• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف بطور وزیراعظم 21 اکتوبر کو ایسے قدم رنجا فرمانے کو کہ کل 10 سال کی سزا سنانے والا جج بشیر آج نواز شریف کی حفاظت کا ضامن بن چُکا، دوسری طرف اسلام آباد ہائی کورٹ ’’بقول شخصے نواز شریف نے جس عدالت کا کل تمسخر اُڑایا تھا‘‘، آج اُسی عدالت نے بلا حیل و حجت ضمانت دے دی ، بدلتا ہے آسماں رنگ کیسے کیسے۔ 22 مارچ 2018 جنگ میں یہ کالم ’’کوئی تو ہے جو نظام وطن چلا رہا ہے‘‘ چھپا تھا۔ نواز شریف واپسی کی مناسبت سے مختصر کر کے، یادش بخیر اپنی پیشن گوئیاں دوبارہ آپکی نذر ۔

’’نواز شریف اور خاندان کڑے مقدمات میں اس طرح ملوث، آرٹیکل10(A) ابدی نیند میں، مقدمات منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں، فقط نگران حکومت کا انتظار ہے۔ سپریم کورٹ کی مصروفیات دیدنی، عدالتی ہاتھ انتظامیہ کو دبوچنے، سدھارنے میں کامیاب، اب سیاست کو ٹھیک کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ آنے والے دنوں میں لیگی سیاستدانوں کو مثال بنانا ہے۔ لیگی رہنماؤں کی نا اہلیاں آئے دن متوقع ہیں۔ پیغام واضح گھر گھر پہنچایا جا رہا ہے، راستے دو ہی ’’ن لیگ چھوڑیں یا نااہلی سمیٹیں‘‘۔ ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘، الیکشن دھاندلی، پاناما کیس، نواز شریف نا اہلی، بلوچستان حکومت کی زمین بوسی، نواز شریف کی بحیثیت صدر معزولی، سینٹ چیئرمین کا دن دیہاڑے ’’صاف شفاف‘‘ انتخاب، خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوںکہ کسی ایک عمل یا دیگر درجنوں کار ہائے نمایاں میں زرداری عمران کا کوئی عمل دخل اور نہ ہی کوئی قصور۔

بات پرانی وہی کہانی، 2017 میں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے معزولی پر ن لیگ نے تتر بتر ہونا تھا، امیدیں خاک رہیں۔نئی ضد سامنے آئی کہ نواز شریف کو صدارت سے ہٹائو، ن لیگ ٹوٹ جائے گی، کام نہ بنا۔ شیر کا نشان نہ دے کر بھی دیکھا، قوم دھوکا کھانے پر آمادہ نہ ہوئی۔ اگرچہ نیا بڑا سیاسی پلیٹ فارم تشکیل پانے کو، کنونشن لیگ اور ق لیگ جیسی ’’قومی لیگ‘‘ بننے کو۔ کنونشن لیگ، ق لیگ، آئی جے آئی جو نام بھی، تاریخ سے یہی ثابت، استعمال کے بعد کوڑا دان ہی آخری آرام گاہ رہنی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو یا نواز شریف دونوں کی اٹھان اسٹیبلشمنٹ کی سیاست سے ضرور رہی، بچ گئے کہ بھٹو صاحب 1966میں اسٹیبلشمنٹ کےسامنے خم ٹھونک کر جبکہ نواز شریف 1993 میں صدر اسحاق اور جنرل اسلم بیگ سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے۔ اسٹیبلشمنٹ کیلئے بھی سوچنے کا مرحلہ، جس کسی نے اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لی، رفعت اور مقام پایا۔

ایک تاثر یہ بھی ہے کہ سول ملٹری تعلقات کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتے، 70سالہ تاریخ تائید کرتی ہے۔ سویلین حکومت سے’’ناچاقی‘‘ اداروں کی طبیعت میں رچ بس چکی ہے۔ پچھلے چند دنوں سے شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کو منانے میں مستعد اور روبہ عمل ہیں۔ یقین دلاتا ہوں، خدا کے گھر جائیں یا خدا کی شان دیکھیں، اگلوں کے ارادے غیر متزلزل، مستقل مزاجی شعار ہے۔ ابھی سے ن لیگ کے ممبران اسمبلی کو واضح پیغامات پہنچائے جا رہے ہیں، پی ٹی آئی جوائن کرو یا گھر بیٹھ جائو‘‘۔ ایسی جامع تجویز کتنے لوگ پلے باندھتے ہیں، وقت بتائے گا؟ پس پردہ قوتوں کی ساری منصوبہ بندی، ’’سب کچھ درست‘‘ سمت میں جا رہا ہے۔ بلاشبہ سیاست کا محور و مرکز نواز شریف مزید مستحکم و مضبوط ابھر کر سامنے آ چکے ہیں۔ آنے والے عام انتخابات میں کسی طور عام آدمی کو ووٹ استعمال کرنے کی آزادی رہی تو سارے سروے، ماضی کے ضمنی الیکشن، نواز شریف کی پبلک پذیرائی، بے شمار آثار نواز شریف کی جیت یقینی بتا رہے ہیں۔ سب کچھ کے باوجود نواز شریف کیلئے’’سب اچھا‘‘ نہیں ہے۔

