(گزشتہ سے پیوستہ)
لاہور کی آج سے پچاس برس قبل شاید ہی کوئی سڑک ایسی ہو جہاں پر تانگہ ، ریڑھا، ٹم ٹم اور بیل گاڑی نہ چلتی ہو۔ اندرون شہر کی ایک یہ بھی خوبی ہے کہ کسی نہ کسی گلی، بازار، کوچے اور کٹڑی میں کسی نیک شخصیت کا مزار مبارک ہےاور ان کے ساتھ کئی روایات بھی وابستہ ہیں۔ ان شا اللہ تعالیٰ اس پر بھی کبھی بات کریں گے۔ بیل گاڑی بھی دو طرح کی ہوتی تھیں ایک لکڑی کے پہیوں والی اور دوسری ٹرک کے ٹائروں والی۔ ہمیں یاد ہے کہ ٹیپ روڈ پر اور لاہور کی کئی ایسی سڑکیں جو رات کو سنسان ہوتی تھیں تو وہاں گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز ایک خاص ماحول اور ردھم پیدا کرتی تھی۔ ہر گھوڑے کی ٹاپ کی آواز دوسرے گھوڑے کی ٹاپ سے مختلف ہوتی تھی کیونکہ گھوڑے کے نعل بنانے والے ہر ہنر مند کا ہاتھ بھی مختلف ہوتا تھا ہم نے اپنے بچپن میں براتوں کو تانگوں پر جاتے خود دیکھا ہے۔ دولہا کا تانگہ بہت سجایا جاتاتھا اور وہ پیلے رنگ کاتانگہ نہیں ہوتا تھا بلکہ لاہور میں کسی پرائیویٹ تانگہ کو جو عموماً مختلف رنگوں کے ہوتے تھے، کرایہ پر حاصل کرکے اس کو سجایا جاتا تھا۔
لاہور میں باقاعدہ کارپوریشن کے مقرر کردہ تانگوں کے اڈے ہوا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ تانگہ کھڑا کرنا قابل چالان ہوتا تھا۔قارئین کیلئے یہ بات بڑی دلچسپی کا باعث ہوگی کہ جب لاہور اور پنجاب میں 1919ء میں انگریز سرکار نے مارشل لا لگایا تو اس مارشل لا کے کئی ضابطے بڑے دلچسپ تھے۔ تانگہ بان، بائیسکل سوار اور اسٹوڈنٹس ان ضابطوں کا زیادہ شکار ہوئے۔ کبھی مارشل لا کے حکم نمبر 55 کے تحت تانگوں کے مالکان کو فوجی ڈیوٹی کیلئے پابند کردیا جاتا تھا، کبھی بائیسکل لاہور کے کسی سینما گھر میں جمع کرلی جاتی تھی اور پھر واپس کرنے کی تاریخ اور وقت دیا جاتا تھا۔ جس سائیکل کے ساتھ بتی (ڈینمو) اور ہوا والا پمپ نہیں ہوتا اس کا بھی چالان ہو جاتا تھا۔ سائیکل سوار سینما گھروں میں سائیکل کی بتی اتار کر اور پمپ ساتھ لے کر جاتے تھے۔ اگر کسی نے سائیکل اسٹینڈ پر ان دونوں چیزوں سمیت سائیکل کھڑی کرنا ہوتی تھی تو اس کا کرایہ علیحدہ دینا پڑتا تھا۔ لاہور میں سائیکلوں سے بتی اور پمپ بہت چوری ہوتے تھے جو تانگے گورا فوج نے فوجی ڈیوٹی کے لئے حاصل کئے تھے ان پر مخصوص نشان لگائے گئے تھے اور اس کو عام شہری استعمال نہیں کرسکتے تھے اور مخصوص نشان والے تانگہ بان بھی کسی شہری کو نہیں بیٹھا سکتے تھے۔ کیا عجیب و غریب دور تھا۔ اس شہر لاہور میں ایک ایسا وقت بھی آیا کہ گورا حکومت نے شہر لاہور کے تمام باسیوں کی بائیسکل شاہی قلعہ میں جمع کرلی تھیں اور اگر کوئی شہری یہ حکم نہ مانتا تو اس کی یہ حرکت مارشل لا کے قوانین کے خلاف سمجھی جاتی تھی۔ لاہور میں مارشل لا کے حوالے سے ہمیں کئی قارئین نے فون کیا تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ لاہور میں مارشل لا کا نفاذ ہوا تھا۔ فرینک جانسن کو لاہور میں مارشل لا کا انچارج مقرر کیا گیا تھا اس کو آپ لاہور کا مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، ایریا کمانڈر یا لاہور کے ماشل لا کا کمانڈنگ آفیسر انچارج بھی کہہ سکتے ہیں۔ لاہور میں پچھلے ایک سو برس میں بہت کچھ تبدیل ہوا۔ صرف جغرافیائی طور پر تاریخی قدیم عمارات اور باغات ہی ختم نہیں ہوئے کئی اچھی روایات، تہذیب، ثقافت، شائستگی تک ختم ہو چکی ہے۔ باقی ہڑتالیں تب بھی ہوتی تھیں اور ہڑتالیں آج بھی ہوتی ہیں۔ انار کلی کے تاجروں نے انگریز حکومت کے خلاف ہڑتال کردی چنانچہ سارا شہر بند ہوگیا تو فرینک جانسن نے زبردستی دکانیں کھلوائیں۔ آج بھی دکانیں زبردستی کھلوائی جاتی ہیں اور زبردستی بند بھی کرائی جاتی ہیں۔ لاہور میں مارشل لا کے دوران روزانہ صبح آٹھ بجے شاہی قلعہ سے توپ چلائی جاتی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اب کوئی شخص بغیر حکومتی اجازت کے توپ کے چلنے کے اگلے روز صبح پانچ بجے تک اپنے گھروں سے باہر نہیں آسکتا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی لاہور میں کئی مرتبہ ایسا ہوا۔ بلکہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی اسی قسم کی پابندی لگائی گئی تھی فرق یہ تھا کہ توپ کا گولہ نہیں داغا جاتا تھا۔ اس زمانے میں لاہور کے ڈپٹی کمشنر کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یعنی ڈی ایم بھی کہا جاتا تھا۔ اس نے ایک بڑا دلچسپ نوٹس شہر کی دیواروں پر چسپاں کرایا، اگر یہ نوٹس پھاڑا گیا تو ارد گرد کے رہنے والوں کو بھی پکڑ لیا جائے گا۔ کوئی یقین کرے گا کہ مارشل لا تو شہر میں لگا ہوا تھا اور پھر کچھ دیر بعد شہر کے اوپر جہاز بھی اڑائے جاتے تھے جو والٹن ایئرپورٹ سے اڑتے تھے اور وہ شہر کا جائزہ لیتے تھے۔ ڈی ایم یعنی ڈپٹی کمشنر کے حکم پر پولیس آنسو گیس، لاٹھی چارج یا گولی چلاتی تھی ۔ ایک عہدہ ایس ڈی ایم تھا یعنی سب ڈویژن مجسٹریٹ۔ لاہور کی ٹھنڈی سڑک پر لاہوریوں نے جلوس نکالا تو جلوس پر فائرنگ کر دی گئی۔ ٹھنڈی سڑک لاہور میں اس وقت دو تھیں ، مال روڈ اور سندر داس روڈ، ہمارے نزدیک سندر داس روڈ زیادہ ٹھنڈی سڑک تھی کیونکہ یہ میو گارڈن کے سفیدے کے درختوں اور چیف کالج (ایچیسن کالج) کے بانسوں سے اس قدر ڈھکی ہوئی تھی کہ یہاں سورج نظر نہیں آتا تھا اور بانس جھک کر میو گارڈن کے درختوں سے ملے ہوئے تھے۔ بہر حال اب نہ تو مال روڈ ٹھنڈی سڑک ہے اور نہ ہی سندر داس روڈ ٹھنڈی سڑک رہی ہے۔ دونوں سڑکوں کے درخت مدت ہوئی کٹ چکے ہیں۔ انگریز نے لاہور میں دو ٹھنڈی سڑکیں بنائی تھیں، مال روڈ اور دوسری سندر داس روڈ اب یہ دونوں سڑکیں ٹھنڈی نہیں رہیں۔
فوج کو یہ اختیار تھا کہ وہ گورا سپاہیوں کی سہولت اور آرام کے لئے کسی بھی کالج، ہوسٹل، ہوٹل اور عمارت میں داخل ہو کر بجلی کے بلب اور پنکھے اتار کر انہیں فوجی بارکوں اور جہاں جہاں بھی گورا فوج ٹھہری ہوتی تھی وہاں پر لگا سکتے تھے۔ اگر کسی شخص نے یہ پنکھے یا بلب دینے سے انکار کیا یا انہیں خراب کیا تو اس کو مارشل لا کے تحت سزا ملتی تھی۔ انگریز حکومت نے یہ پنکھے اور بلب ڈیڑھ سال تک استعمال کئے اور اس کے بعد 9جون 1919ء کو ان لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے پنکھے اور بلب فلیٹز ہوٹل سے آ کر لے جائیں یا ان کی قیمت وصول کر لیں۔ (جاری ہے)