں، اس کے بھی 13صوبے ہیں۔ آبادی صرف 33ملین ہے۔ سب سے بڑے صوبے اونٹاریو کی آبادی 12ملین ہے اور سب سے چھوٹے صوبے Nunavutکی آبادی صرف 31ہزار ہے۔ امریکہ 26کروڑ انسانوں کے ملک میں 51ریاستیں ہیں، جاپان کی آبادی 12کروڑ سے زیادہ ہے اور اس کے بھی 12صوبے ہیں۔ برطانیہ کی آبادی 5کروڑ ہے ، اس کی 90کاؤنٹیز ہیں ۔ سب سے چھوٹی کاؤنٹی شمالی امبرلینڈ جس کی آبادی صرف 62ہزار ہے ،سب سے بڑی کاؤنٹی پورٹ اسمتھ کی آبادی 50لاکھ ہے ۔ میں کتنی مثالیں پیش کروں ، میں نے پوری دنیا کو انٹرنیٹ میں سمو کر دیکھ لیا۔ 18کروڑ کی آبادی والے ملک پاکستان میں صرف 4صوبے اور ایک دارالحکومت اسلام آباد مجھے کہیں نظر نہیں آیا۔ ہم واحد ملک ہیں جس کے 5صوبے تھے۔
1971ء میں مشرقی پاکستان کے لیڈر اسی سوچ میں مبتلا تھے۔ ہم نے ان کی بات وقت پر نہیں سنی بعد میں ہم ہر بات ماننے پر جب تیار ہوئے تو وقت نے ہمارا ساتھ نہیں دیا اور ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ آج سندھ میں بھی کچھ ایسی آوازیں آنی شروع ہو چکی ہیں، صرف سرائیکی صوبے سے آپ غالباً اس ملک کے دیگر صوبوں کے سیاستدانوں کو مطمئن نہیں کر سکتے۔ یہ تو صرف ایک شوشا چھوڑا گیا کیونکہ 1971ء میں صرف ہمارا ایک ہی قومی چینل تھا جو ہر طرف امن کی بات کرتا تھا، سب ٹھیک ہے کی صدا سناتا تھا مگر آج تو 70سے زیادہ چینل آ چکے ہیں ۔ بھارت ، اسرائیل ، امریکہ سب مل کر اربوں ڈالر خرچ کر کے عوام کو بھڑکا رہے ہیں۔ ہم کیسے اس بحران سے نکل سکتے ہیں۔ جناب صدر اور وزیراعظم صاحب سے درخواست ہے کہ اس مسئلے کا حل سب سیاستدان مل کر نکالیں۔ صوبوں میں اضافہ وقت کی اہم ضرورت پہلے بھی تھی، آج اس سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ ہم 68سال کے بعد دوبارہ پھر بند گلی کی طرف جارہے ہیں ۔ آئیے اور صرف ایک نکتے پر سوچیں، ہمارے اتنے بڑے ملک پاکستان میں جس کی آبادی 18کروڑ ہے ۔ گلگت کے علاوہ اس کے صرف 4صوبے کیوں ہیں؟ اور پوری دنیا کیوں صوبوں کی تعداد بڑھاتی رہتی ہے۔ کل بھی ہم اس کو گالی سمجھتے تھے اور آج بھی اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔ کیا ہم دوبارہ غلطی نہیں دہرا رہے ہیں، سوچنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ پاکستان کی بقاء اور یکجہتی کا معاملہ ہے ۔ آج کراچی شہری صوبہ، ہزارہ صوبہ اور سرائیکی صوبے کی آوازیں اُٹھ رہی ہیں ۔ بہتر یہ ہے کہ اس مسئلے کو باہمی و افہام و تفہیم کے ذریعے حل کر لیا جائے۔ اس معاملے میں تاخیر احساس محرومی کو مزید توانا کر دے گی۔ ہم ان 12یونٹوں کو فی الفور بحال کر سکتے ہیں جنہیں ماضی میں ملا کر ایک یونٹ قائم کیا گیا تھا اور ایک دارالحکومت اسلام آباد ملا کر کل 13صوبے ملا کر پاکستان کو مضبوط کر سکتے ہیں۔
تازہ ترین