تاریخ میں درج ایک سبق اور بھی، بے نظیر1988 کے الیکشن جیت کر حکومت بنانے میں کامیاب ضرور ہوئیں، وزیر تک اپنی مرضی کے نہ بنا سکیں، 2سال 5 ماہ بعد گھر بھیج دیا گیا۔ مثال اس لئے، بفرض محال، ن لیگ کی کامیابی کی صورت میں، نئی حکومت کو ہر گز کام کرنے نہیں دیا جائے گا۔ موجودہ دنگل نے جاری رہنا ہے۔ ہمارے مستعد ادارے، امپائروں نے اپنا اور قوم کا قیمتی وقت جس طرح پچھلے چار سال میں حکومت کی اکھاڑ پچھاڑ میں خرچ کیا۔ نواز شریف کے دوبارہ اقتدار میں آنے پر آنے والے دنوں میں یہی کاروبار یکسوئی سے جاری رہنا ہے۔ مجھے قوی امید ہے، نگران حکومت کی مطلق العنانی، نواز شریف کی زباں بندی، شریف خاندان کی قید و بند، دیگر رکاوٹوں، دبائو لالچ سے شاید ’’قومی لیگ‘‘، ’’سینٹ ماڈل اسٹائل‘‘ نئی حکومت بنالے گی۔ حکومت چلانا خالہ جی کا کام نہیں اور وہ بھی چوں چوں کے مربے سے، شک نہیں کہ ’’بھان متی کے کنبہ‘‘ کو شاندار ناکامی دیکھنا ہے۔

وطن عزیز کا تو نقصان ہی نقصان جبکہ نواز شریف کی واضح اور روشن کامیابی مستند رہنی ہے۔ نواز شریف ان چند سال میں اقتدار سے ضرور باہر، ناقابل تسخیر بن جائیں گے۔ ایسے مضبوط و مقبول کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر رہے گی۔ دو قومی جماعتیں پیپلز پارٹی، خصوصاً تحریک انصاف سیاسی طور پر سب سے زیادہ نقصان اٹھائیں گی۔ قومی سانحہ کہ قومی پارٹیاں اپنے لیڈروں کی بدمستیوں اور بد نیتیوں کا اس طرح خمیازہ بھگتیں گی۔ نواز شریف کے 2018 میں اقتدار میں نہ آنے کا ایک اور فائدہ بھی، 70 سال سے بگڑے سول ملٹری تعلقات کو حالات کے جبر اور نامساعد ملکی حالات، ہمیشہ کیلئے ڈھنگ پر لے آئیں گے۔نواز شریف کو گارنٹی دیتا ہوں کہ2023 یا اس سے بھی ایک آدھ سال پہلے اقتدار خود بخود انکے قدموں میں آنا ہے کہ قومی افق پر ایک ہی سیاسی رہنما، جناب ہی نے تو بچنا ہے۔ جبکہ '1971میں عبرتناک شکست کے بعد صدر جنرل یحییٰ نے نور الامین اور ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار گھر جا کرہی تو دیا تھا۔ اگلے دو تین سال میں مقتدر پارٹیوں کا مقدر خواری ورسوائی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ ن لیگ کو جب دوبارہ 2023میں اقتدار ملے گا تو سول ملٹری تنازع کی وجہ نزاع کا تدارک ہوچکا ہوگا۔ البتہ ایک شرط کڑی، اس کھینچا تانی میں، پاکستان کا سلامت رہنا ضروری ہے کہ آنیوالے دن وطن عزیز پر بہت کڑے ہیں‘‘۔ (5 سال 7 ماہ پہلے لکھا گیا کالم، آج دوبارہ دیکھا تو لگا آج کے عمران خان اور تحریک انصاف پر لکھا ہے) ۔

شذرہ: ’’دوست‘‘ شاید ٹویٹ کا بُرا منا گئے، حسان خان سے آج ممکنہ ملاقات نہ ہو سکی۔ حقی سچی طاقت کے اندر ایک بڑا پن ہوتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے ہاںکی طاقت میں ایسی معمولی خوبی کا بھی فقدان ہے۔

تازہ ترین