• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی معاشی نظام حیران کن تبدیلیوں کا سامنا کر رہا ہے ان تبدیلیوں نے دنیا بھر کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی معاملات کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے۔ دنیا بھر کے مالیاتی ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ ڈالر کا تسلط اب رفتہ رفتہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ڈالر کی جگہ متبادل کرنسیاں بڑی تیزی سے اپنی ویلیو میں قابلِ قدر اضافہ کر چکی ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی اداروں کا قیام غیر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی معاونت کرنے کی بجائے انہیں ڈالر کے شکنجے میں کسنے کیلئے عمل میں لایا گیا۔دنیا کے مختلف ممالک اس وقت ڈالر کی اجارہ داری سے نالاںاورڈالر کے متبادل مقامی کرنسیوں کو پروموٹ کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کا آغاز کر چکے ہیں۔ یہ ڈالر ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی بالادستی کے خلاف کھلی بغاوت ہے ۔ تبدیلی کا پہیہ چل پڑے توکبھی نہیں رکتا ۔چینی یوآن، یورو اور دیگر کرنسیاں ڈالر کے مقابلے میں فی الحال مشکلات کا شکار ضرور ہیں لیکن ڈالر کی حیثیت چیلنج ہو چکی ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی بنیادعالمی مالیاتی نظام قبضے میں رکھنے کیلئے رکھی گئی۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کاسب سے بڑا اسپانسر امریکہ ہے، یہ ادارے واشنگٹن کے طے کردہ ایجنڈے کو فالو کرتے ہیں ۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی زمامِ کار ایسے افراد کے ہاتھوں میں ہے جو امریکی ہدایات پر مِن و عَن عمل کرنے کیلئے ہمہ وقت مستعد رہتے ہیں۔ مغربی اقوام زیادہ تر سرمایہ دار ہیں اسی لیے یہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسی ہے کہ وہ سرمایہ داری اور اس کے مفادات کے محافظ ہیں۔

آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو مغربی طاقتیں جیو پولیٹکل ایجنڈوںکیلئے استعمال کرتی رہی ہیں۔ ہم خیال لیڈروں اور حکومتوں کو کریڈٹ لائنز، بیل آؤٹ پیکیجز اور پروجیکٹس کی فنڈنگ ملتی ہے ،جو خواہشات کے مطابق عمل نہیں کرتے ان پرپابندیاں لگ جاتی ہیں۔ افریقہ، جنوبی امریکہ یہاں تک کہ ایشیا میں، جو ممالک اپنی خارجہ پالیسی واشنگٹن کے مطابق ترتیب دیتے ہیں، انہیں آئی ایم ایف سے ریلیف ملتا ہے۔ جو ممالک نا پسندیدہ ہیں ان پر پابندیاں لگا کر انہیں نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ یہ مالیاتی ادارے امدادِ باہمی ، جنگوں کی روک تھام اور ترقی پذیر ممالک کی مالی امدادکیلئے قائم کیے گئے تھے لیکن ان کا کردار ان کے چارٹر کے بالکل برعکس رہا ہے دنیا بھر میں ترقی پذیر ممالک اگر معاشی و سیاسی استحکام کی جنگیں لڑ رہے ہیں تو اس میں بڑی حد تک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا درپردہ عملی کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ پر پابندی ہے لیکن مغربی ممالک کے وفاداراس سے مستثنیٰ ہیں۔ طاقت کے مراکز تبدیلی کے مراحل میں ہیں ڈوبتی معیشتیںآئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے ہاتھ پائوں مار رہی ہیں تاکہ متوقع تبدیلی کو عمل میں آنے سے روکا جا سکے ۔ غریب ممالک کی ترقی میں مدد کرنے کی بجائے امریکہ نے غریب ممالک کو آئی ایم ایف کے قرضوں اور کریڈٹ لائنوںمیں جکڑ کراپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوششیں کیں۔

چین کی ترقی دنیا کی معاشیات میں ایک منفرد کیس اسٹڈی ہے۔ کمیونزم اور سوشلزم پر قائم ایک ملک سرمایہ دارانہ وسیع عالمی نظام کے ہوتے ہوئے سب سے بڑی معاشی طاقت بن گیا ۔ چینی ماڈل سوشلسٹ اور سرمایہ دارانہ دونوں کا خوبصورت امتزاج ہے۔ چین نے اسی نظام کے تحت بہت تھوڑے عرصے میں اپنے کروڑوں افرادکو غربت سے نکالا آج ہرچینی خاندان کی اوسط گھریلو آمدنی تیرہ ہزار ڈالر ماہانہ سے زیادہ ہے۔

2022 میں عالمی مالیاتی ذخائر کا 58 فیصد ڈالر میں تھا جو چینی یوآن کے آنے کے بعد بہت کم رہ جائے گا۔ ایشین مانیٹری فنڈ اور اس جیسے دوسرے ادارے آئی ایم ایف کے متبادل کے طور پر تشکیل پا رہے ہیں۔دنیا بھر میں نئے اتحاد تشکیل پا رہے ہیں نئے معاشی محاذ بن رہے ہیں۔ تاحال امریکہ کی ہزار کوششوں کے باوجود عالمی معیشت میں چین کی تیز تر پیش قدمی کو روکا نہیں جا سکا۔ کبھی چین کے مقابل نئے سیاسی اتحاد تشکیل دیے جا رہے ہیں اور کبھی معاشی بلاکس بنا کر اس معاشی عفریت کا راستہ روکنے کی سعی لا حاصل کی جا رہی ہے۔پاکستان ایک جیو اسٹرٹیجک ملک ہے۔ یہ مواقع اور صلاحیتوں سے مالا مال ہے ، عالمی طاقت کی تبدیلی کے اس عمل میںچین اور امریکہ دونوں پاکستان کی جغرافیائی اہمیت سے صرفِ نظر نہیں کر پا رہے۔ دونوں کے مفادات پاکستان کو اپنے اپنے مقاصد کیلئے کام میں لانے پر مجبور کرتے ہیں ۔یہی ہماری خوش قسمتی اور یہی ہماری سب سے بڑی بد قسمتی ہے۔ امریکہ اور چین جیسی دیوہیکل طاقتوں کی پنجہ آزمائی کے درمیان پاکستان پِس رہا ہے جو دونوں کی ضرورت ہے اور دونوں سے پاکستان کے سیاسی اور معاشی مفادات جڑے ہیں۔آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان سرِ فہرست ہے جو اپنے بھاری قرضوں کے بوجھ کے باعث ڈوبتی عالمی طاقت امریکہ کے سامنے تن کے کھڑا ہونے سے قاصر ہے۔ اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ پاکستان کو اپنے مقاصدکیلئے استعمال کرتا آیا ہے۔چین ان تمام حقائق سے آشنا ہونے کے باوجود پاکستان کے ساتھ تجارتی و اقتصادی روابط کو بڑھا کر پاکستان کو ان مسائل سے نکالنے کی سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے۔ بالآخر امریکی تسلط کا خاتمہ پاکستان سمیت دنیابھر کو ایک نئے معاشی مستقبل سے ضرور روشناس کروائے گا ،تب تک آئی ایم ایف جیسے ادارے ہر ممکن کوشش کریں گے کہ پاکستان جیسے ممالک اس کی گرفت سے اپنی گردن چھڑانے میں ناکام رہیں لیکن اس بار شاید یہ کوششیں بارآورثابت نہ ہوسکیں گی۔

(مصنف جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین