ایسا لگتا ہے کہ پسِ پردہ سب کچھ طے ہو چکا ہے وہ اسی لئے واپس آ رہا ہے کہ اسے اقتدار تک کا راستہ واضح نظر آ رہا ہے۔معاملات صرف اس کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہی طے نہیں ہوئے بلکہ اس حوالے سے پاکستان کے دوست ممالک کی معاونت بھی شامل نظر آتی ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ دوست ممالک نے پاکستان کی مالی امداد کا جو اشارہ دے رکھا ہے اس کے لئے شرط یہ باندھی گئی ہے کہ ایسا سیاسی چہرہ لایا جائے جو لانگ ٹرم معاشی پالیسی کی ضمانت دے۔ میری رائے ہے کہ اگر یہ سب کچھ طے نہ ہوا ہوتا تو وہ واپس ہی نہ آتا۔ یہ بھی صاف نظر آر ہا ہے کہ اگر وہ 21 اکتوبر کو واپس آگیا تو وہ جیل نہیں جائے گا بلکہ اسے ریلیف دے کر سیاسی میدان میں فری ہینڈ دیا جائے گا۔ یہ بھی تقریباً طے ہے کہ اگر وہ واپس آتا ہے تو پھر الیکشن کروائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوگا اور جب ملک میں الیکشن کی سیاست ہوگی تو پھر تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے بارے میں بھی فیصلے جلد از جلد کرنا پڑیں گے۔
عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ واپس آکر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے خلاف جاری منتقمانہ پالیسیوں کا حصہ بنے گا اور جوکچھ خود اس کے اور اس کی پارٹی کے ساتھ ہوا تھا، اس کا بدلہ لے گا۔ میری ذاتی رائے ہے کہ اگر انتقام لینا ڈیل کا حصہ ہے تو اُسے یہ نہیں کرنا چاہئے اُسے انتقام اور بدلے کی سیاست کا خاتمہ کرنا ہوگا، جو کچھ تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے اسے روکنا ہوگا۔ میری یہ رائے نئی نہیں ہے، میں 19 اگست 2022ء کو لندن میں میاں نواز شریف سے ملا تھا اور یہ عرض کیا تھا کہ آپ تین بار وزیر اعظم پاکستان رہے ہیں ملک کے سب سے سینئر اور تجربہ کار سیاستدان ہیں آپ کو چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف انتقام کا حصہ نہیں بننا چاہئے۔ میاں نواز شریف نے میری رائے سے اتفاق نہ کیا اور کہا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین سیاستدان نہیں بلکہ وہ تو سیاست اور سیاست دانوں کے سرے سے ہی مخالف ہیں اب جبکہ وہ خود اپنی ہی پالیسیوں کی سزا بھگت رہے ہیں تو ہمیں ان کو بچانے کی کیا ضرورت ہے۔میں نے اس ملاقات میں بھی میاں صاحب کی رائے سے اختلاف کیا تھا اور آج بھی اسی رائے کا اظہار کر رہا ہوں کہ اگر ملک میں جمہوریت اور پارلیمانی سیاست کو چلانا ہے تو انتقام کا سلسلہ بند کیا جائے، جب پی ٹی آئی برسراقتدار تھی تو نواز شریف اور ان کی جماعت جیلوں میں بند تھی اور ان سے انتقام لیا جا رہا تھا، میں اس وقت بھی بار بار تحریک انصاف کی حکومت کی توجہ اس طرف دلاتا رہا کہ انتقام کا یہ سلسلہ بند ہوناچاہئے وگرنہ کل آپ کو بھی اس کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ چنانچہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا ،اب تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے خلاف انتقامی کارروائیاں جاری ہیں اور نونی خوش ہیں کہ ان کا بدلہ پورا ہورہا ہے، اگر انتقام کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو پھر سیاست اور جمہوریت کی بحالی کبھی بھی ممکن نہیں ہوگی، اسی لئے بطور ایک ادنیٰ طالب کےعلم میری خواہش ہے کہ وہ جو زیادہ تجربہ کار ہے، وہ جو چوتھی بار وزیر اعظم بننے والا ہے، وہ پہل کرے اور انتقام کا یہ دائرہ توڑے، ملک کی سیاسی تقسیم کی بجائے مفاہمت کا ڈول ڈالا جائے، کیا ہی اچھا ہو کہ وہ آئے اور آ کر کہے کہ میرے مخالف کو جیل سے نکالو اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو جب اسے اقتدار ملے تو پہلا کام یہ کرےکہ اپنے مخالف کو جیل سے نکال کر اس سے مفاہمت کرے۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو نہ وہ کامیاب ہوگا اور نہ ہی پاکستان آگے چل سکے گا۔
یادش بخیر چیئرمین تحریک انصاف سے ان تین ملاقاتوں کا ذکر بھی ضروری ہے جو 9مئی سے پہلے ہوئیں پہلی ملاقات میں مجیب الرحمٰن شامی اور یہ کالم نگار موجود تھے۔ دوسری ملاقات امتیاز عالم اور ان کےوفد کے ہمراہ ہوئی۔ تیسری ملاقات میں اسلام آباد اور لاہور کے نمایاں ٹی وی اینکرز موجود تھے۔ ان تینوں ملاقاتوں کا محور و مرکز یہی تھا کہ تحریک انصاف حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرے۔ چیئرمین تحریک انصاف کا موقف تھا کہ وہ ان کرپٹ سیاسی حکمرانوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے انہیں دوسرا مشورہ یہ دیا گیا تھا کہ آپ اسٹیبلشمنٹ سے اپنے بگڑے ہوئے معاملات کو درست کریں، ان کا کہنا تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کرتے ہیں مگر ادھر سے کوئی مثبت جواب نہیں ملتا۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ آپ یک طرفہ طور پر اعتماد سازی کے اقدامات شروع کردیں، اسٹیبلشمنٹ جب اعتماد سازی کے اقدامات دیکھے گی تو لازماً فاصلے کم ہونے شروع ہو جائیں گے۔ بدقسمتی یہی ہے کہ ان تین ملاقاتوں کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہوا اور پھر آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا یعنی 9مئی کا واقعہ جس میں اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف میں تصادم ہوگیا۔ اس واقعے سے تحریک انصاف کو تو جو نقصان ہوا سو ہوا ملک میں سیاست، جمہوریت، میڈیا کی آزادی اور انسانی حقوق کی جگہ کم ہوگئی اور اسٹیبلشمنٹ نہ صرف طاقتور ہوئی بلکہ اسے جمہوری جگہ پر اپنا قبضہ جمانے کا بیانیہ مل گیا۔
میری رائے میں ملک کو آگے چلانا ہے تو نفرت کی سیاست کو چھوڑنا ہوگا، سیاست میں ایک دوسرے سے نفرت اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کے رویوں نے معاشرے کو بے یقینی اور ناامیدی کے کنارے پر لاکھڑا کیا ہے،تحریک انصاف سے کوئی لاکھ اختلاف کرے مگر وہ ایک پاپولر سیاسی جماعت ہے اسے دبا کر ملک اور جمہوریت کا کوئی بھلا نہیں بلکہ نقصان ہوگا۔ دوسری طرف چیئرمین تحریک انصاف کو بھی نفرت، غصے اور انتقام کو خیرباد کہنا ہوگا، اپنے مخالفین اور ان کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا ہو گا، ملک کو آگے چلانا ہے، جمہوریت اور آئین کو برقرار رکھنا ہے تو اس راہ کو اپنانا ہو گا۔ ہم نے گالیوں اور احتساب کی سیاست بہت دیکھ لی، نہ اس سے ملک کا کوئی سیاسی فائدہ ہوا اور نہ ہی کوئی معاشی فائدہ، بلکہ اس سے معاشرہ تقسیم ہوا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ساری سیاسی قوتیں اس عمل کی راہ روکیں اور اس حوالے سے سب سے بڑا کردار اس کا ہے جو چار سال بعد واپس آ رہا ہے اگر وہ انتقام میں چلتا رہا تو مایوسی اور بڑھے گی، ہاں البتہ اس نے مفاہمت کی راہ اپنائی تو ملک میں امید کی روشنی نظر آنا شروع ہو جائے گی۔